کچھ عرصہ کے بعد یہ مقدمہ باجلاس میجر ایڈورڈز محکمہ سیشن میں پیش ہوا، اور ایک ہفتہ تک رو بکاری ہوتی رہی، محمد شفیع اور عبد الکریم کی طرف سے مسٹر گڈال بیرسٹر محکمہ مجسٹریٹی میں وکیل اور پیروکار تھے، جب یہ مقدمہ کچہری سیشن میں پیش ہوا تومولوی محمد حسن اور مولوی مبارک علی صاحب نے جو پٹنہ والوں کی طرف سے پیروکار تھے، مسٹر پلاؤڈن نامی ایک دوسرے وکیل کو بلایا، یہ وکیل بڑا جہاں دیدہ اور فہمیدہ آدمی تھا، جب پلوڈن اپنا مختارنامہ لے کر حوالات میں ہمارے دستخط کرانے آیا، تو مولانا عبد الرحیم صاحب، مولانا یحیی علی صاحب، الٰہی بخش سودا گر، حسینی، قاضی میاں جان، عبد الغفار اور منشی عبد الغفور صاحب نے تو اس پر دستخط کر دیے، مگر میں نے نہ کیے اور کہا کہ میں وکیل ہوں، اپنی جواب دہی آپ کروں گا۔
مولانا یحیی علی صاحب وکیل کی تقرری اور روپیہ کی بربادی سے راضی نہ تھے ؛ بلکہ اگر دوسرے لوگ آپ کو نہ روکتے تو آپ اپنے نیک اعمال کا اقبال کرنے کو تیار تھے، لیکن آپ کی طبیعت اس قدر سیدھی سادی اور بے عذر تھی کہ جب آپ سے مختار نامہ پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا تو اس پر دستخط کر دیے۔
حکومت کی طرف سے میجر ونکفیل اور پارسن پیروکار اور وکیل تھے، اور دس مدعا علیہم کی طرف سے دو وکیل تھے، اور میں بذات خود اپنی جوابدہی کرتا تھا، جب کوئی گواہ پیش نہیں ہوتا تو اس کا جواب سیشن جج خود لکھتے اور اس پر جرح کرتے، اس کے بعد سرکاری وکلاء پھر مدعا علیہم کے دونوں وکلا اور آخر میں یہ خاکسار جرح کے سوالات کرتا؛ چونکہ میں سب سے زیادہ اس مقدمہ سے واقف تھا، گواہوں کے حالات اور لیاقت سے بھی بخوبی آگاہ تھا اور فن وکالت میں بھی پورا پورا تجربہ رکھتا تھا، اور پھر اس وقت اللہ تعالی کے فضل و کرم سے دوسروں کی نسبت مجھے جرح کے ایسے ایسے سوالات سوجھتے کہ اکثر گواہ میرے سوالات کے جواب سے تنگ آکر دہائی دہائی کرنے لگتے تھے۔
اجلاس عام ہونے کی وجہ سے بہت سے یورپین اور ملکی تماشا بین حاضر ہوکر یہ تماشا دیکھا کرتے تھے، چار اسیر دو ہندو دو مسلمان رؤسا ضلع انبالہ سے بلائے گئے تھے، جب شہادت طرفین تمام ہو گئی تو مدعا علیہم کے جواب لیے گئے، دس مجرموں کا جواب تو ان کے وکیلوں نے تحریری داخل کیا، آخر میں جب سیشن جج نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: “بتاؤ تمھارا کیا جواب ہے؟” تو میں نے حکومت کے ہر ایک ثبوت کی تردید کرکے اپنا جواب نہایت مشرّح اور مدلل لکھانا شروع کیا، جج صاحب نے کچھ تو لکھا اور پھر بڑے غصّہ سے کہا کہ اس جواب کا کوئی فائدہ نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ تم اپنے قصور کا اقبال کرو اور عدالت سے مہربانی اور رحم کی اپیل کرکے معافی مانگو، میں یہ مخالفانہ تعلیم کا سبق سن کر چپ ہو رہا اور کہا کہ میں فقط انصاف چاہتا ہوں، جس کی آپ سے کوئی امید نظر نہیں آتی۔ میں نے اپنی بریت کے لیے دس بارہ گواہ بلانے چاہے، لیکن اس کی بھی اجازت نہ ملی، بلکہ ۲ مئی سنہ ۱۸۶۴ء کو جب عدالت کا آخری فیصلہ سنایا جانا تھا، اپنے گواہوں کو خود حاضر کرادیا، لیکن انھیں بھی اظہار خیال کا موقع نہ دیا گیا۔
محمد شفیع اور اکثر دوسرے مدعا علیھم کی طرف سے بھی بہت سے گواہ پیش ہوئے، لیکن بے سود؛ بلکہ محمد شفیع کی طرف سے تو حکومت کی خیر خواہی و خیر سگالی اور عمدہ کارگزاری کے ایک سو سے زیادہ سرٹیفیکٹ پیش ہوئے، لیکن اس متعصب جج نے ان سرٹیفکیٹوں کے متعلق یہ لکھا کہ ان کا ایک ایک فقرہ محمد شفیع کے مجرم اور سزائے سخت کے مستحق ہونے پر ایک دلیل ساطع اور برہان قاطع ہے۔