جن دنوں ہم نے چیف کورٹ پنجاب میں اپیل دائر کر رکھی تھی، ہمارے وکیل مسٹر پلوڈن نے یہ خبر دی کہ اگر تم اپیل کرکے چیف کورٹ پنجاب سے رہا نہ ہوئے تو انگریزوں کا ارادہ ہے کہ وہ مولانا احمد اللہ صاحب کو بھی گرفتار کر لیں گے ؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب ہماری اپیل مسترد کردی گئی تو انگریزوں نے سکھلا پڑھا کر ہمیں مولانا احمد اللہ کے خلاف جھوٹے گواہ بنانے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔
تحصیلدار میر مجیب الدین ساکن نارنول، جو رشوت ستانی کے قصور میں انبالہ جیل میں قید تھا، انگریزوں نے اس سے وعدہ کیا کہ اگر تم ان گیارہ آدمیوں میں سے کسی کو مولانا احمد اللہ کے خلاف گواہ بنا دو تو تمھارا قصور معاف کرکے تمھیں دوبارہ تحصیلدار بنا دیا جائے گا؛ چنانچہ اس نے اپنی دنیوی بھلائی کے لیے کارروائی شروع کردی، ہمیں جب اس کا علم ہوا تو ہم نے اپنے ساتھیوں کو سمجھایا کہ بھائیو! ہماری دنیا تو خراب ہو گئی ہے، اب فقط دین باقی رہ گیا ہے، خدارا جھوٹے گواہ بن کر اسے نہ بگاڑو، کہیں ہماری مثال بھی وہ نہ ہوجائے کہ ؏
دونوں طرف سے گئے پانڈے، ادھر حلوا نہ ادھر مانڈے
اس کی دن بھر کی ترغیب سے جس قدر اثر ہوتا وہ ہماری تھوڑی سی نصیحت سے زائل ہو جاتا تھا، اس لیے اس نے انگریزوں سے کہہ دیا کہ جب تک اس جیل میں محمد جعفر اور مولانا یحیی علی صاحب موجود ہیں، کوئی گواہ نہیں بن سکتا؛ چنانچہ مجھے، مولانا صاحب اور میاں عبد الغفار کو سنٹرل جیل لاہور روانہ کر دیا گیا،اور محمد شفیع، عبد الکریم، الٰہی بخش اور منشی عبد الغفور وغیرہ کو انبالہ جیل ہی میں رہنے دیا، ہمارا اس جیل سے روانہ ہونا ہی تھا کہ محمد شفیع اور عبد الکریم وغیرہ سرکاری گواہ بن گئے، اور ان کی جھوٹی شہادت کی وجہ سے وقت کے ولی اللہ، شمس الاسلام حضرت مولانا احمد اللہ صاحب کی تمام جائیداد ضبط کر لی گئی، اور مئی ۱۸۶۵ء میں انھیں حبس دوام بعبور دریاے شور کی سزا دی گئی ؛ چنانچہ آپ جون میں ہم سے بھی پہلے انڈمان تشریف لے گئے۔
یہاں یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ پہلے محمد شفیع کو کس قدر شدید غصّہ کے ساتھ پھانسی کا حکم دے کر اس کی پچاس لاکھ کی جائیداد ضبط کی اور پھر صرف ایک برس بعد گواہی کا حیلہ کرکے اسے رہا کردیا ؛ تاکہ ضبط شدہ جائیداد واپس نہ دینی پڑے، اگر وہ بے چارہ بے قصور تھا جیساکہ ایک سال بعد کی رہائی سے معلوم ہوتا ہے تو بڑے شد و مد کے ساتھ اس کی جائیداد کی ضبطی اور پھانسی کی سزا کیوں تھی؟ اور اگر وہ بہت بڑا مجرم تھا، جیساکہ سیشن جج نے اپنے فیصلہ میں مندرج دلائل سے ثابت کیاتو ایک سال کے بعد رہائی کیوں؟
اس کے بعد ۱۸۷۱ء تک امیر خاں صاحب سوداگر چرم، مولوی تبارک علی صاحب، مولوی امیر الدین صاحب ساکن پٹنہ، بنگال اور ابراہیم منڈل ساکن اسلام پور وغیرہ وہابیوں کی گرفتاری کے جس قدر مقدمات پیش ہوئے، ان سب میں ان سرکاری گواہوں کو جھوٹی گواہی دینے کے لیے بلایا جاتا تھا، اور میں نے خود ان گواہوں میں سے ایک کی زبانی سنا تھا کہ جب کبھی ہم جھوٹی گواہی دینے سے انکار کرتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ تمھیں تو مشروط طور پر صرف اسی لیے رہا کیا گیا تھاکہ تم بوقت ضرورت گواہی دے سکو، یادرکھو اگر تم نے گواہی دینے سے انکار کیا تو تمھیں پہلے وارنٹ پر ہی حبس دوام کی سزا دے کر کالا پانی بھیج دیا جائے گا۔