۲۲فروری ۱۸۶۵ء کو ہم لاہور جیل کی طرف روانہ ہوئے، جوگیانہ گیروا لباس زیب تن، کالا کمبل اوڑھے ہوئے بیڑی و ہتھکڑی کے زیور سے آراستہ وپیراستہ منزل در منزل اور کوچ در کوچ یہ قافلہ عشاق سوئے منزل رواں دواں تھا، چالیس چالیس قیدیوں پر مشتمل یہ قافلہ تھا، ایک دو گاڑیاں بھی ساتھ تھیں، سب پیدل چل رہے تھے، البتہ کوئی تھک جاتا تو اسے گاڑی پر سوار کر لیا جاتا، ورنہ سب کے سب پاپیادہ خلخال چھن چھناتے عجب شان بے نیازی سے چلے جا تے تھے، برس سوا برس کے بعد جو باہر کی ہوا کھائی تو طبیعت نہایت خوش ہوئی، راستے میں جو چاہتے خرید کر کھاتے جاتے تھے، سفر میں سب سے بڑی نعمت مولانا یحیی علی صاحب کی مصاحبت تھی، جس کے باعث سفر میں بھی دن عید اور رات شب برات ہو گئی تھی۔
قدرت کی کرشمہ سازیاں ملاحظہ فرمائیے کہ جس دن ہم نیاگیروا لباس پہن کر منزل اوّل سے روانہ ہوئے، مہاراجہ مہندر والی پٹیالہ کی برات اسی راستہ سے عین ہمارے سامنے سے گذرتے ہوئے بڑی دھوم دھام کے ساتھ جنوب سے شمال کو جا رہی تھی، سورج طلوع ہو رہا تھا، صبح کا سہانا وقت تھااور فروری کے آخر کے گلابی جاڑے تھے، ایک طرف سورج کی کرنوں میں برات کے سونا چاندی، تاش بادلہ اور ہیرہ مرصع کی چمک، دوسری طرف ہماری لوہے کی بیڑی اور ہتھکڑی کی دمک، ادھر دوشالوں اور کمخواب و بانات کا رنگ، ادھر ہمارے جوگیانہ لباس کی سرخی اور سیاہی کا ڈھنگ، ادھر ہاتھی اور گھوڑوں کی ہنکار، ادھر ہماری بیڑیوں اور ہتھکڑیوں کی جھنکار ایک دوسرے کے مقابل، اس دنیا فانی کی عزت و ذلّت اور مدارج کی کمی بیشی کا فرق عجب خوبی سے دکھلا رہی تھی، ممکن ہے اس وقت اس راجہ نے ہمیں بڑی چشم حقارت سے دیکھا ہو، لیکن میری ہندوستان واپسی سے بہت برس قبل وہ راہئ ملک بقا ہو گیا، وہ ملک بقا جس کی طرف امیر و فقیر دونوں اسی طرح خالی ہاتھ جاتے تھے، جس طرح اس دار فنا میں خالی ہاتھ آتے ہیں، افسوس کہ اس راجہ نے اس عروس دنیا سے بہت ہی کم فائدہ اٹھایا، جس کے لیے اس قدر دھوم دھام کا مظاہرہ کیا تھا۔
ہم جو ایک مدت دراز کے بعد جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں سے نکل کر باہر کھلی فضا میں پہنچے تو ہمیں بھی مہاراجہ پٹیالہ کے براتیوں سے کم خوشی نہ ہوئی ہوگی، ہم ہرنوں کی طرح چوکڑیاں بھرتے چلے جارہے تھے، جن قیدیوں کے پاس کچھ نقدی تھی، وہ راستے میں جو چاہتے خرید کر کھاتے اور خوشی مناتے ہوئے چلے جارہے تھے، ہم لدھیانہ، پھلور،جالندھر اور امرتسر ہوتے ہوئے لاہور پہنچ گئے، آخری منزل لاہور تھی، جب شالامار باغ کے سامنے پہنچے تو ہر ایک نے اپنا اپنا من بھر جو چاہا سو کھایا؛ کیونکہ جیل کی کال کوٹھڑیوں میں معمولی کھانے کے علاوہ اور چیزیں ملنی محال بلکہ جرم تھیں۔
تین بجے شام کے قریب ہم سنٹرل جیل لاہور کے دروازے پر پہنچے، دروازہ پر ہمارے چالان کے تمام قیدیوں کو ایک قطار میں بٹھا دیا گیا تھا، سب سے پہلے ایک کشمیری ہندو داروغہ آیا، جس نے ہم سب کو بغور دیکھااور کسی قدر افسوس بھی کیا، پھر ڈاکٹر گرے سپرنٹنڈنٹ جیل آئے، اس نے بھی سب سے پہلے ہمارا ملاحظہ کیا اور پھر بڑے غصّے سے حکم دیا کہ ان کے پاؤں میں ایک آڑا ڈنڈا بھی ڈال دینا چاہیے ؛ چنانچہ اس حکم کے صادر ہونے کے ساتھ ہی لوہار آہنی ڈنڈے لے کر حاضر ہوگئے، اور ہمارےدونوں پاؤں کے دونوں کڑوں کے درمیان ایک فٹ پانچ گرہ لمبا آڑا ڈنڈا ڈال دیاگیا، از راہ تعصّب یہ ڈنڈا ہمارے لیے ہی تھا، ورنہ جیل میں ہم نے اور کسی قیدی کے پاؤں میں نہیں دیکھا، اس ڈنڈے کی وجہ سے چلنا پھرنا اٹھنا بیٹھنا نہایت مشکل ہو گیااور رات کو پاؤں پسار کر سونا بھی نہایت محال تھا۔