اکتوبر ۱۸۶۵ء کے آخری ایام تھے کہ قیدیوں کا ایک بڑا بھاری چالان کیا گیا، اور انھیں ملتان روانہ کرنے کے لیے بند و بست کیا جانے لگا، اور ایک ہتھکڑی دو دو قیدیوں کے ہاتھوں میں لگا دی گئی، میرے ساتھی نے مجھ سے یہ رعایت کی کہ میرا بایاں اور اپنا دایاں ہاتھ ہتھکڑی میں ڈلوایا۔
ہمارے مقدمہ کے فقط تین آدمی، یعنی میں، مولانا یحیی علی صاحب اور میاں عبد الغفار صاحب ملتان روانہ ہوئے، روانگی کے دن کیفیت یہ تھی کہ سینٹرل جیل سے لاہورریلوے اسٹیشن تک پاؤ ں میں بیڑی، سر پر بستر جسے ایک ہاتھ میں تھامے ہوئے اور دوسرے ہاتھ میں ہتھکڑی کی گلجورٹ، اس پر سپاہیوں کی ڈانٹ ڈپٹ مستزاد کہ جلدی کرو جلدی کرو، ورنہ ریل چھوٹ جائے گی، بہر کیف جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو ہمیں ریل کے ڈبوں میں بند کرکے دروازوں پر قفل چڑھا دیے گئے، اور راستہ میں دروازہ کو کہیں نہ کھولا گیا، گویا جانوروں یا مال کی طرح گاڑیوں میں بھر دیا گیا۔