پولیس کی واپسی کے بعد یہ بات غور طلب تھی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں نے اس خیال سے کہ چونکہ میرے گھر سے ثبوت مل گیا ہے، اور جنگ سرحد کی وجہ سے حکومت کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے فرار ہو جانا اور بزدلی سے جان بچانا مناسب سمجھا، اگر چہ پولیس کی حراست میں نہیں تھا، مگر وہ چاروں طرف سے میرا سراغ لگائے ہوئے، میری حرکات کو تاک رہے تھے۔
میں نے اپنی والدہ ماجدہ جو کہ اس وقت بقید حیات تھیں اور اپنی بیوی سے صلاح و مشورہ اور انھیں اپنے فرار پر راضی کرکے یہ داؤ کھیلا کہ میں ۱۲ دسمبر ۱۸۶۳ء کو اپنے شہر سے روانہ ہو کر اوّل موضع پیپلی میں، جہاں تحصیل اور تھانہ و غیرہ ہے، آیا اور تحصیل اور پولیس کے ملازمین سے سے بھی رائے لی کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ سب نے بالاتفاق یہ رائے دی کہ تم انبالہ جاؤ اور وہاں سے دریافت کرو کہ یہ کیا مقدمہ ہے؟ اور کس نے مخبری یہ کی ہے؟
یہ سب صلاح و مشورہ کرنے کے بعد میں بوقت شام براستۂ سڑک کلاں پیپلی سے بظاہر انبالہ کو روانہ ہوگیا، اس وقت بہت سے آدمی چشم محبت اور افسوس سے میری طرف دیکھ رہے تھے، جب میں ایک گھوڑے پر سوار ہو کر چلا تو ہر کسی کو یقین ہو گیا کہ میں انبالہ جا رہا ہوں جب تک دن کی روشنی رہی میں برابر سڑک پر انبالہ کی طرف چلتا رہا، کوئی میل بھر راستہ چلنے کے بعد جب خوب تاریکی پھیل گئی اور مسافر بھی دور دور تک نظر نہ آتے تھے، تو میں نے سڑک کو چھوڑ کر جنگل کی راہ لی اور تھانیسر کے متصل اپنی زمین میں مقررہ جگہ پر ایک بجے رات پہنچ گیا۔
جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ والدہ ماجدہ، بیوی، بچے اور بھائی محمد سعید آخری ملاقات کے لیے انتظار کر رہے ہیں، والدہ سے آخری ملاقات کرکے اور بیوی بچوں کو ساتھ لے کر ایک عمدہ بیلی پر سوار ہوئے اور بتیس میل کا فاصلہ طے کرکے صبح پانی پت پہنچ گئے، میں شہر کے اندر گیا؛ بلکہ سڑک ہی سے بیوی بچوں کو رخصت کر دیا، اس وقت میں جس سے بھی رخصت ہوتا تھا زندگی میں دوبارہ ملنے کی امید نہ تھی، بہیلی والے سے میں نے کہا کہ میرے بیوی بچوں کو پانی پت میں چھوڑ کر تم بہیلی لے کر جمنا پار چلے جانا، یہ بہیلی مع بیلوں کی جوڑی جو تین سو روپیہ سے کم قیمت کے نہیں ہیں، ہم نے تمھیں اس شرط پر بخش دی کہ کسی کو میرے بال بچوں کی خبر نہ دینا اور جب تک یہ معرکہ گرم رہے تھانیسر نہ جانا، جس وقت ڈاک خانہ پانی پت کے سامنے میں ساری عمر کے لیے اپنے بیوی بچوں سے جدا ہوا اور میرا یکّہ ان کے سامنے دہلی کو چلا، وہ حادثہ نا قابل بیان ہے، آج بھی وہ ایک ایک لمحہ میرے ذہن پر نقش ہے، اور شب و روز کی گردشوں کے باوجود میں اسے بھول نہ سکا۔