اس بیوی کی وفات کے بعد میں نے سب زیور وغیرہ فروخت کرکے تین سو روپے دہلی میں اپنی بیوی کے پاس بھیج دیے؛ تاکہ وہ جوتے اور دیگر سامان خرید کے میرے پاس بھیج دے؛ کیونکہ ان دنوں پورٹ بلیر میں دہلی کا مال تگنے چوگنے دام میں فروخت ہوتا تھا، مگریہ مال زیادہ تر راستہ میں ضائع ہو گیا، دہلی سے روانہ ہونے کی تاریخ سے دو برس بعد گل سڑ کر تھوڑا سا مال ۱۸۷۰ء کو میرے پاس پہنچا، جس سے مجھے صرف ایک سو بچاس روپے وصول ہوئے اور ایک سو پچاس روپے کا خسارہ ہوا۔
اس یک صد و پچاس روپے کو بھی جب میں نے کلکتہ سے مال منگوانے کے لیے ایک دوست کے پاس بھیج دیا، تو بنگالی بابؤوں نے مخبری کرکے وہ ہنڈی پکڑوادی ؛ کیونکہ سرکاری ملازم ہونے کی حیثیت سے تجارت نہیں کر سکتا تھا، میں نے مال ایک سوداگر کے نام سے منگوایا تھا اور ہنڈی ایک ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی طرف سے تھی، طلب مال کے لیے خط میری طرف سے لکھا ہوا تھا، خط بمعہ ہنڈی پکڑا گیااور چیف کمشنر کے پاس پیش ہوا اور یہ میری سزا کے لیے کافی تھا، مگر اللہ تعالی نے اپنے فضل سے مجھے اور ہنڈی دونوں کو بچا لیا، وہ سوداگر جس کے پاس ہنڈی بھیجی گئی تھی، رقم وصول کرکے کلکتہ سے فرار ہوگیا، الغرض اللہ تعالی کو یہ منظور نہ تھا کہ میں تجارت کروں، لہذا اس کے بعد کبھی تجارت کا ارادہ نہ کیا۔