لارڈ میو کے قتل تک میں انگریزی زبان سے بخوبی واقف ہو چکا تھا، ۱۸۷۲ء میں ایک انگریزی خواں لام سروپ کی ترغیب سے میں نے انگریزی زبان سیکھنی شروع کر دی تھی اور ایک سال کی محنت ہی سے مجھے لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں خوب مہارت ہو گئی تھی، فرصت کے لمحات میں لوگوں کو اردو، فارسی اور ناگری زبانیں سکھایا کرتا تھا، یہی وجہ تھی کہ ان سے کثرتِ اختلاط کے باعث میری انگریزی کی استعداد بہت بڑھ گئی، اس وقت وہاں کاتبوں کی قلت تھی، لہذا سرکاری ملازموں کو عرائض نویسی اور اپیل نویسی وغیرہ کی بھی ممانعت نہ تھی، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے بھی عرضی و اپیل نویسی کا شغل جاری رکھا اور جب انگریزی میں لکھنے کی استعداد پیدا ہو گئی تھی، تب سے انگریزی میں لکھنا شروع کردیا تھا، اس سے علمی استعداد میں ترقی کے علاوہ ہزاروں روپے کا مادی فائدہ بھی ہوا؛ چنانچہ انگریزوں کی معلمی اور عرائض نویسی سے سو روپیہ ماہوار بخوبی کما لیتا تھا، کالاپانی میں میرے علاوہ اور کوئی مسلمان انگریزی خواں نہ تھا، اس لیے میں نے اس علم کی بدولت مسلمانوں کے بعض بڑے بڑے اہم مقدمات میں ان کی بہت مدد کی، بڑی بڑی آفتیں اور مصیبتیں دور کرائیں اور بہت نفع پہنچایا، جسے مدت مدید اور عرصۂ بعید تک فراموش نہ کیا جا سکے گا، میری انگریزی دانی کی وجہ سے جن کی پھانسی موقوف ہو گئی اور جان بچ گئی، وہ تو تازیست اس احسان کو نہ بھولیں گے، یہ بات بھی تعجب انگیز ہے کہ جس دن میری رہائی کا حکم پہنچ کر مشہور ہوا، اسی دن سے سرکاری ملازموں کے لیے عرائض نویسی کی قطعی طور پر ممانعت ہوگئی اور اب تو یہ کیفیت ہو گئی تھی کہ اگر کوئی سرکاری ملازم بھول کر بھی عرضی لکھ دیتا تو اسے ملازمت سے فوراً برخاست کر دیا جاتا، معلوم ہوتاتھا کہ اللہ تعالی کی دیگر نوازشات کی طرح یہ اجازت بھی خاص میرے ہی لیے تھی۔
انگریزی سیکھ کر میں نے بڑے بڑے کتب خانوں کی سیر کی، ہر علم و ہنر کی صدہا کتابوں کا مطالعہ کیا، دنیا کی کوئی زبان ایسی نہ ہوگی، جس کی صرف و نحو انگریزوں نے نہ لکھی ہو، کوئی ملک ایسا نہ ہوگا، جس کی تاریخ تاریخ نہایت شرح و بسط کے ساتھ انگریزی میں نہ وہ، انگریزی زبان علوم و فنون کا سرچشمہ ہے، جو یہ زبان نہیں جانتا وہ حالات دنیا سے بخوبی واقف نہیں ہو سکتا، اس زبان کے سوا کمانے کے لیے آج کوئی آلۂ زر نہیں ہے۔
جس طرح یہ زبان دنیوی فوائد کے لیے نہایت مفید ہے، اسی طرح دین کے لیے مضر بلکہ سمّ قاتل ہے، کوئی جوان لڑکا جس نے پہلے قرآن و حدیث اور سلوکِ راہِ نبوت میں مہارت حاصل نہ کی ہو، وہ انگریزی زبان سیکھ کر مختلف علوم و فنون کا مطالعہ کرے تو پرلے درجہ کا بے حد آزاد، بے دین اور ملحد ہو جائے گا اور پھر اس کا سنورنا محال ہی نہیں ناممکن ہوگا۔