اس وقت تک میری رہائی کا بظاہر کوئی سامان نہ تھا، مگر اس مستجاب الدعوات نے اسی دم ان کی فریاد کو شرف قبولیت سے نوازا، ۳۰ دسمبر ۱۸۸۲ء کو کسی درخواست، سعی و کاوش یا سفارش کے بغیر میری رہائی ہوگئی اور مجھ سے بھی پہلے پانی پت میری بیوی کو اس کی اطلاع دی گئی، اب جو میری رہائی کا زمانہ قریب آیا تو ہر وقت اپنی رہائی کا منتظر رہتا تھا اور اس ملک کے تحفے تحائف جمع کرکے چلنے کے لیے بالکل تیار ہو گیا، اگرچہ بہت سے لوگ میرے مقدمہ اور محکمۂ گورنری کی کارگزاری کو دیکھ کر میری اس تیاری پر تعجب کا اظہار کیا کرتے تھے، آخر کار ۲۲ جنوری ۱۸۸۳ء بروز دو شنبہ مہارانی انگبوٹ یہ حکم لے کر پہنچا کہ وہابی کیس میں بجرم بغاوت جس قدر آدمی قید ہیں، سب کو رہا کرکے ہندوستان روانہ کر دیا جائے، ان کی لوکل گورنمنٹ ان کی سکونت کے لیے معقول بندو بست کرے گی، جب یہ حکم وہاں پہنچا تو میرے علاوہ مولانا عبد الرحیم صاحب، میاں عبد الغفار، مولانا تبارک علی، مولانا امیر الدین اور میاں مسعود گل اس مقدمہ کے چھ آدمی وہاں موجود تھے ؛ چنانچہ سب کی رہائی ہوگئی۔
اخبارات کے ذریعہ ہندوستان میں جب یہ خبر مشہور ہوئی تو اسلامی حمیت کے پیش نظر مسلمانوں کی تمام اسلامی انجمنوں اور مجلسوں نے لارڈ رپن کے اس ترحم خسروانہ کا بذریعۂ میموریل شکریہ ادا کیا، جیسے ہماری گرفتاری پر تمام ہندوستان میں کہرام مچ گیا تھا، ویسے ہی اب گھر گھر خوشی اور شکرانہ کی مجلسیں منعقد ہوئیں اور لارڈ رپن کی مداحی اور شکر گذاری سے ہماری زبان اور قلم کبھی قاصر نہ رہے گا، جس کی اولو العزم اور ترحمانہ پالیسی کے باعث ہمیں پھر سے ہندوستان دیکھنا نصیب ہوا۔
اسی عرصہ میں میرے ایک پرانے شاگرد کپتان ٹمپل نے جو میری رہائی کے وقت کیمپ انبالہ میں مجسٹریٹ تھے، میری رہائی کی خبر سن کر مجھے لکھا کہ اگر تم میرے پاس رہنا قبول کرو تو میں گورنمنٹ سے اجازت لے کر تمھیں اپنے پاس بلا لیتا ہوں، میں نے اس پیام کو تائید غیبی سمجھ کر فوراً قبول کر لیا، انہوں نے گورنمنٹ پنجاب سے اجازت حاصل کرکے اور خود میرے ضامن بن کر نگرانی کی تمام شرائط کو موقوف کردیا۔