صرف انگریزی زبان کا سیکھنا مضر نہیں بلکہ ضرر رساں بات یہ ہے کہ علوم و فنون کی ان کتابوں کا مطالعہ کیا جائے، جو انبیا کی تعلیم کے خلاف ہیں، خصوصاً جو لوگ اصول دین کی واقفیت نہیں رکھتے ان کے دل میں تو مغربی علوم و فنون کے مطالعہ سے تشکیک کے ایسے کانٹے پیدا ہو جاتے ہیں جو کبھی نہیں نکل سکتے، اس مرض یا دل کی موت کے باعث عبادت سے بھی بہت غافل ہوجاتے ہیں، گو ظاہری طور پر اسلام کے لاکھ دعوے کریں، لیکن درحقیقت وہ اسلام سے منہ موڑ چکے ہوتے ہیں، میرا اپنا حال کچھ اس طرح کا ہوگیا کہ میری نماز تہجد یک قلم چھوٹ گئی حالانکہ یہ بچپن سے میرا معمول تھا، رات کو معمول کے مطابق بیدار تو ہو جاتا، لیکن دو بجے سے فجر تک چارپائی پر بیٹھا رہتا، ہمت نہ پڑتی کہ وضوء کرکے نماز شروع کردوں، اسی طرح جمعہ اور باجماعت نماز ادا کرنے میں بھی غفلت کا شکار ہونے لگا، حتیّ کہ قرآن و حدیث کے پڑھنے اور سننے کا بھی وہ شوق نہ رہا جو کبھی تھا، رمضان المبارک میں بھی قرآن مجید کی تلاوت بہت گراں کزرنے لگی، ایک وقت تھا کہ ہاتھ اٹھا کر گھنٹوں دعائیں مانگا کرتا، مگر اب کیفیت یہ ہوگئی کہ چار کلمے بھی زبان سے نہ نکلتے تھے کہ ہاتھ خود بخود نیچے گر جاتے، فرض نماز پنجگانہ ادا تو کرتا تھا مگر یہ کام مجھے پہاڑ سے بھی زیادہ سخت معلو م ہوتا، قریب تھا کہ میں فرض نماز روزہ کو بھی جواب دے دوں، ان کے عبث ہونے اور ترک کر دینے کے دلائل بھی شیطان نے مجھے سکھانے شروع کر دیے تھے۔
قرآن مجید کے تین پارے مجھے حفظ تھے، ان میں سے آخری چند صورتیں یاد رہ گئیں، باقی سب بھول گیا، صدہا حدیثیں یاد تھیں، وہ بھی گویا دل سے کسی نے دھو ڈالیں، ان برے عقائد اور اعمال سے میرے دل پر زنگ لگنا شروع ہو گیا، حتی کہ میرا دل مریض ہو گیا اور پھر تو نوبت بایں جارسید کہ دل پر نزع کی کیفیت طاری ہوگئی اور قریب تھا کہ دل مردہ ہو جائے اور اس پر طرہ یہ کہ اس حالت میں شیطان میرے دل میں ایسی ایسی وجوہات منقش کرتا، جن کی وجہ سے میں اپنی اس حالت کو سب سے بہتر جانتا اور سمجھتا تھا کہ جنت میں جانے کے لیے صرف کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کافی ہےاور یہ سب تکالیف شرعیہ بے فائدہ ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ گاہے گاہے حق تعالی کی طرف سے شیطان کی ان سازشوں کے متعلق بھی مجھے القاء کیا جاتا، لیکن اس کے باوجود دل ملحدوں اور دہریوں کے دلائل کی طرف مائل ہوجاتا تھا، الغرض مجھ میں اور کفر میں صرف چند انگشت کا فرق باقی رہ گیا تھا، یہ کیفیت ایک دو دن نہیں؛ بلکہ عرصۂ دراز تک رہی، شاید سابقہ اعمال صالحہ کا اثر تھا کہ مجھے اپنی اس ہلاکت آفریں کیفیت کا احساس ضرور تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ احساس جب شدت اختیار کرجاتا تو میرے منہ سے بے اختیار دعائیں بھی نکلتی تھیں کہ “اے آنکھ والے! مجھ اندھے کا ہاتھ پکڑ”۔
آخر کار اللہ کی رحمت کادریا جوش میں آیا اور میری توبہ کے سامان فراہم ہو گئے، ہوا یہ کہ خاکسار دسمبر ۱۸۸۰ء میں ایک شدید دنبل کے عارضہ میں مبتلا ہوکر سخت بیمار پڑ گیا، جس کے باعث سب کھانا پینا چھوٹ گیا، ڈیڑھ مہینے تک اس دنبل سے سیروں پیپ جاری رہی، پانچ ہفتہ تک ہسپتال میں پڑا رہا، مرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہ رہ گیا تھا دوست آشنا سب مایوس ہو گئے، اس حالت میں میں نے گڑگڑا کر اللہ کے دروازے پر دستک دی اور اپنی حالت سے منفعل ہوکر سچی توبہ کی اور عہد کیا کہ اس بیماری سے شفا پاتے ہی نماز تہجد شروع کردوں گا اور قرآن و حدیث کا مطالعہ بھی کیا کروں گا۔
مجھے اسی وقت سے قبولیت دعا کے آثار نظر آنے لگے، دل کی حالت پلٹ گئی اور اللہ کی رحمت کا دریا ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آنے لگا، بھولا ہوا قرآن و حدیث اور ادعیہ ماثورہ یاد آنے لگیں، نماز اور دعا میں بھی لذت و حلاوت محسوس ہونے لگی، اس کیفیت کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ یہ بیماری تو محض میری اصلاح اور تربیت کے لیے تھی، ہسپتال سے واپس آکر پھر از سر نو قرآن و حدیث کا مطالعہ شروع کردیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں میری حالت پہلے سے بھی اچھی ہو گئی۔
میں نے محسوس کیا کہ جس قرآن و حدیث کے پڑھنے سے طبیعت گھبراتی اور ثقیل ہوتی تھی اور ایک دو آیت پڑھنا بھی محال اور دشوار ہوتا تھا، اب دن بھر بیٹھ کر پڑھتا ہوں اور اس سے طبیعت کو سرور اور دل کو لذت نصیب ہوتی ہے اور وہ دعا جس کے لیے ہاتھ اٹھانا محال تھا، اب گھنٹوں مانگنے سے بھی سیر نہیں ہوتا، اس کیفیت میں مجھ پر یہ عقدہ بھی کھلا کہ عبادت اور اطاعت کی توفیق دینا بھی اللہ کا فضل ہے، جس کو چاہے دے، جس کو چاہے نہ دے۔