۱۲ اپریل ۱۸۷۲ء کو میری بڑی لڑکی پیدا ہوئی، اس کا عقیقہ بڑی دھوم دھام سے کیا گیا، مولوی امیر الدین صاحب اور مولوی تبارک علی صاحب جن کو یہاں پہنچے ہوئے صرف پندرہ روز ہوئے تھے، انہوں نے بھی اس دعوت عقیقہ میں شرکت فرمائی، اس کے بعد میری دوسری لڑکی پیدا ہوئی، محبت کے مارے میں نے اس کا نام اپنی ہندوستان والی لڑکی کے نام پر رکھا، اس کا عقیقہ بھی پہلے کی طرح بڑی دھوم دھام سے کیا گیا، اس کے بعد تیسرا لڑکا ۲۶ نومبر ۱۸۷۵ء کو پیدا ہوا، اس کا نام بھی میں نے اپنے ہندوستان کے لڑکے کے نام پر محمد صادق رکھا۔
اس لڑکے کی پیدائش کے وقت ایک عجیب سر الٰہی ظاہر ہوا، جو غالباً میری تسلی کے لیے تھا، وہ یہ کہ جس دن یہ لڑکا کالاپانی میں پیدا ہوا، اسی دن بلکہ اسی وقت میرا بڑا لڑکا محمد صادق پانی پت میں فوت ہوا تھا، جب اس کی وفات کی خبر پہنچی، تو میں نے اس کا نعم البدل اور اس کا ہم نام اپنے پاس پاکر صبر و شکر کیا اور اس کی والدہ کو بھی اس کے نعم البدل اور ہم نام مل جانے کی خبر لکھ بھیجی۔
ہنٹر کی کتاب
جب میں نے انگریزی سیکھی تو ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب Our Indian Muslmans دیکھنے کا بڑا شوق پیدا ہوا، توبڑی مشکل سے سات روپے میں کلکتہ سے ایک نسخہ منگوایا، یہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن تھا، جب میں نے کتاب کا مطالعہ کیا تو دیکھا کہ ایک مقام پر ڈاکٹر ہنٹر نے بڑی لمبی چوڑی تمہید باندھ کر لکھا، اگر سرکار نے ترحم خسروانہ سے کام لیتے ہوئے وہابیوں کو کبھی کالاپانی سے رہا بھی کردیا تو وہ اپنی اس رہائی کو اللہ جل جلالہ کی جانب سے سمجھتے ہوئے جب واپس ہندوستان آئیں گے تو انگریزی حکومت کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ تخریب و بربادی کا موجب ہوں گے، سرکار کا تعصّب اور غصہ دیکھ کر ہم تو پہلے ہی رہائی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، یہ زہر آمیز مضمون پڑھ کر رہی سہی امید بھی جاتی رہی۔
جب گورنمنٹ ہند نے ان دائم الحبس قیدیوں کی رہائی کا حکم جاری کیا، جنہیں قید ہوئے بیس سال گذر چکے تھے، تو ہمارے کیس کو اس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا، اس سب سے بڑھ کر نا امیدی اس وقت ہوئی جب ۱۸۸۱ء میں خود ڈاکٹر ہنٹر گورنر جنرل ہند کے مصاحب مقررہوئے، ہم نے خیال کیا کہ جس شخص کی کتاب پڑھ کر دانا سے دانا انگریز گمراہ ہو جاتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمارا دشمن ہو جاتا ہے تو محکمۂ گورنری میں اس کی موجودگی کیا کیا گل نہ کھلائے گی۔