چلتے چلتے شام کے قریب ہم تھانہ جیل کے دروازہ پر پہنچے۔ جیل کیا مرہٹوں کے وقت کا ایک بڑا مستحکم اور مضبوط قلعہ تھا، جس کے چاروں طرف ایک بڑی گہری اور پختہ خندق بنی ہوئی تھی، جیل میں داخل ہوتے ہی ہماری تلاشی ہوئی اور ہم سب کے جوتے اتروا لیے گئے، جنھیں جاتے وقت بھی واپس نہ کیا گیا۔
سنا ہے کہ ایک دفعہ کسی دل جلے قیدی نے داروغہ جیل کو جوتے مارے تھے، جس کی وجہ سے یہاں یہ قانون بنا دیا گیا کہ کوئی قیدی جیل میں جوتا نہ پہنے بلکہ ننگے پاؤں رہے تاکہ کوئی دوبارہ ایسی نامعقول حرکت نہ کر سکے۔
رات کو ہمیں جوار کی دو دو روٹیاں اور تھوہر کی دال دے کر علاحدہ علاحدہ کوٹھڑیوں میں بند کردیا گیا، تائید الٰہی کے باعث دوسرے دن پنجابی قیدیوں کو گندم خور علاقے کے باشندے سمجھتے ہوئے گندم کی روٹیاں ملنے لگیں اور اس کے بعد تو یہ قانون بنا دیا گیا کہ پنجاب کے قیدیوں کو یہاں گندم ہی کی روٹی دی جائے گی، صبح ہوئی تو ہمیں پتّھر توڑنے کی مشقت دی گئی، جسے بمشکل تمام ایک دو دن کیا، ہمارے پہنچنے کے بعد یہاں دری بافی کا کام بھی شروع کردیا گیا، پنجابی قیدی اس کام کے مہتمم مقرر ہوئے انھوں نے مجھے اور مولانا یحیی علی صاحب کو دری بافوں کا استاد ظاہر کرکے اپنے ساتھ لے لیا اور اس طرح ایک مہینہ بڑے آرام سے گذرا۔
بمبئی کی طرح اس جیل میں بھی مرہٹی زبان کا دفتر تھا، اردو اور فارسی خواں یہاں بھی ناخواندوں میں شمار ہوتے تھے۔ کراچی اور تھانہ کے دفتروں کا حال دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا کہ اب باقی عمر ہم ناخواندوں میں شمار ہوں گے اور قلم پکڑنے کی نوبت شاید ہی کبھی آئے، اس جیل کا داروغہ ایک برہمن اور بڑا متکبر آدمی تھا مگر نائب داروغہ ابراہیم مسلمان تھا اور حتی المقدور ہماری بڑی تواضع کیا کرتا تھا، ایک مہینہ گزارنے کے بعد یہاں سے بھی کوچ کی تیاری ہوئی، اس مسلمان نائب داروغہ نے ہماری بھاری بیڑیاں اتروا دیں اور ان کی بجاے ہلکی بیڑیاں ڈلوا دی تھیں۔ ہندوستان کے جیل خانوں میں دیسی لوگون خصوصاً شریفوں کو بڑی مشکل ہے مگر کوٹ پتلون والے کی بڑی عزت ہے خواہ وہ یوروپین ہوں یا ہندوستانی باشندے، دونوں کو صاحب لوگوں کی طرح بڑا چین ہے۔