پورٹ بلیر پہنچ کر میں حاجی محمد شفیع صاحب انبالوی کو وقتاً فوقتاً چند خطوط بھی لکھے، جن میں آرام و آسائش کے ساتھ زندگی بسر کرنے، شادی اور ملازمت کا ذکر کیا تھا، کچھ خطوط ان لوگوں کو بھی بھیجے جو بے قصور مسلمانوں کو پھنسا کر نیم رہائی کی شکل میں ذلّت کی زندگی بسر کر رہے تھے، انھیں حسرت میں مبتلا کرنے کے لیے میں نے اپنی راحت اور تائید الٰہی کا مبالغہ آمیز الفاظ میں ذکر کیا، لیکن ان میں سے کسی خط کا بھی جواب نہ آیا۔
اسی اثنا میں مجھے معلوم ہوا کہ کسی نے سرکار کی خیر خواہی کے لیے وہ خطوط گورنمنٹ ہند کو پہنچادیے اور ان پر خوب بحث ہوئی، حتّی کہ سپرنٹنڈنٹ پورٹ بلیر سے بھی صحیح کیفیت کے متعلق استفسار کیا گیا، اگر اللہ کا فضل شامل حال نہ ہوتا، حکام پورٹ بلیر میرے لیے بطور وکیل نہ جھگڑتے اور مراعات کا سلب کر لینا پورٹ بلیر کے قاعدۂ عام کے خلاف نہ ہوتا تو میرے لیے سخت مشقّت کا حکم ہو جانا کچھ بعید نہ تھا، یہ اللہ کا خاص فضل ہی تو تھا، یہ اس کی طرف سے تائید غیبی ہی تو تھی کہ جان لارنس بہادر گورنر جنرل مجھ جیسے غریب قیدی سے سخت مشقت لینے کا متمنی ہو اور مجھے سزا بھی سخت مشقت تا حیات کی مل چکی ہو، لیکن اللہ تعالی ایسے سخت جھمیلوں کے باوجود مجھے سخت مشقت سے بچا لے۔
اللہ کی طرف سے ایک فضل یہ بھی تھا کہ جب ہم پورٹ بلیر پہنچے تو اس وقت یہاں کے سب حاکم مدراس کے تھے، وہ ۱۸۵۷ء کے معرکہ اور وہابیوں کی بغاوت سے واقف نہ تھے، اس لیے ان کے دل صاف اور سینے خالی از تعصب تھے، انہوں نے میرے ساتھ نہایت حسن سلوک کا مظاہرہ کیا؛ بلکہ ہماری خوش چلنی، خوش اخلاقی اور عمدہ کارگزاری کے باعث ۱۸۵۷ء کے دیگر قیدیوں کی نسبت زیادہ مراعات سے نوازا۔
جب پہلی مرتبہ داکٹر ہنٹر نے مرچ نمک لگا کر ہمارے مقدمہ کو رسی سے سانپ اور رائی سے پہاڑ بناکر پیش کیا اور لکھ دیا کہ وہابی اور باغی کے ایک ہی معنی ہیں اور بنگال کور کے صاحب لوگ اس جزیرہ میں آنے لگے تو ہم آلام و مصائب کا تختۂ مشق بن گئے، راہ چلتے ہماری طرف اشارے کیے جاتے اور وہ ہمیشہ اس گھا ت میں رہتےکہ انھیں کب کوئی موقع ملے کہ قانونی حیلہ کی آڑ میں ایذا رسانی کے درپے ہوجائیں، لیکن جب خدا تعالی جیسے محافظ حقیقی کی حفاظت نصیب ہو تو کون ہے جو تکلیف پہنچا سکے؟ میں نے بارہا خدا کی نصرت کا مشاہدہ کیا کہ جب کوئی در پے تکلیف ہوا تو محافظ حقیقی نے مدد اور اعانت کا ایسا سامان کر دیا کہ دشمن منہ تکتے رہ گئے۔