ہم نے دیکھا ہے کہ اس مقدمہ میں بڑے بڑے صاحب لوگوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے آئین اور قانون کو طاق نسیان کردیا، مثلا ایشری پرشاد وغیرہ نے اپنے فائدے کے لیے اس مقدمہ کو رسی سے سانپ اور رائی سے پہاڑ بنا دیا، اور ہمیں نپولین یا مہدی سوڈانی جیسا انگریزوں کا دشمن ثابت کرکے اپنا مطلب نکالنا چاہا؛ چنانچہ اسے کامیابی ہوئی اور وہ ایک ادنی عہدے سے ڈپٹی کلکٹر ہو گیا، نیز دھوکہ دے کر سرکار سے بڑی بڑی زمینداری اور جاگیر بھی حاصل کر لی، اسی طرح غزن خان نے اپنے بیٹے کے قافلے کے بھیجنے کا ایک جھوٹا اور فرضی قصہ گھڑ کر حکومت سے ایک دو گاؤں جاگیر لے لیے۔
۱۸۶۳ء کے اخیر سے لے کر دس برس تک ہندوستان کے مسلمانوں پر قیامت برپا رہی، مسلمان خوف کے مارے گھر بار چھوڑ کر عرب ممالک میں ہجرت پر مجبور ہو گئے، خود غرضوں خوشامدیوں اور ہمارے دشمنوں نے دل کھول کر ارمان پورے کیے، دس برس تک اخباروں میں یہی قصہ موضوع سخن بنا رہا، برسوں تک اس دار و گیر کے لیے ایک باقاعدہ محکمہ موجود رہا، جس کا کام ہی یہ تھا کہ جس کو چاہا پکڑ لیا، جو چاہا رشوت لے لی اور جس نے رشوت دینے سے انکار کردیا، اپنے معمولی گواہوں سے گواہی دلا کر اسے عمر قید کردیا۔