ضلع الموڑہ کی برہمن قوم سے تعلق رکھنے والی ایک ہندو عورت ان دنوں نئی نئی قید ہو کر کالاپانی آئی اور ہدو میں عورتوں کی بارک میں اسے رکھا گیا، وہ نہایت خوش چلن اور حیادارعورت تھی، مگر ہندو دھرم میں نہایت متعصب، کسی مسلمان عورت کے نزدیک کھڑا ہونا یا اس کے کپڑوں کو چھونا بھی اسے گوارا نہ تھا، بارک کی مسلمان عورتیں تو اس کے تعصب کی وجہ سے تنگ آگئ تھیں۔
میں نے ایک دن بر سبیل تذکرہ اس سے کہا کہ اگر تو مسلمان ہو جائے تو دنیا وآخرت دونوں میں تیرے لیے یہ بہتر ہوگا اور دوزخ کی آگ سے بھی تجھے نجات مل جائے گی، میری بات سن کر اس نے نہایت حیرت کا اظہار کیا، لیکن اسے کیا خبر تھی کہ روز اوّل سے میرے بچوں کی والدہ ہونا، اس کے مقدر ہو چکا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ باوجودیکہ وہ کوہستان کے ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئی، جہاں اب بھی مسلمانوں کا نام ونشان نہیں، لیکن وہ ہمیشہ شرک اور بت پرستی سے بیزار رہی، گو اسے بھی اس بیزاری کا سبب معلوم نہ تھا، اس کی وضع قطع اور عادات و اطوار کو دیکھ کر ایک جوتشی برہمن نے اس کی والدہ کو یہ کہہ دیا تھا کہ یہ لڑکی تم سے جلدی جدا ہو جائےگی۔
اپریل ۱۸۶۸ء میں جب میری کشمیری بیوی فوت ہوئی، انہی ایام کا تذکرہ ہے کہ اس برہمن عورت پر ایک ناگہانی مقدمہ ہو گیا، جس کے باعث یہ گرفتار ہو گئی، اس اجمال کی مختصر سی تفصیل یہ ہے کہ ایک لڑکی میری اس ہونے والی بیوی کے ساتھ ایک بےآباد کنوئیں کے قریب کھیل رہی تھی، اتفاق سے اس لڑکی کا پاؤں پھسلا اور وہ کنوئیں میں گر کر سخت مجروح ہو گئی، اگرچہ اس میں میری بیوی کا قطعاً کوئی قصور نہیں تھا، لیکن ان دونوں لڑکیوں کے والدین کے درمیان سخت عداوت تھی، لہذا انہوں نے اسی دیرینہ عداوت کی بناء پر اس بے گناہ پر اقدام قتل کا کیس کر دیا، قانونی طور پر یہ مقدمہ اگرچہ اس لائق تو نہ تھا کہ اسے حبسِ دوام کی سزا دی جائے، مگر اس حکیم و قدیر کو اسے میری بیوی بنانا منظورتھا، لہذا اسے اس جرم کی پاداش میں پورٹ بلیر پہنچا دیا۔
گرفتاری کی پہلی شب ہی تھی کہ اس نے بوقتِ سحر خواب میں ایک نورانی چہرہ بزرگ مسلمان کو دیکھا، جس نے اسے ٹھوکر مار کر کہا: “اٹھو نماز پڑھواور دعا کرو، تمھارے لیے قید ہونا بہتر ہے”۔ اس نے ایسی صورت کا کبھی کوئی انسان دیکھا تھا اور نہ نماز و دعا کے الفاظ سے آشنا تھی، گھبراکر بیدار ہوگئی، محافظین میں سے ایک مسلمان سپاہی سے خواب بیان کرکے تعبیر پوچھی تو اس نے کہا کہ تو اس قید میں ضرور مسلمان ہو جائےگی۔
اس وقت یہ تعبیر اس کی طبع نازک پر نہایت گراں گذری اور اسے بالکل غیر ممکن معلوم ہوئی، مگر قبولیت ازلی اور تعبیر رؤیائے حقہ کی بنا پر اس نے میری پیشکش کو قبول کر لیا اور مسلمان ہو کر میرے ساتھ شادی کرنے پر آمادہ ہوگئی۔
اتفاق سے انھیں دنوں رمضان المبارک جلوہ فگن ہو گیا، رمضان کی 27 تاریخ کو میں نے بڑے دھوم دھام سے ایک تقریب کا اہتمام کیا اور اسے مسلمان بنا لیا، جب اس نے ارکان اسلام اور نماز وغیرہ کے مسائل کو بخوبی سیکھ لیا تو میں نے حاکم وقت کو مطلع کرکے ۱۵ اپریل ۱۸۷۰ء کو اس سے شادی کر لی، صدہا آدمیوں نے اس تقریب سعید میں شرکت کی اور خوبی قسمت کی بات یہ کہ حضرت مولانا احمد اللہ صاحب نے خطبہ نکاح پڑھا تھا، دوسرے دن بڑی شان و شوکت سے دعوت ولیمہ کا انتظام کیا گیا، جس میں بہت سے احباب نے شرکت فرمائی۔
اس بیوی کے بطنِ اطہر سے اللہ تعالی نے مجھے دس بچے عطا فرمائے، جن میں سے آٹھ بچے اس وقت تک بقید حیات ہیں، یہ بیوی پورٹ بلیر سے میرے ساتھ ہندوستان بھی واپس آئی، اس نے گذشتہ بائیس برس نہایت حسن رفاقت، اطاعت اور عصمت کے ساتھ بسر کیے ہیں اور توحید و توکل میں بھی یہ بیوی لاثانی ہے۔