رات کے آٹھ بجے کے قریب ہم ملتان پہنچے، رات کی تاریکی میں سر پر بستر اٹھائے ہوئے اسٹیشن سے جیل کی طرف کشاں کشاں چل دیے، جہاں جانوروں کی طرح بے آب و دانہ بند کر دیے گئے، ہم دو دن ملتان جیل میں رہے، لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ شہر کدھر بستا ہے؟ بازار کہاں ہے؟
دو دن کے بعد ہمیں ملتان سے قریباً پانچ میل کے فاصلے پر دریاے سندھ کے کسی پتن یا گھاٹ سے اگنبوٹ میں سوار کیا گیا، اور اس میں قطار در قطار بٹھا دیا گیا، بیڑی، ہتھکڑی اور ڈنڈے تو پہلے سے زیب تن تھے، یہاں ایک بڑی موٹی آہنی زنجیر بھی ہماری بیڑیوں کے درمیان پھنسا دی گئی، جس کی وجہ سے اٹھنا بیٹھنا محال تھا، پاخانہ پیشاب بھی اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے ہوئے کرتے رہے، اس وقت قریباً آدھا آدھا من لوہا ہمارے جسم پر تھا، اگرچہ دریاے سندھ ہمارے زیر پا ٹھاٹھیں مار رہا تھا، لیکن ہم اس قدر مجبور و بے بس تھے کہ وضو کرنے کی بھی توفیق نہ تھی، لہذا پڑے پڑے تیمّم سے نمازیں پڑھتے تھے، گو ہم یہاں جکڑے پڑے تھے، لیکن جیل سے نکل کر، دوستوں کی مصاحبت، آب دریا کی روانی اور آس پاس کے جنگلوں کی سرسبزی و شادابی کو دیکھ کر نہایت خوش تھے۔
اسی کیفیت میں پانچ چھ روز کے بعد کوٹری پہنچ گئے، راستے میں، سکھر، بھکر اور ٹھٹھے کے مشہور و معروف قلعے بھی دریاے سندھ کے کنارے نظر آئے، کوٹری کے سامنے دریاے سندھ کے دوسرے کنارے، سندھ کا مشہور شہر حیدرآباد بھی دیکھنے میں آیا، اسی دن کوٹری سے بذریعہ ریل کراچی پہنچ گئے، کراچی میں منشی اور کلرک بڑی بڑی اونچی ٹوپیاں اور ہندو مہاجن بڑی بڑی اونچی پگڑیاں پہنتے تھے۔
جب انبالا جیل سے روانہ ہوئے تو خیال تھا کہ انگریزی عملداری میں ہر جگہ اردو یا فارسی کا دفتر ہوگا اور ہم منشی گر ی میں کمال کی وجہ سے محرری کے کام میں رہ کر قید میں آرام سے رہیں گے۔ یہ خیال باطل اس قدر مسلط تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا مطلق خیال نہ رہا اور اس کا احساس اس وقت ہوا، جب یہ دیکھا کہ اردو اور فارسی کا دفتر تو ملتان تک ہے۔
سندھ میں ہر جگہ دفتری زبان سندھی تھی، سندھی زبان کے حروف اگرچہ فارسی جیسے ہیں لیکن اس کے باوصف ہمارے لیے اس زبان کو سمجھنا نہایت دشوار تھا، گویا سندھ میں ہمارا شمار ناخواندہ لوگوں میں ہونے لگا اور وہ جو منشی گری کا غرور تھا یا غیراللہ پر بھروسہ تھا خود بخود ختم ہوگیا۔