دسمبر سے اپریل تک دار و گیر کا یہ سلسلہ جاری رہا، اور اپریل میں یہ مقدمہ ضلع انبالہ کے مجسٹریٹ کے پاس پیش ہوا، ہم سب لوگوں کو پھانسی گھروں سے نکال کر کچہری میں لے جایا گیا، کچہری میں جا کر معلوم ہوا کہ پھانسی کی دھمکی دے کر میرے بھائی محمد سعید کو میرے اوپر اور محمد شفیع کے حقیقی بھائی محمد رفیع کو اس پر گواہ بنا لیا گیا ہے، نیز پچاس ساٹھ دیگر آدمیوں کو بھی زبردستی گواہ بنا لیا گیا ہے، ان بے چاروں کی عجب حالت تھی، ایک طرف گواہی دے رہے تھے اور دوسری طرف ہماری جانب دیکھ کر زار زار رو رہے تھے، یہ بے بس اور مجبور محض تھے ؛ کیونکہ اگر گواہ نہ بنتے تو تختۂ دار پر لٹکا دیے جاتے، ادائے شہادت تک ان بے گناہوں کو قیدیوں کی طرح پولیس کے زیر حراست رکھا گیا، لباس اور خوراک کا انتظام سرکاری تھا، جس کی وجہ سے ان بے جا کارروائیوں پر حکومت کا لاکھوں روپیہ صرف ہو گیا۔