ساحل پر قدم رنجہ ہوتے ہی، سب سے پہلے یہ خبر ملی کہ مولانا احمد اللہ صاحب چھ ماہ قبل 15؍ جون سنہ 1865 ء کو یہاں پہنچ گئے تھے، یہ لوگ انھیں کے بھیجے ہوئے آئے تھے۔ آپ کو ہمارے آنے کی خبر دو روز پہلے پہنچنے والے جہاز کے ان قیدیوں نے دی تھی جو تھانہ جیل سے بمبئی تک ان کے ساتھ آئے تھے۔
مولانا احمد اللہ، انڈمان کے چیف کمشنر میر منشی سید اکبر زمان کے مکان پر مقیم تھے۔ بندرگاہ سے ہم سیدھے وہیں گئے، آپ کے ساتھ اور بھی کئی معززین منتظر تھے، ملاقات کا یہ نظارہ بہت رقت انگیز تھا، مصافحے اور معانقے کے بعد بیڑیاں کاٹ پھینکی گئیں۔ عمدہ لباس پہلے سے تیار کرا لیا گیا تھا، ہم نے گیروے کپڑے اتار دیے اور نہا دھو کر اسے زیب تن کر لیا، پھر دسترخوان بچھا دیا گیا، جس پر انواع و اقسام کے لذیذ کھانے چنے گئے تھے، تین برس بعد پہلی مرتبہ پیٹ بھر کر کھانا کھایا، اگرچہ اسی تاریخ سے ہم قید سے رہا ہوگئے تھے اور پھر کبھی بارک، قیدیوں کا لباس یا قیدیوں کا کھانا نہیں دیکھا لیکن اس کے باوجود ہم اٹھارہ برس تک کالے پانی میں ملزموں ہی کی طرح رہے۔
اسی شام سے گھر گھر ہماری دعوتیں ہونے لگیں اور وہ وہ نفیس اور عمدہ کھانے کھلائے گئے کہ ہندوستان میں کبھی نصیب نہ ہوئے تھے، ہمار خیال تھا کہ اب ساری عمر جیل کا کھانا کھانا پڑے گا، لیکن اس قادر مطلق نے جب یہاں نعم البدل عنایت فرما دیا تو یہ خیال دل سے محو ہوگیا۔
جب اس جزیرے میں پہنچے تو دیکھا کہ ہزاروں قیدی مرد عورتوں کی پیشانیوں کو کھود کر ان کا نام، جرم، اور لفظ دائم الحبس کندہ کرایا ہوا تھا کہ وہ نوشتہ تقدیر کی طرح ساری عمر نہیں مٹ سکتا تھا لیکن مقام شکر ہے کہ ہمارے یہاں پہنچنے سے کچھ عرصہ قبل تمام عملداری سرکار میں یہ حکم موقوف کردیا گیا، ہم اس داغِ دائم الحبس سے محفوظ رہے۔