آم، املی، جامن، کٹھل، بڑہل، جائیپل اور پان و غیرہ گرم ملکوں کے درخت یہاں کے جنگلات میں خود بہ خوداگے ہوتے ہیں، جنگل کو صاف کرنے پچاس سو گاؤں آباد کیے گئے ہیں، ہر قسم کی ترکاری، گرم ملکوں کے پھل اور دھان، مکئی، جوار،مونگ، ماش اور نیشکر وغیرہ کثرت سے یہاں پیدا ہوتے ہیں، سرد ملکوں کے اناج، گندم اور چنا و غیرہ بالکل پیدا نہیں ہوتے، اس کا حکومت نے انتظام کر رکھا ہے کہ وہ کلکتہ سے گندم اور چنے وغیرہ لاکر سات پائی فی پونڈ یعنی سوا آنہ فی سیر کے حساب سے فروخت کرتی ہے، یہاں غلّے کا نرخ ہمیشہ ایک رہتا ہے اور اس ملک میں کبھی قحط بھی نہیں پڑتا۔
اس جزیرے کی آب و ہوا اتنی عمدہ اور صحت بخش ہے کہ روئے زمین پراس کی مثال نہیں ملتی، ہیضہ، چیچک، وبائی بخار اور آشوب چشم وغیرہ متعدی امراض یہاں بالکل نہیں ہوتے، بیس برس کے عرصہ میں ہم نے نہیں سنا کہ کوئی آدمی ان میں سے کسی بیماری میں مبتلا ہوا ہو، یہاں سر اور کپڑوں میں جوئیں بھی نہیں پڑتیں، اور نہ ہی پسّو اور مچھر جیسے موذی جانور ہوتے ہیں۔
خط استوا سے قریب ہونے کے باعث یہاں بارش بکثرت ہوتی ہے، اور دن رات برابر ہیں، سردی کی شدت ہوتی ہے نہ گرمی کی بلکہ سارا سال موسم معتدل رہتا ہے، دسمبر اور جنوری کی راتوں میں بھی صرف ایک چادر اوڑھنے کی ضرورت پیش آتی ہے، سرمائی کپڑوں کا بالکل دستور نہیں، کوئی رضائی بناتا ہے، نہ تلائی، روئی ہوتی ہے نہ دھنیا، خزاں ہے نہ بہار، بالکل سارا سال موسم معتدل رہتاہے، اور ۱۲ مہینے درخت بھرے بھرے رہتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ اللہ حکیم و علیم نے موسموں کو یہاں جنگلیوں کی رعایت رکھتے ہوئے بنایا ہے، جوکہ ہمیشہ مادر زاد برہنہ رہتے ہیں، اگر گرمی سردی کی شدت ہو تو یہ برہنہ مخلوق خدا فوراً ہلاک ہو جائے۔
بارش تو اس کثرت سے ہوتی ہے کہ مئی سے دسمبر تک پورے آٹھ مہینے بادل برستے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مکانوں کی چھتوں کو ڈھلوان دار بنایا جاتا ہے، ہمارے ہاں کی کچّی اور چپٹی چھتیں یہاں کی بارش کا ایک مہینہ بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں، بارش تو موسلادھار ہوتی ہے، لیکن اولے پڑتے ہیں نہ کبھی آندھی آتی ہے۔
ان جزائر کے جنگلات نہایت گنجان اور دشوار گزار ہیں، ان میں درخت اتنے اونچے ہوتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، جب کسی درخت کو کاٹ کر گرایا جاتا ہے تو اس کی ڈالیوں اور شاخوں سے سینکڑوں گز زمین متاثر ہوتی ہے، یہاں کے سانپ اور بچھو میں زہر نہیں، لیکن کنکھجورے بہت زہریلے ہوتے ہیں۔
جنگلات میں زمانۂ قدیم سے ایک وحشی اور مادر زاد قوم آباد چلی آرہی ہے، مرد عورتیں بالکل کپڑا نہیں پہنتے، اور نہ ہی انھیں کپڑا میسّر ہے، ان کا ابھی تک صحیح حال بھی دریافت نہ ہو سکا کہ وہ کس ملک سے اور کب آکر یہاں سکونت پذیر ہوئے ہیں؟ ہمیشہ سے وحشی چلے آرہے ہیں یا کبھی مہذب بھی تھے، جیسا کہ مشہور تھا یہ جنگلی آدم خور نہیں ہیں، ان کے بدن پر بال بھی ہیں۔