زمانۂ قید میں ۲۵ دسمبر ۱۸۶۷ء کو میں جزیرۂ پرسوپرنس پینٹ میں تھا کہ مولانا عبد الرحیم صاحب بھی انڈمان پنچ گئے، پہلے تو آپ کو گھاٹ منشی مقرر کیا گیا اور پھر کچھ عرصہ بعد آپ کو ہسپتال میں محرر مقرر کر دیا گیا، نو برس تک سرکاری کام کرنے کےبعد انہوں نے بزازی کی دوکان کھولنے کا ٹکٹ لے لیا، جب رہائی ہوئی تو اس وقت بھی اسی پیشۂ دوکانداری سے منسلک تھے۔
تین مہلک حادثے
سمندر کے کنارے آباد ملکوں، جہاز کے ملازموں اور سیاحوں کو اکثر بحری آفات میں مبتلا ہونا پڑتا ہے، جن سے ہندوستان کے آدمی سراسر نا واقف ہیں، کالے پانی میں بھی ہر سال بہت سے آدمی اور کشتیاں سمندر کی نذر ہو جایا کرتی ہیں، اس بیس سال کی مدت میں مجھے بھی بارہا ان آفات کا سامنا کرنا پڑا، مگر عین ڈوبنے کے وقت جب چاروں طرف سے ناامید ہو کر اللہ رب العزت کی طرف رجوع کرتا، تو وہ رب قدیر مجھے فوراً بچا لیتاتھا، ان بہت سی آفتوں میں سے جن میں یہ خاکسار وقتاً فوقتاً مبتلا ہو کر بچتارہا، صرف تین واقعات کا اختصار کے ساتھ ذکر کرتا ہوں۔
ایک مرتبہ میں روس سے جزیرۂ پرسوپرنس پینٹ کی طرف جا رہا تھا کہ پرسو پرنس پینٹ کے نزدیک پہنچ کر ایک ایسا طوفان باد وباراں شروع ہوا کہ کشتی ڈگمگانے لگی اور ڈوبنے کے بالکل قریب تھی کہ موج کے ایک تھپیڑے نے اسے پل سنگ کے نزدیک کر دیا، اس وقت میں اور ایک دو دوسرے مسافر مستعدی سے پل پر کود پڑے، ابھی ہمارے پاؤں پل پر لگے ہی تھےکہ ایک موج نے کشتی کو اس زور سے دے مارا کہ کشتی ریزہ ریزہ ہو گئی اور مسافر سخت زخمی ہو گئے۔
اسی طرح ایک مرتبہ ابرڈین سے روس جاتے وقت بھی بالکل اسی طرح کے حادثہ سے دوچار ہونا پڑا، اس حادثہ میں بھی موجیں کشتی کو پل پر دے مارنا چاہتی تھیں کہ ہم کود کر پل پر جا کھڑے ہوئے، تھوڑی دیر بعد کشتی پل سے ٹکرائی اور اس کے پرزے اڑ گئے، اکثر مسافر مجروح ہوئے اور بڑی مشکل سے ڈوبنے سے بچے۔
ایک تیسری مرتبہ ہماری کچہری کا سارا عملہ کشتی میں سوار ہو کر ابرڈین کوجا رہا تھاکہ عین وسط میں ایک سخت طوفان آیا کہ سب لوگ ناامید ہو گئےاور موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا سمجھنے لگے، بارش اور ہوا بھی بڑے زور سے تھی، نزدیک کوئی کنارہ تھا نہ فریاد رس، اندھیرا ایسا شدیدتھا کہ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہیں دیتا تھا، اچانک کشتی کا مکان بھی ٹوٹ گیا اور کشتی پانی سے بھر گئی الغرض کوئی چارۂ کار ہی باقی نہ رہااور سب راستے مسدود ہو گئے تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس فریاد رس سے داد رسی کی جائے جو سب درماندہ لوگوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا ہے، میں نے اپنے خدا سے لو لگائی، میں نے اپنے آقا کے دروازے پر دستک دینا شروع کردی، میں نے اپنے مولا کے سامنے دست سوال دراز کردیا، ابھی دعا ختم نہ کی تھی کہ اچانک ہمارے پاس ایک بڑی کشتی نمودار ہوئی، جس میں سردار بگھیل سنگھ سپرنٹنڈنٹ پولیس سوارتھے، انہوں نے ہمیں اس تباہ حال صورت میں دیکھ کر جھٹ پٹ اپنی کشتی میں لے لیااور اللہ کے فضل سے کشتی صحیح سلامت کنارے تک پہنچ گئی، اس واقعہ سے “أمن یجیب المضطر إذا دعاہ” کی ایسی تفسیر سمجھ میں آئی، جو آج تک کوئی واعظ، کوئی خطیب اور کوئی مفسّر نہ سمجھا سکا۔
جنوری ۱۸۶۸ء میں خاکسار کا جزیرۂ ہدد میں تبادلہ ہو گیا اور وہاں اسٹیشن محرر مقرر ہو گیا، ۲۰ فروری ۱۸۶۸ء کو روس میں مولانا یحیی علی صاحب راہئ فردوس ہوئے، میں ان سے بہت فاصلے پر جزیرۂ ہدو میں مقیم تھا، مجھے ان کی بیماری کی اطلاع بھی نہیں تھی، مگر تقدیر عین اس وقت مجھے روس لے گئی جب ان کا جنازہ بالکل تیار تھا اور نماز پڑھنے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں، ہمارے مقدمے کے کئی آدمی ان کی تجہیز و تکفین میں شریک ہو گئے تھے۔
میری بیوی مولانا یحیی علی صاحب سے مرید تھی اور ان سے بہت محبت رکھتی تھی، اسے ان کی وفات سےبہت زیادہ صدمہ پہنچا؛ چنانچہ مولانا مرحوم کی وفات کے سوادو مہینے بعد وہ نیک بخت بھی ۳۰ اپریل ۱۸۶۸ء کو راہئ فردوس ہو گئی، میرا ہندوستان سے قیدہوکر جانا گویا اس بی بی کے خاتمہ بخیر کی تمہید تھا۔