جب مولانا احمد اللہ صاحب نہایت کمزور اور چراغ سحری ہوگئےتو مولانا عبد الرحیم صاحب نے اس کی حالت بیان کرکے حکام کو لکھا کہ میں ان کا قریبی رشتہ دار ہوں، ویپر میں ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں، لہذا انھیں ابرڈین میں میرے گھررہنے کی اجازت دی جائے، یہ درخواست جس کے پڑھنے سے سنگ دل سے سنگ دل انسان کا دل بھی موم ہو سکتا تھا، محض اس وجہ سے مسترد کردی گئی کہ احمد اللہ اور عبد الرحیم دونوں وہابی ہیں، ان کے ساتھ یہ رعایت نہیں ہوسکتی۔
جب مولانا موصوف کی حالت نہایت پتلی ہوگئی اور انگریزوں کا تعصّب شدّت اختیار کرتا گیا تو مولانا عبد الرحیم نے یہ درخواست کی انھیں رات کو ویپرمیں مولانا کے پاس رہنے کی اجازت دے دی جائے، بڑی رد و کد اور بحث کے بعد یہ درخواست منظور ہوئی اور مولانا عبد الرحیم کو ۲۰ نومبر کو شام کے وقت ایک تحریری پاس ملا اور اسی رات ۲۱ نومبر ۱۸۳۱ء، ۲۸ محرم ۱۲۹۸ھ شب دو شنبہ کو ایک بجے مولانا موصوف کی روح اس جسم قید درقید کو چھوڑ کر فردوس بریں پرواز کر گئی، نوّر اللہ مرقدہ و برّد مضجعه۔
مولانا کی وفات کے وقت ان کا ایک ملازم ان کے پاس ہسپتال میں موجود تھا، مولانا کئی روز سے بیہوشی کے عالم میں تھے، لیکن وفات کے وقت آپ نے آنکھ کھول کر “إلا اللہ مالك الملك”آخری کلمہ زبان سے ادا فرمایا اور اپنے اللہ کو پیارے ہوگئے۔
۲۱ تاریخ کو آٹھ بجے صبح ہمیں ابرڈین میں آپ کی وفات کی اطلاع ہوئی تو ہم سب بہت سے احباب کے ساتھ کے ساتھ نو بجےویپر پہنچ گئے، میں چونکہ ضلع کچہری میں منشی تھا، اس لیے ضلعدار کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتا تھا، حکام کے تعصّب کی وجہ سے اجازت کا ملنا بھی محال تھا، لیکن آپ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کرنا بھی ضروری تھا، اس لیے میں اللہ پر توکل کرتے ہوئے اجازت کے بغیر ہی ویپر چلا گیا اور ایک درخواست بھیج دی کہ میں مولانا احمد اللہ صاحب کی تجہیز و تکفین میں شرکت کے لیے ویپر جارہاہوں، لہذا میری آج کی غیر حاضری کو معاف فرمادیا جائے۔
ویپر پہنچ کر ہم نے انگریزی حکام سے یہ درخواست بھی کر دیکھی کہ ہمیں اجازت بخشی جائے کہ مولانا احمد اللہ صاحب کی لاش کو ابرڈین لے جاکر ان کے حقیقی بھائی مولانا یحیی علی صاحب کی قبر کے متصل دفن کردیں، یہ درخواست بھی مسترد کر دی گئی تو مجبوراً غسل اور نماز جنازہ کے بعد ڈنڈاس کینٹ کے گور غریباں میں جو کہ وہپر سے تھوڑی دور ہے، انھیں سپردِ خاک کردیا گیا۔
اپنے ان بیس سالہ تجربات سے یہ بھی سیکھا کہ جب کبھی بھی میں نے کسی حاکم یا افسر پر بھروسہ کیا اور خدا کی طرف توجہ نہ دی تو میرے اللہ نے اسی خیالی معاون کے ہاتھ سے مجھے ایذا پہچانے کا بند و بست کر دیا، مگر جب میں نے اس خیال سے تائب ہو کر، اس ذات وحدہ لاشریک کی طرف رجوع کیا تواس نے میری مدد فرمائی اور آفت سے نجات بخشی اور جو لوگ پہلے سے میرے دشمن تھے اور جن سے میں ڈرتا تھا، انہی کو میری مدد اور پشت پناہی کے لیے کھڑا کر دیا۔
خدا تعالی کو یہ کسی طرح بھی منظور نہیں ہے کہ میں اس کی طرف سے غافل ہو کر غیر اللہ کی طرف رجوع کروں، وہ رب العزت ہمیشہ مارمار کر اور تنبیہ کرکے مجھے شرک سے بچاتا، اور اپنی طرف رجوع کراتا رہا ہے۔
ستمبر ۱۸۸۲ء میں میری بیوی نے پانی پت سے خط لکھا کہ میری بڑی لڑکی جوان ہوگئی ہے تمھاری رہائی کی امید پر آج تک اس کی شادی کا ارادہ بھی نہیں کیا تھا، تمھاری جلد رہائی کی اب بظاہر کوئی شکل نظر نہیں آتی، اگر آپ اجازت دیں تو کسی جگہ اس کی شادی کا بند و بست کردیا جائے، نیز اس کار خیر کے لیے آپ کچھ ضروری خرچ بھی بھیج دیں، میں نے حکم رہائی کی تاریخ سے اڑھائی ماہ قبل ۱۴ اکتوبر ۱۸۸۲ء کو زیور اور پارچہ جات کے علاوہ تین سو روپے نقد بھی پانی پت بھیج دیے اور اپنی بیوی کو لکھا کہ تم کسی دیندار مسلمان سے اس لڑکی کی شادی کردو۔
جب میرا بھیجا ہوا مال اسباب اور خط پانی پت پہنچا تو اس کی شادی میں میرے شامل نہ ہونے کی وجہ سے خوشی کے بجاے ان لوگوں میں غم کی لہر دوڑ گئی، میری بیوی اور لڑکی تو رو رو کر یہ دعائیں کرتی تھیں کہ “اے قادر کریم! اس کو بھی اس شادی میں شریک کر”۔