پولیس کے ان بے گناہوں پر مظالم، تشدد اور زد و کوب کا اندازہ اس سے لگائیے کہ عباس نامی ایک لڑکا جس نے مدت تک میرے گھر میں رہ کر پرورش پائی تھی، جب مجھے دیکھ کر محبت کے مارے مجسٹریٹ کے پاس جھوٹا اور آموختہ بیان دینے سے ہچکچایا تو اسی روز رات کو اس بچے کو ایسی سخت سزا دی گئی کہ وہ تاب نہ لاتے ہوئے قبل از پیشی مقدمہ سیشن ہی دم توڑ گیا، مگر بدنامی کے ڈر سے بچنے کے لیے پارسن نے یہ مشہور کردیا تھا کہ اس کی وفات کسی مرض کی وجہ سے ہوئی ہے۔