قاتل سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ اقدام کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا : “خدا کے حکم سے” پھر پوچھا گیا: “کیا تمھارا کوئی اوربھی شریک ہے؟” “خدا میرا شریک ہے”، اس کا جواب تھا۔ تحقیقات کے بعد بنگال ہائی کورٹ کے فیصلہ کے مطابق قاتل کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔
قاتل شیر علی ضلع پشاور کا افغان تھا، اس نے بتایا کہ ۱۸۶۹ء سے میرا ارادہ تھا کہ کسی بڑے انگریز افسر کو ماروں گا، اسی مقصد کے پیش نظر میں نے کئی سال سے یہ چھرا تیار کر رکھا تھا، ۸؍فروری ۱۸۷۲ء کو جب لارڈ صاحب آئے اور انھیں توپوں کی سلامی دی گئی تو میں نے چھرے کو دوبارہ تیز کیا اور سارا دن تاک میں رہا کہ کب اس ٹاپو میں پہنچوں، جس میں لارڈ صاحب مجھے ملیں، مگر مجھے رخصت نہ ملی، شام کے وقت جب میں مایوس ہو گیا تو تقدیر لارڈ صاحب کو میرے گھر لے آئی، پہاڑ پر بھی لارڈ صاحب کے ساتھ گیا تھا اور ساتھ ہی واپس آیا، لیکن کہیں موقع میسر نہ آسکا، پھر میں گاڑی کی آڑ میں آکر چھپ گیا، اور یہاں میری دلی مراد پوری ہو گئی۔
یہ شخص گو ضعیف الجثہ، پست قد اور بد صورت تھا، لیکن بڑا شہ زور اور دلیر تھا، تختۂ دار پر لٹکتے وقت بالکل ہراساں نہ تھا؛ بلکہ بآواز بلند قیدیوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: “بھائیو! میں نے تمھارے دشمن کو مار دیا ہے، تم گواہ رہو کہ میں مسلمان ہوں”، پھر وہ کلمہ پڑھنے لگا اور کلمہ پڑھتے پڑھتے ہی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
اس ادنی درجہ کے قیدی کے ہاتھوں لارڈ صاحب کا قتل قدرت الٰہی کا ایک نمونہ تھا، ورنہ کہاں گنگو تیلی اور کہاں راجہ بھوج، جب پیام اجل آپہنچا تو یہ صدہا محافظ، مسلح پولیس اور حفاظت کا دیگر ان گنت سامان کچھ کام نہ آیا، وہ جو چاہتا ہےسو کرتا ہے، اس کی قدرت میں کسی کو دخل نہیں۔
اس واقعہ سے ایک ماہ قبل ایک اور پشاوری افغان نے چیف جسٹس نارمن کو اسی طرح کلکتہ میں چھرے سے قتل کردیا تھا، اب چاہیے تو یہ تھا کہ ان وحشت ناک اور عبرت انگیز واقعات کے بعد انگریز پٹھانوں کے دشمن ہو جاتے، لیکن میں نے دیکھا کہ صاحب لوگ پہلے کی نسبت انگریزوں کی دو چند خاطر داری کرنے لگ گئے اور پٹھانوں کے بجاے بد نصیب وہابیوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنانے لگ گئے، آہ! مارنے والے سے ہر کوئی ڈرتا ہے اور غریب پر ہر کوئی شیر ہو جاتا ہے۔