سپرنٹنڈنٹ کرنیل مین کے عہد میں ایک بڑے یورپین افسر کی تحریک سے میرے خلاف اعانت تصرف بے جا کا جھوٹا مقدمہ کر دیا گیا، جس کی وجہ سے کرنیل مین جیسا بے تعصب حاکم بھی مجھ سے برافروختہ ہوگیا اور اس نے مجھے بذریعۂ سمن فوراً عدالت میں طلب کر لیا، اس وقت بہت سے دوستوں نے مشورہ دیا کہ جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے، لہذا تم لا علمی کا اظہار کر کے اپنی جان بچا لو، میں نے دوستوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا: “کچھ بھی ہو میں تو سچ بولوں گا”۔
جب مقدمہ پیش ہوا تو سب سے پہلے مجھے طلب کیا گیا اور کرنیل صاحب نے میرے بیانات قلمبند کرنا شروع کر دیے، میں نے صحیح طور پر حرف بہ حرف بیان کر دیا کہ میرے سامنے مسٹر ہیوڈ اوورسیر مدعا علیہ نے مسمّی حمید خاں جمعدار مدعی کی جائیداد جہاں جہاں پائی، بطور خود ضبط کر کے نیلام اور فروخت کردی اور اس کا زر ثمن خود کھا گیا، میں محرر اسٹیشن ہونے کی وجہ سے اس کے ہمراہ ضرور تھا۔ میرا بیان اس قدر ہوا ہی تھا کہ مسٹر ہیوڈ سے تمام رقم حمید خاں مدّعی کو دلا دی گئی، اور ہیوڈ کو جو کہ چھ سو روپیہ ماہوار کا اوورسیر تھا، ملازمت سے بر طرف کرکے ان جزائر سے بدر کر دیا گیا، میں اپنے سچ کی برکت سے صاف بری ہو کر گھر چلا آیا۔
ان ہی ایام یعنی جنوری ۱۸۶۹ء میں لیفٹیننٹ پراتھرو جو اس وقت کرنیل اور قائم مقام چیف کمشنر پورٹ بلیر ہیں، کالے پانی میں اسسٹنٹ ہو کر آئے تھے۔