خود غرض لوگوں نے ہماری بہادر اور دانا سرکار کے دل پر، ان سو دو سو فقیروں کا ڈراور رعب اس قدر جمایا اور اس میں ایسا مبالغہ کیا کہ گویا انگریزی سلطنت کا قلع قمع کرنے والے ہمیں لوگ ہیں اور اس کا اثر جس قدر ہماری فاتح قوم پر ہوا ہے، وہ ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب “Our Indian Muslims” کے دیکھنے سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ اس میں کیسے رسی کا سانپ اور رائی کا پہاڑ بنایا گیا ہے اور کن کن لایعنی دلائل سے فاتح اور مفتوح قوم کے درمیان عداوت ثابت کی گئی ہے اور پھر طرّہ یہ کہ علی العموم ہندوستان کے تمام مسلمانوں پر حملہ کیا گیا ہے حالانکہ اس تحریر کے بعد بڑے بڑے موقعوں پر خیر خواہی وخیر سگالی کے جذبات پیدا ہوئے لہذا فاتح اور مفتوح کے دلوں کو بگاڑنے والی یہ کتاب ہرگز قابل اعتبار نہیں ہے۔
جب یہ کتاب چھپ کر آئی، اسی وقت مولوی سید احمد صاحب بہادر سی۔ایس۔آئی نے بڑے دلائل سے اس خیالی پلاؤ ڈاکٹر کی تردید کرکے اس کی دھجیاں اڑا دیں اور ہر دعوی کو اصول ہی سے غلط ثابت کردکھایا لیکن وہابیوں کو اپنا جانی دشمن سمجھنے والے انگریزوں پر ابھی تک اس کتاب کا جادوانہ اثر باقی ہے۔ اگرچہ افغانوں نے پنجاب میں عملداری کے ابتدا ہی میں صدہا بڑے بڑے معزز انگریزوں، میم اور بچوں حتی کہ گورنر جنرل تک کو مار ڈالا۔ اب بھی جہاں موقع پاتے ہیں اپنی وحشیانہ حرکت سے باز نہیں آتے، ان کے مولویوں نے بھی فتوی دے رکھا ہے کہ انگریزوں کا مارنا بڑا ثواب ہے لیکن اس کے باوجود انگریز افغانوں کو اپنا اس قدر دشمن نہیں سمجھتے، جتنا کہ وہابیوں کو، ڈاکٹر ہنٹر کے پیھلائے ہوئے تعصّب کے باعث انہوں نے اپنا دشمن فرض کر رکھا ہے حالانکہ وہابیوں سے کسی انگریز کا قتل تو کجا، کبھی خلاف تہذیب بات بھی سرزد نہیں ہوئی۔
سنہ 1857 ء میں جب کہ بغاوت اپنے عروج پر تھی، وہابیوں نے انگریزوں کی میم اور بچّوں کی حفاظت کی، انھیں اپنے گھر میں چھپایا اور باغیوں سے محفوظ رکھا مگر ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب کی وجہ سے دونوں قوموں کے درمیان تعصّب، نفرت اور دشمنی بہت بڑھ گئی ہے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان گزشتہ پچیس برس کے تجربوں اور وہابیوں کی خیرخواہی نے ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی دروغ گوئی کو طشت از بام کردیا ہے، چنانچہ گورنمنٹ ہند کے حکم سے سرکاری تحریرات میں ان کے لیے وہابی کے لفظ کا استعمال یک قلم بند ہوگیا ہے اور آئندہ سے یہ لوگ اپنے پرانے نام محمدی یا اہل حدیث سے پکارے جائیں گے۔ گورنمنٹ کا یہ ایک مستحسن اقدام ہے، اس وجہ سے اگر کبھی موقع آپڑے تو سرکار پر اپنی جان نچھاور کرنے سے بھی یہ لوگ دریغ نہ کریں۔