سب سے پہلی میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ تم بہت عقلمند، ذہین، قانون داں اپنے شہر کے نمبردار اور رئیس ہو، تم نے اپنی ساری عقلمندی اور قانون دانی کو سرکار کی مخالفت میں خرچ کیا، تمھارے ذریعہ سے سرکار کے دشمنوں کو آدمی اور روپیہ جاتا تھا، تم نے انکار بحث سے کام لیا اور سرکار کی خیر خواہی کا قطعا دم نہیں بھرا، اور فہمائش کے باوجود تم نے قطعا سرکار کی خیر خواہی نہ کی، لہذا تمھیں پھانسی دی جائے گی، تمھاری کل جائیداد بحق سرکار ضبط ہوگی، تمھاری لاش بھی وارثوں کو نہیں دی جائے گی ؛ بلکہ نہایت ذلّت کے ساتھ جیل کے گورستان میں گاڑ دی جائے گی، آخر میں یہ بھی کہا کہ میں تمھیں پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوں گا۔
صاحب موصوف کا یہ سارا بیان میں نے نہایت سکوت سے سنااور صرف آخری فقرہ کے جواب میں کہا کہ جان دینا اور لینا خدا کا کام ہے، آپ کے اختیار میں نہیں ہے، وہ ربّ العزت قادر ہے کہ میرے مرنے سے پہلے تم کو ہلاک کردے لیکن اس جواب باصواب سے وہ بہت خفا ہوا، مگر پھانسی کا حکم دینے سے زیادہ اور کیا کر سکتا تھا؟ جس قدر سزائیں اس کے اختیار میں تھیں، وہ دے چکا تھا، اس وقت میرے منہ سے یہ الہامی فقرہ نکلا تھا کہ میں تو اس وقت تک زندہ موجود ہوں، مگر وہ اس حکم دینے کے تھوڑے عرصہ بعد ناگہانی موت سےراہی ملک عدم ہوا، مجھ کو اپنی اس وقت کی کیفیت خوب یاد ہے کہ میں اپنے اس حکم پھانسی کو سن کر خوش ہوا تھا کہ شاید ہفت اقلیم کی سلطنت ملنے سے بھی اس قدر مسرور نہ ہوتا، اس حکم کے سننے سے میری وہ کیفیت ہوئی کہ گویا کہ جنت فردوس اور حوریں آنکھوں کے سامنے پھرنے لگ گئیں تھیں، میرے بعد مولوی یحیی علی صاحب اور ان کے بعد محمد شیع اور ان کے بعد نمبروار سب آدمیوں کو حکم سزا کا سنا دیا گیا، جن میں میں اور مولوی یحیی علی صاحب اور حاجی محمد شفیع تین آدمیوں کے واسطے پھانسی وغیرہ حسب مذکورہ بالا اور باقی آٹھ مجرموں کو دائم الحبس بعبور دریاے شور مع ضبطی کل جائیداد کے سزا ملی ہیں، میں مولوی یحیی علی صاحب کو نہایت بشاش پایا، لیکن محمد شفیع کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا ؛ تاہم انہوں نے بھی اپنی طبیعت کو بہت تھا ما، اس دن پولیس والے اور تماشہ بین مرد و عورت بکثرت حاضر تھے، قریب تمام کے احاطہ کچہری ضلع انبالہ کا خلقت سے بھرا ہوا تھا، حکم سنا کر اس کا چپ ہونا تھا کہ صدہا مسلح اہل پولیس زیر حکم کپتان پارسن صاحب میرے نزدیک آکر کہنے لگا کہ تم کو پھانسی کا حکم ملا ہے،تم کو رونا چاہئے، تم کس واسطے اتنا بشاش ہے، میں نے چلتے چلتے اس کو بولا کہ شہادت کی امید پر جو سب سے بڑی نعمت ہے، اور تم اس کو کیا جانو، اس مقام پر یہ بات بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ پارسن صاحب بھی ایڈورڈز صاحب سے بڑھ کر متعصب تھا اور اس مقدمہ میں شروع سے اس نے ہم لوگوں پر بہت ظلم کیا تھا، کہ جس کی تفصیل یہ قلم بھی نہیں کر سکتی، مگر خداوند تعالی منتقم حقیقی تو موجود تھا گو اس کے کام دیر اور سہولت سے ہوتے ہیں، ہم کو سزا ہوکر تھوڑے دن ہی گذرے تھے کہ یہ بے خوف بھی دنیا ہی میں پاگل ہوکر راہی ملک عدم ہوا، اس دن تماشہ بین لوگ ہماری پھانسی کو حکم سن کر اکثر زار زار روتے تھے، کوئی خدا کی مرضی اور رضا بقضا سے اپنے رنج کو روکتا تھا، کوئی دم بخود ساکت ہوکر ہم کو دیکھ رہا تھا، جیل خانہ تک بیسیوں مرد عورت ارد گرد سڑک کے ہمارا منہ دیکھتے ہوئے چلے گئے، اسی حالت کے اندر پولس ہم کو جیل خانہ میں لے گئی، اور ہم سب کو گیروا لباس پہنادیا، ہم تین پھانسی والوں کو علاحدہ علاحدہ پھانسی گھروں میں بند کردیا گیا، اور باقی آٹھ آدمیوں کو جیل میں دوسرے آدمیوں کے ساتھ ملا دیا گیا۔
2 مئی کی رات جب ہم جیل کی ان تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں داخل ہوئے تو پہلی رات ہی جہنم کا ایک نمونہ مل گیا، صبح ہم نے اہالیان جیل خانہ سے اپنی یہ تکلیف بیان کی اور چاہا کہ رات کو ہمیں ان کوٹھڑیوں سے باہر رکھا جائے، مگر جیل خانہ کے سب اہالی ڈر کے مارے انکار کرکے باہر چلے گئے، جب یہ انکار کرکے جیل خانہ سے باہر نکلے اسی وقت ایک سوار تار گھر سے ایک ضروری لفافہ لے کر پہنچا، کھول کر جو دیکھا تو اس میں یہی لکھا تھا کہ ان تینوں پھانسی والوں کو بوقت شب باہر سلایا کرو، تائید الٰہی کا یہ طرفہ تماشہ دیکھ کر اسی دم جیل والوں نے ہمیں یہ حکم سنا دیا کہ تمھارے لیے بڑے اہتمام سے تین نئی پھانسیاں اور ان کے ریشمی رسّے تیار ہوئے ہیں اور ادھر پھانسی کی منظوری کے لیے مقدمہ کی مسل کو پنجاب کے محکمہ چیف کورٹ میں بھیج دیا گیا۔