تانگہ کے ذریعہ چالیس میل کا سفر طے کرنے کے بعد، دوسرے دن دہلی پہنچ گیا اور وہاں میاں نصیر الدین کی کوٹھی میں قیام کیا، میاں حسینی ساکن تھانیسر، حسینی ساکن پٹنہ اور عبد اللہ نامی ایک بنگالی سے بھی ملاقات ہوئی، یہ دونوں مؤخر الذکر پٹنہ سے کچھ اشرفیاں لے کر، اسی دن آئَے تھے، میں نے وہ اشرفیاں ان سے لے کر حسینی ساکن تھانیسر کے حوالہ کرتے ہوئے اسے ہدایت کردی کہ جیسے ممکن ہو اس بیت المال کو قافلہ تک پہنچا دو۔
حسینی تھانیسر کو روانہ کرنے کے بعد، میں نے ان دونوں کو اپنے ساتھ پورب لے جانا چاہا؛ کیونکہ معرکۂ امبیلا اور میرے مکان کی تلاشی کے بعد پنجاب میں امن نہیں رہا تھا، اس وقت میں نے عمر کی ابھی تک صرف پچیس بہاریں دیکھی تھیں، لہذا اس شباب کے زمانہ میں مذہبی جوش جنون کی حد تھا اور زمانہ کے نشیب و فراز کا کچھ خیال نہ تھا، بس ایک لگن تھی کہ یہ خدا کا کام ہے، وہ خود اس کی حفاظت کرے گا، اس لیے میرا خیال تھا کہ میری تلاشی انبالہ اور اس کے مغرب میں ہو رہی ہوگی، اس طرف میری تلاش میں کون آئے گا۔