لیکن بایں ہمہ غیبی طور پر دل میں الہام ہوا کہ ہم جلد رہا ہو کر ہندوستان جا رہے ہیں؛ چنانچہ میں نے مولوی انوار الاسلام اور حافظ محمد اکبر پانی پتی کو خطوط بھی لکھ دیے تھےکہ میں جلد ہندوستان آیا چاہتا ہوں۔
جون ۱۸۷۶ء میں خاکسار کا پورٹ بلیر کے جنوبی حصہ ابرڈین میں تبادلہ ہوگیا اور وہاں میں اپنے پرانے آقا اور شاگرد میجر پراتھرو صاحب ڈپٹی کمشنر کا میر منشی مقرر ہوا اور رہائی و روانگی کی تاریخ تک اسی عہدے پر متعین رہا۔
پراتھرو نے میری اعانت سے پورٹ بلیر کے لیے آئین کی کتاب بھی لکھی، جو گورنمنٹ کی منظوری کے بعد مشتہر کی گئی، اس کا اردو ترجمہ بھی میں نے کیا تھا اور وہ بھی چھپ چکا ہے، اسی صاحب نے میری چودہ برس کی کار گزاریوں اور جانفشانیوں پر نظر توجہ کرتے ہوئے میری رہائی کے لیے گورنمنٹ ہند کو بڑی دھوم دھام سے ایک رپورٹ بھیجی، اس رپورٹ پر رہائی تو کیا ہوئی، البتہ سیکریٹری ہوم ڈپارٹمنٹ اس قدر ناراض ہوئے کہ تازیست رہائی ناممکن ہوگئی اور دوبارہ کسی افسر کے لیے میری رہائی کی رپورٹ کرنے کا حوصلہ ہی باقی نہ رہا، ۱۸۸۰ء کے آخر میں مولانا عبد الرحیم کے صاحبزادے مولانا عبد الفتاح صاحب اپنے والد ماجد کی ملاقات کے لیے پورٹ بلیر پہنچے اور کوئی سال بھر رہنے کے بعد واپس چلے گئے، مولانا عبد الرحیم صاحب نے اپنے بیٹے کو ایک درخواست لکھ کر دی، جو ان کی بیوی کی طرف سے لکھی گئی تھی، یہ درخواست اپریل ۱۸۸۲ء میں گورنر جنرل ہند کے نام ارسال کی گئی، درخواست میں بیان کیا گیا تھا کہ:
“میرے شوہر پر کوئی بھاری قصور ثابت نہ ہوسکا تھا، اس لیے جب مقدمہ سیشن جج اور چیف کورٹ میں پیش ہوا تو کہا گیا تھا کہ عبد الرحیم نے اگر نیک چلنی کا ثبوت دیا تو مقدمہ پر نظر ثانی کی جائےگی، مگر اب تو ۱۴ کے بجاے ۱۸ برس ہو چکے ہیں، میں نے اس کی جدائی میں بہت تکلیف اٹھائی ہے اور وہ بھی بہت بوڑھا ہو گیا ہے، لہذا سرکار کو چاہیے کہ اس کے مقدمہ کی مثل ملاحظہ کرنے کے بعد اسے رہائی بخش دے”۔
اس درخواست کے ملاحظہ کرنے کے بعد لارڈ پن نے مثل مقدمہ طلب کیا، نیز پنجاب اور بنگال کی گورنمنٹ سے رائے طلب کی کہ اگر ان وہابیوں کو رہا کردیا جائے تو اس میں کچھ قباحت تو نہیں؟ لوکل حکام کی آراء کے انتظار کےلیے مقدمہ کو آئندہ سال کے آغاز تک ملتوی کردیا گیا۔
یہ درخواست صرف مولانا عبد الرحیم صاحب کے لیے تھی اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا قصور بھی نہ تھا، انھیں تو صرف فرضی مفسدوں کی اولاد ہونے کے جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا اس لیے ہمیں صرف ان کی رہائی کا انتظار تھا، اس ذریعہ سے اپنی رہائی کا تو گمان بھی نہ تھا، خصوصاً اس صورت حال میں جب کہ ان دنوں بنگال کور کے سب صاحب لوگ پورٹ بلیر میں جمع ہوگئے تھے اور ہم سے نہایت تعصّب سے پیش آتے تھے۔
۱۸۸۱ء میں پیری اور ضعف کی وجہ سے مولانا احمد اللہ صاحب کی حالت زیادہ ہی قابل رحم ہو گئی تھی، اس وقت آپ کی عمر ۸۰ سال کے قریب تھی، انہوں نے اپنی حالت زار کے پیش نظر کلکتہ میں مقیم اپنے صاحبزادے مولانا محمد یقین صاحب کو بلانا چاہا اور پورٹ بلیر کے قاعدۂ عام کے مطابق یہ ملاقات جائز اور درست تھی اور سینکڑوں بیٹے اپنے اپنے باپ سے آکر مل گئے تھے، مگر صرف اس وجہ سے کہ احمد اللہ وہابی ہے، ان کی یہ درخواست مسترد کردی گئی۔
اس اثنا میں میں نے بھی بطور امتحان ایک درخواست بھیجی کہ محمد رشید میرے حقیقی برادر زادہ کو میرے پاس پورٹ بلیر آنے کی اجازت دی جائے، یہ درخواست بھی سراسر منظوری کے قابل تھی،مگر صرف اس وجہ سے کہ سائل وہابی ہے، درخواست مسترد کر دی گئی۔