اس جیل کے درمیان ایک برج تھا اور اس کے ارد گرد آٹھ علاحدہ علاحدہ بارکیں، صحن اوار کارخانۂ مشقت بنا ہوا تھا، سپرنٹنڈنٹ نے حکم دیا کہ اس مقدّمہ میں ملوّث تمام قیدیوں کو علاحدہ علاحدہ بارکوں یا نمبروں میں رکھو؛ تاکہ یہ ایک دوسرے سے ملنے نہ پائیں، اس دن دوستوں سے جدا ہونے کی اذیّت، آہنی ڈنڈے سے بھی بڑھ کر محسوس ہوئی، مجھے ان بارکوں میں سب سے زیادہ سخت نمبر اول میں لے گئے، لیکن تائید غیبی سے 6 بجے شام یہ حکم پہنچا کہ یہ قیدی انبالہ کی بیماری والی جیل سے آئے ہیں، لہذا انھیں دوسرے قیدیوں سے علاحدہ رکھا جائے ؛ تاکہ بیماری اس جیل میں نہ پھیلے۔
اس حکم کے بعد بارک نمبر ایک کو جہاں مجھے رکھا گیا تھا میرے تمام ساتھیوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا، ہم سب دوستوں کے اس اجتماع پر بہت خوش ہوئے، اور حکمت الٰہی اور اس کے اسرار نہاں پر سجدۂ تشکر بجا لائے، اس بارک کا جمعدار چونکہ ایک مسلمان تھا، لہذا ہمیں کارخانۂ مشقت میں بھی کسی کام پر نہ لگایا گیا؛ بلکہ اللہ کا فضل شامل حال ہوا اور سپرنٹنڈنٹ نے خود مجھے اس نمبر کا منشی مقرّر کردیا، مگر وہ ڈنڈا جو غالبا کسی بڑے حاکم کے حکم سے تھا، بدستور زیب پا رہا، جب ہر روز صبح کے وقت سپرنٹنڈنٹ صاحب آتے اور مجھے ہر قیدی کی مشقت کا حساب دکھانا پڑتا تو مجھے ہرن کی طرح اچھل اچھل کر ان کے ساتھ رہنا پڑتا تھا۔