ہم انبالہ جیل ہی میں تھے کہ قیدیوں میں وبائی بخار اور سرسام بڑے زور و شور سے پھیلا، کوئی چوتھے حصّہ کے قریب قیدی اس مرض سے فوت ہوگئے، کیفیت یہ تھی کہ بخار ہو جاتا اور کچھ دیر بعد مریض چل بستا، مہینے دو مہینے کی میعاد والے بہت سے قیدی مر گئے، جیل کے باہر خیمے لگائے گئے، اور قیدیوں کو ان میں منتقل کردیا گیا، مگر حضرت بخار نے وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا۔
خاکسار بھی اس وبائی مرض سے نہ بچا اور سخت بیمار ہو گیا، مجھے جیل کے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا، اور ڈاکٹر بٹسن صاحب دلی توجہ سے میرا علاج کرنے لگے، لیکن بخار سے قطعاً افاقہ نہ ہوا، گو سرسام کی نوبت نہ پہنچی تھی، مگر میں کئی دن تک بےہوش پڑا رہا، اور کھانے پینے کی کسی چیز کو ہاتھ تک نہ لگایا، انگریزی دوائیں مجھ پر ذرّہ بھر اثر نہیں کر رہی تھیں، لاچار ہو کر ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے پوچھاکہ اس مرض کے لیے تم گھر پر کیا دوا کھاتے تھے ؟ میں نے کہا ہندوستانی دوائیں کھاتا تھا، انگریزی دوائی کبھی استعمال نہیں کی شاید یہی وجہ ہے کہ ان دواؤں سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے، انہوں نے کہا تمھیں ان دواؤں کے نام معلوم ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا، انہوں نے کہا اچھا ان دواؤں کے نام ایک کاغذ پر لکھ دو، ہم تمھیں بازار سے منگوادیں گے، میں نے مربّہ سیب، مربّہ بہی، شربت انار، شربت بنفشہ، شربت نیلوفر اور ورق نقرہ وغیرہ عمدہ عمدہ مزےدار مفرّح ادویہ ایک کاغذ پر لکھ دیں اور انہوں نے اسی وقت وہ سب بازار سے منگوا کر میرے حوالہ کردیں۔
بیماری کی وجہ سے زبان کا مزہ تو بگڑا ہوا ہی تھا، میں نے ان کو جب یکے بعد دیگرے کھایا تو بہت مزہ آیا، بخار چونکہ تپ محرقہ کی قسم سے تھا، اس لیے شربتوں کے استعمال سے دوسرے ہی دن اتر گیا، مربّہ جات اور اوراق نقرہ کے استعمال سے بدن اور معدہ میں بھی قوت پیدا ہوگئی، ڈاکٹر صاحب نے جب دوسرے دن مجھے تندرست دیکھا، تو بہت خوش ہوئے، اور نقاہت دور کرنے کے لیے شوربا گوشت اور دودھ مقرر کردیا۔
دنیا کی دولت اور حشم و جاہ کی ناپائیداری، حالت سیمابی اور ہرجائی کا اندازہ لگائیے کہ خانہ تلاشی سے قبل 12 دسمبر تک میرے پاس ہزاروں روپیہ کی جائیداد منقولہ تھی، بیسیوں آدمی میری رعیت میں تھے، ایک بڑے شہر کا نمبردار تھا، گھوڑے اور گاڑیاں سواری کے لیے تھیں، اور ہر کام کے لیے گھر میں نوکر چاکر تھے، لیکن خانہ تلاشی کے چند گھنٹے بعد جب میں فرار ہوا تو سب جاہ و حشم خاک میں مل گیا، میرے فرار یا شدید غصّہ کی وجہ سے مقدمہ کے اختتام پر صادر ہونے والے حکم سے قبل ہی انگریزوں نے پہلے دن تمام جائیداد قرق کر لی تھی، دوسرے دن میرے عزیزوں کو کوئی برآمدہ میں بھی کھڑا نہ ہونے دیتا تھا، الغرض ایک ہی رات میں کایا پلٹ گئی، کل جس مال و دولت کا میں مالک تھا، آج وہ دوسروں کے قبضہ میں چلا گیاتھا۔
میرے وارثوں کو اس قدر موقع بھی نہ ملا کہ وہ قرقی سے قبل جائیداد کا کوئی حصّہ علاحدہ کر سکیں، ضبطی کا حکم صادر ہونے کے بعد میرے بھائی نے جب اپنے حصّے کا دعوی کیا تو اسے صرف ایک کوٹھڑی دی گئی اور باقی سب منقولہ و غیر منقولہ جائیداد بحقّ سرکار ضبط کرکے نیلام کر دی گئی، میں نے دور اندیشی خیال کرتے ہوئے اس حادثہ سے سات برس قبل اپنے حصہ کی کل جائیداد کو اپنی بیوی کے مہر میں مکفول کرکے ایک شرعی بیع نامہ لکھ دیا تھا، اب وہ بیع نامہ بھی پیش کیا گیا، مگر انگریزوں کو اس قدر شدید غصّہ اور تعصّب تھا کہ انہوں نے ایک نہ سنی اور میری بیوی اور دوشیر خوار بچّوں کے ہاتھ پکڑ کر گھر سے نکال دیا۔
پھانسی کے حکم کی تبدیلی کے بعد ہم ستمبر ۱۸۶۴ء سے فروری ۱۸۶۵ءتک انبالہ جیل رہے، محمد شفیع کے گھر سے اکثر عمدہ عمدہ کھانا آیا کرتا تھا، ہم اسے جیل میں ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر بڑے مزے سے کھایا کرتے اور شکر الٰہی بجا لایا کرتے۔یہاں تک اپنی تعریف لکھتے لکھتے میرا نفس بہت پھول گیا ہے، اور اکثر مقامات پر اپنی تعریف میں مبالغہ کرنا چاہتا ہے، لہذا اپنے نفس کے دو عیب بھی یہاں تحریر کرتا ہوں ؛ تاکہ اس خود پسند موذی کو ذرا ذلّت ہو اور پھر مجھے مبالغہ کی ترغیب نہ دے۔