چاٹم سے سوار ہوکر جب ہوپ ٹون پہنچے، جو کوہ ہریٹ کے زیریں علاقے میں آباد ہے، تو وہاں شیر علی ایک آفریدی قیدی چھری لیے ہوئے مدّت دراز سے اس انتظار میں کھڑا تھا کہ کب یہاں سے کسی افسر کا گذر ہواور وہ اسے چھری کا نشانہ بناکر آتش انتقام کو سرد کرے، جب لارڈ صاحب کی کشتی ہوپ ٹون پہنچی تو وہ بھی اپنی چھری چھپائے ہوئے ان کے ہمراہ ہو گیا، راستہ میں اس کا کوئی داؤ نہ چلا اور لارڈ صاحب خیریت کے ساتھ پہاڑ پر پہنچ گئے، غروب آفتاب کا وقت قریب تھا، لارڈ میو صاحب نے وہاں بیٹھ کر سمندر میں غروب آفتاب کا نظارہ دیکھا اور کہا کہ ایسا خوبصورت منظر میں نے زندگی بھر نہیں دیکھا تھا، جب کافی اندھیرا چھا گیا تو مشعلوں کی روشنی میں نیچے اترنے لگے، اس وقت چاروں طرف پولس کا مسلّح پہرا تھا، چیف کمشنر، پرائیوٹ سکریٹری بدن سے بدن ملائے ہوئے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، علاوہ ازیں دوسرے بیسیوں افسر بھی ان کے آگے پیچھے چل رہے تھے، اور لارڈ صاحب خیریت سے ہوپ ٹون کے گھاٹ تک پہنچ گئے، جب گھاٹ کے قریب کھڑی ہوئی گاڑی کے نزدیک پہنچے، تو چیف کمشنر اجازت لے کر کسی ضرورت کی وجہ سے پیچھے چلے گئے، لارڈ صاحب اور پرائیوٹ سیکریٹری خراماں خراماں جا رہے تھے، جب گاڑی کے قریب پہنچے تو شیر کی طرح کود کر اس نے لارڈ صاحب کو چھری سے دو ایسے کاری ضرب لگائے کہ وہ لڑکھڑا کر سمندر میں جا گرے، اس گڑبڑ میں تمام مشعلیں بھی گل ہو گئیں، لیکن ایک دوسرے قیدی نے جرات سے کام لیتے ہو قاتل کو پکڑ لیا، ورنہ وہ شاید دو چار اور کو بھی زخمی کرتا، لارڈ صاحب کو سمندر سے نکال اسی گاڑی پر لیٹا دیا گیا، مشکل سے ایک دو باتیں ہی کرنے پائے تھے راہئ ملک عدم ہو گئے۔