پھانسی کی موقوفی کے حکم سنانے کے بعد دوسرے روز دیگر قیدیوں کے ساتھ ہمیں بھی مشقت کے لیے بھیجا گیا، نبی بخش داروغہ جیل، رحیم بخش نائب داروغہ اور دوسرے سب دیسی افسر گو ہمارے عنایت فرما تھے، لیکن سپرنٹنڈنٹ جیل کے خوف کی وجہ سے ہم تینوں آدمیوں کو کاغذ کوٹنے کی ڈھینکلی کے کام میں لگا دیا، جو اس جیل میں سب سے زیادہ سخت کام تھا، تھوڑی دیر تک ہم نے اس کو پاؤں سے ہلایا تو پاؤں شل ہوگئے، مگر اسی وقت ڈاکٹر بٹین عرف ریلو سپرنٹنڈنٹ، جیل کے کاغذ گھر میں آئے اور میں ڈھینکلی کے سخت کام میں دیکھا، تو داروغہ پر بہت خفا ہوئے، اور ہمیں اس سخت کام سے نکال کر محمد شفیع اور مولانا یحییٰ علی صاحب کو تو سوت کھولنے کے کام میں لگا دیااور میرا ہاتھ پکڑ کر ایک ناؤ کے پاس لے گئے، جس میں کاغذ پھاڑ کر بھگوئے جاتے تھے، اور مجھے کہا کہ یہ دفتر کی ردّی ہے، غالباً تمھارے ہاتھ کے لکھے ہوئے کاغذ بھی اس میں ضرور ہوں گے، تم اپنا دل بہلانے کے لیے ان کاغذات کو پڑھتے بھی رہو، اور ردّی کو پھاڑ پھاڑ کس اس ناؤ میں ڈالتے بھی جاؤ، اللہ کے فضل سے میری مشقت دل لگی اور تفریح طبع سے خالی نہ تھی اور دوسرے ساتھی بھی کسی سخت کام میں نہ تھے، ہم دن بھر کام کرنے کے بعد رات کو سب کے سب ایک جگہ بارک میں جا کر سورہتے۔
جب ہم جیل گئے تو قیدیوں کو صرف روٹی دال اور ہفتے دو یاتین دن تیل سے بھگاری ہوئی ترکاری ملا کرتی تھی، گھی،گوشت یا دودھ دہی ابتدائے عملداری سرکار سے کبھی کسی قیدی نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی، تائید الٰہی ہمارے شامل حال ہوئی کہ جوں ہی ہم جیل میں داخل ہوئے، انسپکٹر جنرل مجلس پنجاب کے حکم سے پنجاب کے تمام قیدیوں کو عمدہ گوشت، گھی اور دہی ملنے لگی، ان غیر مترقبہ نعمتوں کو دیکھ کر سب قیدی ہمیں دعائیں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سب تمھارے وجود مسعود کی برکت کا نتیجہ ہے، طرفہ یہ کہ جب تک ہم لوگ جیل ہائے پنجاب میں رہے، تب تک یہ چیزیں سب جیل خانوں میں برابر ملتی رہیں، مگر ہمارے کالے پانی کو روانہ ہونے کے ساتھ ہی یک قلم بند ہوگئیں؛ بلکہ ہمارے جانے کے بعد بے چارے قیدیوں کو گندم کی روٹی کے بجاے جوار باجرے کی روٹیاں ملنے لگیں۔