جب ہم پہلے دن مجسٹریٹی میں حاضر کیے گئے تو میرا بھائی بھی پولیس کے زیر حراست گواہوں میں سے تھا، اس نے ایک سپاہی کے ذریعہ مجھے یہ اطلاع دی کہ پولیس نے مار پیٹ کر مجھے تمھارے خلاف گواہ بنایا ہے، لہذا اب جس وقت بر سر اجلاس بیان ہوںگے تو میں اپنے اس بیان سے پھر جاوَں گا، جسے مار پیٹ کی وجہ سے لکھوایا ہے، میں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میری آزادی اور قید خدا کے ہاتھ میں ہے تمھاری گواہی پر موقوف نہیں، اگر تم نے حلفیہ بیان دیا ہے تو پھر جانے کی صورت میں بجرم دروغ حلفی تمھیں سخت سزا ہوگی، میں تو پہلے سے پھنسا ہوا ہوں، تمھارے پھنس جانے کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ ضعیف والدہ صاحبہ شاید صدمہ کی تاب نہ لا سکیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ جو بیان تم نے پہلے لکھایا ہے، اسی پر قائم رہو، لیکن بایں ہمہ جب اس کا میرے سامنے بیان ہونے لگا تو وہ پہلے بیان سے منحرف ہو گیا، بر سر اجلاس اس کا انکار سن کر صاحب لوگ پہلے تو بڑے بر افروختہ ہوئے اور پھر اس کی صغر سنی کی وجہ سے اسے کوئی سزا نہ دے سکے، اور اس کا نام گواہوں کی فہرست سے نکال دیا۔
گواہوں کی کثرت کی وجہ سے یہ مقدمہ ایک ہفتہ تک مجسٹریٹ کی کچہری میں پیش ہوتا رہا، صاحب لوگوں کا تعصّب ہم سے اس حد تک تھا کہ جب مقدمہ کی پیشی کے وقت ہم نے یہ درخواست کی کہ ہماری نماز کا وقت آگیا ہے، لہذا ہم کو نماز پڑھنے کی اجازت بخشی جائے لیکن انہوں نے ہمیں یہ اجازت نہ دی، مگر وہ ہمارا کیا کر سکتے تھے ہم نے عین دوران مقدمہ میں تیمّم کرکے بیٹھے ہوئے اشاروں سے نماز پڑھ لی۔