مدت دراز تک التوا کے بعد ۲ مئی سنہ ۱۸۶4ء کو سیشن جج نے آخری اجلاس بلایا اور گورنر کے ایما سے اپنی تجویز اور سزا گھر سے لکھ لایا، اجلاس کے ابتدا ہی میں سیشن جج نے پہلے چاروں اسیروں سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے اس مقدمہ کو اوّل سے آخر تک سنا، اب آپ کی جو رائے ہو لکھ کر پیش کرو، ہم نے دیکھا کہ وہ چاروں اسیر اس وقت بھی ہماری شکلوں کو دیکھ کر آنسو بھر بھر لاتے تھے، اور دل سے ہماری رہائی کےخواہاں تھے، لیکن جب انہوں نے یہ دیکھا کہ جج اور کمشنر انھیں سزا دینے پر تلے ہوئے ہیں تو ڈر کے مارے انہوں نے یہ بھی لکھ دیا کہ ہمارے نزدیک بھی ان پر جرم ثابت ہے۔
اس قانونی حیلہ کے حصول کے بعد جج اور کمشنر نے اپنی اس تجویز کو جو پہلے سے میز پر رکھی ہوئی تھی، پڑھنا شروع کیا اور آئیں بائیں شائیں کر کے مسٹر پلوڈن کی دلیل کو ٹال دیا۔