یہ لوگ دو سے زیادہ گنتی نہیں جانتے، جب دو سے زیادہ کسی چیز کی گنتی کرنی ہو تو انگلیوں پر شمار کرتے ہیں، یہ ہمیشہ مادر زاد برہنہ رہتے ہیں، البتہ عورتیں اندام نہانی پر ایک چھوٹا سا کپڑا ڈال لیتی ہیں، مرد عورتیں جسم کے کسی حصہ پر بال رکھنے کے قائل نہیں، جسم کے تمام بالوں کو بوتلوں کے ٹکڑوں کے ساتھ تراش ڈالتے ہیں۔
ان کے یہاں شادی بیاہ بھی نہایت سیدھے سادے طریقے پر ہوتے ہیں، شادی کے وقت دولہا اور دلہن دونوں کو گیرو رنگ کی چربی سے رنگ دیا جاتا ہے، شادی کے موقع پر قوم کے تمام افراد جمع ہوتے ہیں، اجتماع میں ایک آدمی بطور قاضی نظر آتا ہے، وہی دولہا کو اٹھاکر دلہن کےپاس لے جاتا ہے اور دولہا کے سامنے بہت سے تیر و کمان رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان سے شکار کرکے اپنی عورت کی پرورش کرنااور پھر وہی شخص بلند آواز کے ساتھ کہتا ہے، “اَب اِک”یعنی لے جاؤ یہ تمھاری بیوی ہے، یہ کہنے کے بعد عقد پختہ ہو جاتا ہےاور پھر تا حیات دونوں کے ہاں طلاق ہے نا جدائی، شادی کے بعد ان کے ہاں زنا بھی نہیں ہے۔
بچے کی پیدائش کے موقعہ پر بھی عورتیں پردے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں؛ بلکہ مردوں کے سامنے ہی بچوں کو جنم دیتی ہیں، پیدائش کے بعد ایک عورت پتوں کے ساتھ مکھیوں کو دور کرتی ہے؛ جبکہ ایک دوسری عورت نال کاٹ کر بچے کو گود میں لے کر بیٹھ جاتی ہے، پہلے دن بچے کو کوئی دوسری عورت دودھ پلاتی ہے، لیکن دوسرے دن سے بچے کی ماں دودھ پلانے لگ جاتی ہے، وضع حمل کے فوراً بعد زچہ چلنےپھرنے لگ جاتی ہے، جنگل کی ہر چیز کھاتی پیتی ہے، ان کے ہاں کسی قسم کے پرہیز کا قطعاً رواج نہیں، بچہ جب چلنے پھرنے کے قابل ہو جاتا ہے، تو نیرکٹھ اس کا پہلا کھیل ہوتا ہے۔
ان لوگوں کا گھر بالکل چھوٹا سا ہوتا ہے، صرف چار کھمبے کھڑے کر کے ان پر پتے ڈال لیتے ہیں اور ایک چند روزہ آسرا بنا لیتے ہیں، ان کے گھروں میں جا کر دیکھو تو میاں بیوی کے علاوہ اور کوئی چیز نظر نہ آئے گی، تیر کمان ان کی اصل جائیداد بلکہ جان ہیں۔
یہ لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیاں بھی بنا لیتے ہیں، جن کے ذریعہ ایک جزیرہ سے دوسرے جزیرہ تک آتے جاتے ہیں، یہ اپنے مردوں کی کھوپڑیاں بھی ساتھ ساتھ لیے پھرتےرہتے ہیں، کسی دوسرے جزیرہ سے جب کوئی مہمان ان کے ہاں آتا ہے، تو اسے پہلے گھر سے تھوڑے سے فاصلہ پر بیٹھنا پڑتا ہے گھر والے اسے وہاں کھانا پہنچاتے ہیں، کھانا کھانے کے بعد وہ جس گھر میں چاہتا ہے،چلا جاتا ہے، پھر سب اس سے مل کر روتے ہیں۔
یہاں کے باشندے کھیتی باڑی بالکل نہیں کرتے اور نہ اناج کھاتے ہیں، ان کا کھانا مچھلی، سمندر کے کیڑے مکوڑے اورکچھوے وغیرہ ہیں، آگ پر نیم بریاں کر کے نمک مرچ کے بغیر کھاتے ہیں، بعض درختوں کی جڑیں، پھلیاں، پتے، سور کا گوشت اور شہد بھی ان کی خوراک میں شامل ہے۔
غوطہ زنی کے یہ بچپن سے عادی ہوتے ہیں، اس فن میں شاید دنیا کی کوئی قوم بھی سبقت نہ لے جا سکے، یہ بلا کے تیر انداز ہوتے ہیں، ان کا نشانہ بہت ہی کم خطا ہوتاہے، ان لوگوں میں کوئی حکیم یا ڈاکٹر نہیں ہوتا، خون نکالنے ہی کو ہر مرض کا علاج تصور کیا جاتا ہے، جب کوئی بیمار ہوتا ہےتو وہ خود یا س کا کوئی عزیز نہایت بے دردی اور اناڑی پن سے بوتل کے ٹکڑوں سے زخم کرکے خون نکال دیتا ہے۔
