ان دو عیوب میں سے ایک تو یہ ہے کہ جب ہم ایک مقفّل بارک میں سویا کرتے تھے۔ ان دنوں کی بات ہے کہ ایک سپاہی محمد شفیع کے گھر سے پلاؤ لے کر آیا، تو ایک جنگلے کی طرف سے پلاؤ لینے کے لیے چلا گیا، پلاؤ دیکھ کر مجھ سے نہ رہا گیا، ایک بڑی سی بوٹی اٹھا کر منہ میں ڈال لی، اور تھوڑا سا چباکر اسے جھٹ پٹ نگل لینا چاہا، لیکن مال مسروقہ حلق سے نیچے کیسے اترتا؟ بوٹی حلق میں پھنس گئی، نیچے جاتی تھی نہ اوپر آتی تھی، میرا دم گھٹنے لگا اور میں لڑکھڑا کر گرپڑا، میرا گلا ملا گیا تو وہ بوٹی باہر نکل آئی، اور میرے نفس کا یہ عیب سب ساتھیوں کے سامنے ظاہر ہو گیا، اگرچہ محمد شفیع کے ساتھ معاملہ ٹھیک تھا اور ان کی طرف سے ہمیں ہر طرح کی اجازت تھی، لیکن پھر بھی یہ حرکت طفلانہ اور نہایت نا زیبا تھی، لہذا میں نے مال مشتبہ کے حلق سے نیچے نہ اترنے پر شکر الٰہی ادا کیا۔
اس سے بھی بڑھ کر اپنے نفس کی شرارت کا ایک اور واقعہ عرض کرتا ہوں، ہمارے جیل کے ایک ساتھی منشی عبد الغفور خاں بھی تھے جو کہ ہمارے ساتھ انبالہ جیل میں تھے، میرے بھائی کے نام ان کے گھر سے دس روپے کا منی آرڈر آیا، بھائی صاحب دس روپے کا نوٹ لے کر جب میرے پاس آئے تو انھیں بھی رقم کی شدیدضرورت تھی، میں نے منشی عبد الغفور خاں کو اطلاع کیے بغیر وہ نوٹ اپنے بھائی کو دے دیا، اور انہوں نے اپنے کام میں اسے خرچ کر لیا، منشی عبد الغفور خاں کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے میری کوئی شکایت نہیں کی ؛ کیونکہ وہ برسوں میرے گھر رہے تھے، اور مجھے اپنا بزرگ سمجھتے تھے، اور میں نے جرات بھی اسی بھروسے پر کی تھی ؛ تاہم دوسرے لوگوں نے مجھے ضرور لعن طعن کیا، اس وقت میرے پاس اتنی گنجائش بھی نہیں تھی کہ انھیں دس روپے دے سکتا، پورٹ بلیر پہنچنے کے بعد میرے ہاتھ میں روپیہ آیاتو میں نے انھیں لاہور جیل میں بھیج دیا۔
اپنے نفس کے ان دو عیوب کے اظہار کے بعد میں اللہ رب العزت سے دعاء کرتا ہوں کہ وہ مجھے معاف فرمادے اور میدان حشر میں نیکوں کے سامنے ذلیل نہ کرے۔