مسٹر پلاؤڈن ہمارے لائق اور دیرینہ وکیل تھے، انہوں نے بہت سی قانونی کتابوں اور نظائر سے ثابت کرکے یہ جواب لکھا تھا کہ ستھانہ وغیرہ،جہاں یہ جنگ ہوئی، جس میں اعانت کا ان لوگوں پر الزام ہے، سرکار کی عملداری سے باہر ہے، لہذا یہ جرم دفعہ ۱۲۱ تعزیرات ہند کے تحت نہیں آتا، دفعہ ۱۲۱ صرف ان اقدامات جنگ پر لاگو ہوتی ہے جو سرکاری علاقوں کے اندر عمل میں لائے جائیں، ستھانہ اور ملکا بہر حال برطانوی علاقے سے باہر اور آزاد علاقے ہیں۔ سیشن جج ہربرٹ ایڈورڈز نے یہ اعتراض مسترد کردیا تو پلاؤڈن نے دوسرا اعتراض پیش کردیا کہ میرے چھ مؤکلوں (مولانا یحیی علی، مولانا عبد الرحیم، حسینی تھانیسری، حسینی عظیم آبادی، عبد الغفار اور الٰہی بخش ) میں سے پانچ کے خلاف مقدمہ اس عدالت میں نہیں چل سکتا، کیونکہ انبالہ ڈویژن کی عدالتیں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کے ماتحت ہیں اور میرے پانچ مؤکل عظیم آباد کے رہنے والے ہیں، جو گورنر بنگال کے ماتحت ہے، ضابطۂ فوجداری کی دفعہ ۲۶ اور ۲۷ کے مطابق جرائم کی تحقیقات یا تو ان اضلاع میں ہونی چاہیے جہاں ان کا ارتکاب ہوا، یا ان اضلاع میں جہاں ان کے نتائج بر آمد ہوئے، دفعہ ۲۸ کے ماتحت شرکت و اعانت کی صورت بھی یہی ہے۔
جب سیشن اور دوسرے انگریزوں نے وکیل کی یہ دلیل سنی تو سکتے میں رہ گئے، اور سوائے ہاں اور بجا کہ ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا، لیکن اس مقدمہ میں تو انگریزوں نے تعصّب کی انتہاء کر دی تھی اور مقدمہ کی کار روائی کے آغاز ہی سے قانون کو بالائے طاق رکھ دیا تھا، مسٹر پلوڈن کے اس قانونی نکتہ کا جواب دینے کے لیے باہم مشورہ کی غرض سے مقدمہ کو چند روز تک ملتوی کردیا گیا اور گورنر جان لارنس اور دیگر ان افسروں سے مشورہ کیا گیا جو ہمارا قلع قمع ہی چاہتے تھے ؛ کیونکہ خود غرض لوگوں نے انھیں یہ سبق پڑھایا ہوا تھا کہ جب ان غریب وہابیوں کو پھانسی دے کر نیست و نابود نہ کردوگے، عملداری سرکار ہند میں رہنا محال ہے، ان حالات میں قانون کو کون سنتا ہے؟