جب کوئی مر جاتا ہے تو اسے ایک ٹوکری میں رکھ کر اس کے گھٹنوں کو مروڑ کر اس کی چھاتی پر لاکر باندھ دیتے ہیں، سارے اعضاء کو درخت کے چھلکوں سے کس دیتے ہیں اور پھر قبر کھود کر اس میں گاڑ دیتے ہیں، قبر کے نزدیک آگ جلاتے رہتے ہیں، ایک دو ماہ بعد اس کی قبر کھود کر اس کا ماتم کیا جاتا ہے اور اس کی ہڈیوں کو سب عزیز آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں اور پھر انھیں حرز جان سمجھ کر ہمیشہ اپنے پاس رکھتے ہیں، کبھی کبھی لاشوں کو گاڑنے کے بجاے مچان پر رکھ دیا جاتا ہے، یا درختوں کی شاخوں پر لٹکا دیا جاتا ہے، ان کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی نیست و نابود ہو جاتا ہے، یہ دوبارہ زندہ ہونے، جزا سزا اور آخرت کے قائل نہیں ہیں۔
یہ لوگ ناچنے گانے کے شوقین ہیں، مگر ناچنے گانے کے آلات سے یکسر نا آشنا، ان لوگوں کا کوئی مذہب نہیں، ان میں کسی مذہبی سردار یا رہنما کا بھی کوئی تصور نہیں، اس کے باوجود اخلاق، آدمیت، دیانت داری اور راست بازی کے اوصاف کے ساتھ متصف ہیں۔
ابتدا میں یہ لوگ روپیہ پیسہ کی قدر و قیمت سے ناواقف تھے، اگر کوئی شخص دیتا تو لے لیتے اور پھر دیکھ بھال کر زمین پر پھینک دیتے تھے، مگر اب تو بہت لالچی ہو گئے ہیں اور راہ گیروں سے پیسہ پیسہ کا سوال کرتے ہیں۔
ان کی عمر بہت کم ہوتی ہے، لڑکیاں جلد بالغ ہو جاتی ہیں اور تیس سال کی عمر میں تو بہت بوڑھی ہو جاتی ہیں، بہت عرصہ ہوا دودھ ناتہ نامی ایک شخص نے ایک جنگلی عورت سے شادی کی تھی، مگر رہائی ہو جانے کے باعث اس بے چاری کو یہیں چھوڑ کر ہندوستان چلا گیا تھا۔
۱۸۵۸ء سے ۱۸۶۵ء تک ان جزائر کی آب و ہوا سمّ قاتل تھی، جس کو زخم ہوجاتا تیسرے روز سڑ جاتا اور چوتھے روز مر جاتا، زخم کیا ہوتا گویا پیغام اجل ہوتا، جب آبادی یہاں شروع ہوئی تو ان دنوں مرض اسکروبی (scorbutus)بھی بڑے زور سے پھیلا ہوا تھا، یہ ایک جہازی بیماری ہے، جس سے منہ پک جاتا ہے، پنڈلیاں سخت پتھر ہو جاتی ہیں اور آدمی مر جاتا ہے، اس مرض میں مبتلا ہو کر یہاں ہزاروں آدمی راہیِ آخرت ہوئے۔
خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پہنچنے سے ایک سال قبل یہاں کی تمام بیماریاں ختم ہو گئی تھیں ، اب تو آب و ہوا کی خوبی کے اعتبار سے یہ جزیرہ رشک کشمیر تھا، جہاں بیس برس تک ہمارےسر میں درد بھی نہ ہوا اور قید کی زندگی بڑے آرام و راحت کے ساتھ بسر ہوئی۔
بیماری کی کثرت اور آبادی کے نئے ہونے کی وجہ سے ابتدا میں انگریزوں نے قیدیوں کے لیے بڑے نرم قوانین رکھے تھے اور ان سے اچھا سلوک کرتے تھے لیکن جب آب و ہوا اچھی ہو گئی اور آبادی بھی بڑھ گئی تو کالا پانی کے لیے ایسے ایسے سخت قوانین بنائے گئے کہ الامان و الحفیظ، ہم جس زمانہ میں پہنچے آب و ہوا تو عمدہ ہو گئی تھی لیکن ابھی تک قانون میں سختی کے احکام جاری نہیں ہوئے تھے، اس وجہ سے ہمیں پہنچتے ہی ان جزائر کے عام قوانین کے مطابق عہدے، تنخواہیں اور آرام و آسائش کی سہولتیں میسر آگئی تھیں۔
ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ قانون میں سختی کی جانے لگی، حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ نئے قیدیوں کو حکم تھا کہ دس برس تک سخت مشقت کریں، بھنڈارے سے کھانا کھائیں، وردی کا کپڑا پہنیں، بارک میں رہیں اور انھیں کسی قسم کی سہولت مہیا نہ کی جائے ؛ چنانچہ قانون انڈمان مجریہ ۱۸۷۶ء سے ایک فقرہ بطور مثال لکھتا ہوں:
’“سزا حبس بعبور دریاے شور کا مطلب یہ ہےکہ قیدیوں سے سخت سے سخت مشقت لی جائے اور کھانے پینے کو صرف اس قدر دیا جائے کہ جسم و جان کا رشتہ قائم رہ سکے۔”
مگر اس میں خیریت کا پہلو یہ تھا کہ ان قوانین کا اطلاق صرف نئے قیدیوں پر ہوتا تھا، ہم پرانے زندانی ان سے مستثنی قرار دیے جاتے تھے۔