اس بیوی کی وفات کے بعد دو برس تک مجرد رہا، جزیرہ ہدو جہاں میری ملازمت اور قیام تھا، عورتوں سے بھرا ہوا تھا، بہت سی عورتوں نے مجھے شکار بھی کرنا چاہا، مگر حفاظت غیبی شامل حال رہی اور اللہ تعالی نے مجھے ہلاک نہ ہونے دیا، گو اپنے عہدہ کی وجہ سے رات دن مجھے ان فاحشوں سے ملنا پڑتا تھا اور طرح طرح کے سرکاری کام لینے پڑتے تھے کہ وہ اکثر میرے گھر بھی آتی جاتی تھیں اور مجھے شکار کرنے کی کوشش بھی کرتی تھیں لیکن جسے خدا رکھے اسے کون چکھےّ؟
میں نے یہ کیفیت دیکھی تو اپنی بیوی کو پانی پت سے پھر بلانا چاہا، لیکن وہ راضی نہ ہوئی اور جب اس نے اپنی رضا کا اظہار کیا تو حاکم وقت نے میری درخواست نامنظور کردی، اس لیے میں نے مجبوراً کسی نیک عورت سے شادی کرنے کا ارداہ کر لیا، اور بارگاہِ الٰہی میں التجا کی کہ اے اللہ جیسے تجھے پسند ہو، پردۂ غیب سے اس کا انتظام فرمادے اور کسی نیک بخت سے میرا سنجوگ کرادے، ابتداء میں تو بعض دوستوں کے مشورہ سے یکے بعد دیگرے دو پنجابی مسلمان عورتوں سے میرے نکاح کی بات چیت شروع ہوئی، مگر طرفین کی رضا مندی اور کسی ظاہری مانع نہ ہونے کے باوجود بات خود بخود موقوف ہو گئی، اس وقت تو معلوم نہ ہو سکا کہ یہ بیل کیوں نہ منڈھے چڑھ سکی؟ لیکن بعد میں جب دوسرے دو آدمیوں سے ان کی شادی ہوئی تومعلوم ہوا کہ وہ صحیح کردار کی مالک نہ تھیں، میں اس حفاظت غیبی پر شکر الٰہی بجا لایا۔