اس مذکورہ خیال کے باعث میں نے دہلی پہنچ کر اپنے تئیں مخفی رکھنے کو ضروری نہیں سمجھا، اس لیے آزادی سے گھومنے پھرنے لگا، ایک دفعہ اپنے معمولی لباس میں چاندنی چوک تک بھی گیا ؛ تاکہ سواری کے لیے کرایہ کی شکرم وغیرہ کا انتظام کیا جا سکے، ۱۵ دسمبر کو ہم تینوں کھلم کھلا شکرم پر سوار ہو کر علی گڑھ روانہ ہوگئے، راستہ میں گاڑی بان کو بہت دا انعام و اکرام دے کر چاہا کہ جس قدر ممکن ہو علی گڑھ جلد پہنچ کر ریل پر سوار ہو جائیں، مجھے پختہ یقین تھا کہ جس چال سے آیا ہوں، شاید کوئی مدت تک بھی میری تلاش کو ادھر نہ آئے، میں اپنی تدبیر پر اتنا نازاں تھا کہ تقدیر کا خیال بھی نہ رہا تھا، اب مجھے یہیں چھوڑئے اور پولس انبالہ کی کار روائی سنیے۔
۱۲دسمبرکو جب سپرنٹنڈنٹ پولیس میرے خطوط اور ان آدمیوں کو جو میرے گھر سے ملے تھے، انبالہ لے گیا تو ان کو دیکھ کر گورنمنٹ نے میری گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے، وہی سپرنٹنڈنٹ پارسن جب میرے وارنٹ گرفتاری لے کر دوسرے دن تھانیسر آیا تو اس نے مجھے وہاں نہ پاکر شہر میں آفت مچا دی، سینکڑوں گھروں کی تلاشی ہوئی، پچاسوں مرو و عورت پکڑَ گئے، بوڑھی والدہ بھائی محمد سعید (جو اس وقت صرف بارہ تیرہ برس کا تھا) اور اس کی بیوی کو قید کرکے ان پر سخت تشدد اور مار پٹائی شروع کر دی گئی، پردہ نشین عورتوں کو اس قدر آلام و مصائب کا تختۂ مشق بنایا گیا کہ سن کر دل لرز اٹھتا اور کانپ کانپ جاتا تھا، میری بیوی کی گرفتاری کے لیے پولیس کی ایک جمعیت پانی پت دوڑی مگر مولانا رضی الاسلام کی صاحب کی جوانمرد والدہ کی دلیری سے میری بیوی بچ گئی، ان ظلم و تشدد کا نشانہ بننے والوں میں سے میرا بھائی محمد سعید جو کہ نہایت کم سن، لذت ایمانی سے نا آشنا اور فضائل ثابت قدمی سے سراسر بے بہرہ تھا، اس سخت مار پیٹ کی تاب نہ لا سکا، ڈر گیا اور جان بچانے کے لیے بول اٹھا کہ میرا بھائی دہلی گیا ہے، یہ خود میری بڑِی غلطی تھی کہ ایسے اہم راز پر ایک نا بالغ بچے کو آگاہ کردیا تھا، جس کا نتیجہ میری گرفتاری کی شکل میں برآمد ہوا، جب میرے بھائی نے راز کا انکشاف کردیا تو پارسن سے لے کر گاڑی کے ذریعہ دہلی پہنچ گیا۔
ادھر پنجاب میں جا بجا میری تلاشی شروع ہوگئی، حتی کہ میری گرفتاری کے لیے دس ہزار روپئے کا انعامی اشتہار جاری ہوا، انبالہ کیمپ میں محمد شفیع کے مکان کی بھی تلاشی ہوئی، اتفاق سے وہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے، بلکہ لاہور گئے ہوئے تھے، ان کے بھائی محمد رفیع اور ان کے کارندے مولانا محمد تقی اور منشی عبد الکریم وہاں موجود تھے، لہذا ان کو گرفتار کر لیا گیا، اور ڈرایا گیا کہ اگر تم صورت حال سے آگاہ نہیں کروگے تو تمھیں تختۂ دار پر لٹکا دیا جائے گا، جان کے ڈر سے محمد رفیع اور محمد تقی نے محمد شفیع کے خلاف شہادت دیدی، اور پولیس کے کہنے کے مطابق گواہی دے کر اپنی جان بچائی، منشی عبد الغفور نے شہادت نہ دی ؛ لہذا انھیں بلا قصور محمد شفیع کے ساتھ عمر قید کر دیا گیا۔
پارسن صاحب دہلی پہنچے تو انہوں نے یہاں بھی آفت مچا دی سراوَں اور شہر کے دروازے بند کر دیے، ہزاروں آدمیوں کی تلاشی ہوئی، پچاسوں آدمی پکڑ ے گئے، اسی پکڑ دھکڑ میں پارسن کو یہ علم ہو گیا کہ میں فلاں شکرم میں سوار ہو کر فلاں وقت دو دوسرے آدمیوں کے ہمراہ علی گڑھ کی طرف روانہ ہوا ہوں، انہوں نے اسی وقت تار برقی کے ذریعہ علی گڑھ میری گرفتاری کے لیے خبر کردی۔