ایسے نازک وقت میں ۱۱ دسمبر ۱۸۶۳ء بمطابق ۲۸ جمادی الثانی سنہ 1280 ھ کو ایک ولایتی افغان غزن خان نے جو کہ پانی پت ضلع کرنال کی چوکی میں بطور پولیس سوار متعین تھا، کسی ذریعہ سے میرے حالات معلوم کیے اور اپنے دنیوی فائدے کی خاطر ایک لمبی چوڑی اور جھوٹی داستان ڈپٹی کمشنر کرنال کو سنائی اور کہا کہ سرحد پر ہندوستانی مجاہدین سے لڑی جانے والی جنگ میں تھانیسر کا نمبردار محمد جعفر مجاہدین کی روپیہ اور آدمیوں سے مدد کررہا ہے، ڈپٹی کمشنر نے یہ داستان سنی تو بذریعہ تار ضلع انبالہ میں خبر بھیج دی ؛ کیوں کہ ہمارا شہر تھانیسر اسی ضلع میں واقع ہے۔
مخبر داستان سرائی کرکےباہر نکلا ہی تھا کہ ہمارے ایک دوست ڈپٹی کمشنر کرنال کی ملاقات کے لیے ان کے ڈیرے پر پہنچ گئے، جن سے گفتگو کے دوران ڈپٹی کمشنر نے اس مخبری کا ذکر بھی کیا، ملاقات کے بعد جب وہ دوست اپنے ڈیرے پر تشریف لائے تو انہوں نے اپنے ایک نوکر کاوا نامی سے جو میرا ہمسایہ تھا بطور افسوس اس واقعہ کا ذکر کیا، کاوا اسی وقت مجھے اطلاع دینے کے لیے تھانیسر دوڑ پڑا، جب تھانیسر پہنچا تو رات کافی بیت چکی تھِی، سب سے پہلے میرے مکان پر آیا لیکن میں اندر سو رہا تھا، اس نے جب دروازہ بند دیکھا تو آرام کے وقت میں تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا، اور یہ سوچا کہ صبح کے وقت اطلاع دے دوں گا، حقیقت یہ تھی کہ تقدیر اسے دروازے پرسے ہٹا لے گئی۔
اب انبالہ کی کیفیت سنیے، جب یہ تار انبالہ پہنچا تو میری خانہ تلاشی کے لیے وارنٹ جاری ہوا، اور ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ کپتان پارسن، پولس کی ایک بھآری جمعیت کے ساتھ راتوں رات میرے مکان پر پہنچ گیا، قدرت الٰہی کا تماشہ دیکھیے ایک ہی وقت میں دو آدمی روانہ ہوتے ہیں ایک کرنال سے مجھے خبر دینے کو اور دوسرا انبالہ سے میری خانہ تلاشی کو، کرنال والا جو میرا خیر خواہ تھا پہلے پہنچا اور کچھ نہ کر سکا۔
چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں کرنا رفو
سوزن تدبیر ساری عمر گر سیتی رہے
دوسرے صاحب رات کے تین بجے میرے گھر پر پہنچ گئے، چاروں طرف سے مکان کا محاصرہ کرنے کے بعد مجھے باہر بلایا، جب باہر نکلا تو دیکھا سپرنٹنڈنٹ پولیس، خانہ تلاشی کے وارنٹ کے ساتھ میرے دروازہ پر موجود ہے، اس نے وارنٹ دکھائے اور کہا کہ مکان کی تلاشی لو، میں اسی وقت سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے، میں نے سوچاکہ تلاشی پہلے گھر کے اندر کی ہو تو بہتر ہے ؛ تاکہ بیٹھک میں رکھا ہوا خط پولس کے ہاتھ نہ لگے ، لیکن جو ہونا ہے اسے کون روک سکتا ہے، باوجود یکہ صدر دروازے کی اندرونی دہلیز میں بالکل اندھیرا تھا اور بیٹھک کا دروازہ جو کہ شمالی جانب تھا، بالکل نظر نہیں آتا تھا، لیکن سپری ٹینڈنٹ صاحب اسی پر مصر ہوئے کہ پہلے بیٹھک ہی کی تلاشی لی جائے۔
بیٹھک میں داخل ہونے کے لیے دو دروازوں کا کھلوانا ضروری تھا، جوکہ اندر سے بند تھے، میں نے چالاکی سے منشی عبد الغفور کا نام (جو اس کے اندر چند آدمیوں کے ہمراہ موجود تھے) لے کر بلند آواز سے کہا کہ “سپرنٹنڈنٹ صاحب تلاشی کے لیے کھڑے ہیں، تم جلد دروازہ کھول دو” اس سے میری غرض یہ تھی کہ کسی طرح وہ لوگ تلاشی کی بات سمجھ کر دروازہ کھولنے سے پہلے اس زہریلے خط کو چاک کردیں سپرنٹنڈنٹ نے میری پکار کو سمجھتے ہوئے مجھے روکا لیکن میں کہاں سنتا تھا، بیٹھک کے اندر والے گھبراہٹ میں میرے اشاروں کو سمجھ نہ سکے اور انہوں نے دروازہ کھول دیا، اب بیٹھک میں تلاشی ہونے لگی تو جس خط کا ڈر تھا، سب سے پہلے وہی پولیس کے ہاتھ لگا، اسی شام کو پکڑَ جانے سے چھ گھنٹے پہلے تقدیر نے وہ خط میرے ہاتھ سے لکھوا رکھا تھا، خط امیر قافلہ کے نام تھا اور اس میں اصطلاحی لفظوں میں چند ہزار اشرفیوں کی روانگی کا ذکر تھا، اس کے علاوہ چند خطوط پارینہ بھی پولس کے ہاتھ لگ گئے، جو کہ محمد شفیع انبالوی کو پٹنہ سے ارسال کیے تھے، اگرچہ ان خطوط میں کوئی مضر بات نہ تھِی، مگر ان سے پولیس کو محمدشفیع انبالوی اور اہل پٹنہ مثلا مولانا یحییٰ علی، مولانا عبد الرحیم اور مولانا احمد اللہ وغیرہ (جو اس وقت تحریک مجاہدین کے ارباب حل و عقد تھے) کی تلاشی و تفتیش کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔
منشی عبد الغفور جوکہ بہار کے ضلع گیا کہ باشندے تھے اور میرے پاس محرری کا کام کیا کرتے تھے اور ایک لڑکے عباس نامی کو جو بیٹھک میں سویا ہوا تھا، پولیس پکڑ کر لے گئی، اگر چہ میری نسبت انھیں قوی شک ہو گیا تھا، لیکن وارنٹ گرفتاری اور گورنمنٹ کی منظوری کے نہ ہونے کی وجہ سے جو کہ ایسے مقدمات میں ضروری ہے، پولیس نے مجھ سے کچھ تعرض نہ کیا۔