اگست ۱۸۷۰ء میں میرا جزیرۂ ہدو سے روس تبادلہ ہو گیا، مئی ۱۸۷۱ء کو جب میں جزیرۂ روس میں تھا، مولانا محمد حسن صاحب ہماری ملاقات کے لیے پٹنہ سے پورٹ بلییر آئے اور ایک مہینہ رہ کر واپس وطن تشریف لے گئے۔
ایک دن جب مولانا بڑے ذوق و شوق سے کشتی میں سوار ہو کر مولانا احمد اللہ صاحب کی ملاقات کے لیے روس سے ویپر جا رہے تھے، تو راستہ میں کشتی طوفانِ بادو باراں میں پھنس گئی، قریب تھا کہ گرداب میں ڈگمگاتے ہوئے ڈوب جائے، مولانا کو کشتی کے ڈوبنے کی بجاے زیادہ افسوس یہ تھا کہ مولانا احمد اللہ صاحب کی زیارت نصیب نہ ہو سکے گی، لیکن یہ فقط آزمائش تھی، چند جھونکوں کے بعد طوفان تھم گیااور مولانا بخیریت ویپر پہنچ گئے اور مولانا احمد اللہ صاحب سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔
ہماری گرفتاری کے بعد انگریزوں نے مولانا محمد حسن کو بھی پھنسا کر کالے پانی بھیجنا چاہا تھا، مگر اللہ کے فضل سے وہ محفوظ رہے، لیکن اللہ تعالی نے انھیں اس طرح بھی کالے پانی بھیج کر اور مصائب بحری میں مبتلا کرکے اسیران کالا پانی کے اجرو ثواب میں شریک کردیا۔
مارچ ۱۸۷۱ء میں چیف کمشنر کرنیل میں ریٹائرڈ ہو گئے اور وہ پنشن پا کر ولایت چلے گئے، اکتوبر ۱۸۷۱ء میں جنرل اسٹوارٹ (جو آخر میں ہندوستان کے جنگی لاٹ بھی ہو گئے تھے) چیف کمشنر بن کر انڈمان آئے، اسی کے عہد میں لارڈ میو صاحب بہادر کے حکم سے پورٹ بلیر کے قیدیوں کے لیے بھنڈار کا کھانا مقرر ہوا اور لارڈ میو کا بنایا ہوا وہ قانون بھی جاری ہوا، جس کے باعث پورٹ بلیر کی قید ہندوستان اور ولایت کے جیل خانوں سے بھی زیادہ سخت ہو گئی۔