دوسرے دن ہمیں دہلی سے کرنال اور کرنال سے انبالہ لے گئے، جب انبالہ پہنچے تو رات بھیگ چکی تھی، ہمیں بے آب و دانہ تین علاحدہ علاحدہ پھانسی گھروں میں بند کردیا گیا، چنانچہ ہم اپریل کے شروع تک یہیں بند رہے۔
دوسرے دن فجر کے وقت سپرنٹنڈنٹ پارسن، میجر بام فیلڈ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس اور کپتان ٹائی ڈپٹی کمشنر انبالہ یاجوج ماجوج کی طرح میری کوٹھڑی میں آئے اور مجھ سے کہا کہ تم “اس مقدمہ کا سب حال بتا دو، تو یہ تمھارے لیے بہتر ہوگا” میں نے کہا کہ “میں کچھ نہیں جانتا” پارسن نے پہلے تو مجھے بہت ڈرایا دھمکایا اور پھر مارنا شروع کیا، جب مار انتہا کو پہنچ گئی تو میں گر پڑا، ٹائی صاحب اور جام فیلڈ کوٹھڑی سے باہر کھڑے ہوگئے، جب اس قدر تشدد پر بھی میں نے کچھ نہ بتایا تو وہ سب اس دن مایوس ہو کر چلے گئے، جب میں نے ظلم و تعدی کی یہ کیفیت دیکھی تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ لوگ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے، میرے ذمہ رمضان المبارک کے کچھ روزے باقی تھے، دوسرے دن سے میں نے ان کی قضا رکھنی شروع کردی۔
دوسرے دن میں روزے سے تھا، علی الصبح پارسن صاحب آیا اور وہی کار روائی شروع کردی، تھوڑی زد و کوب کے بعد مجھے اپنی بگھی میں بٹھا کر ڈپٹی کمشنر ٹائی صاحب کے بنگلے پر لے گیا، جہاں ٹائی اور بام فیلڈ دونوں موجود تھے، انہوں نے بڑی چاپلوسی کی اور کہا کہ ہم تحریری عہد کرتے ہیں کہ اگر تم دوسرے شرکا اور معاونین جہاد کے نام بتادو تو تمھیں سرکاری گواہ بنا کر رہا کردیں گے اور ایک بڑے عہدے پر بھی فائز کر دیں گے بصورت دیگر تمھیں پھانسی کی سزا دی جائے گی، میں نے اس چاپلوسی پر بھی انکار کردیا۔
پھر پارسن صاحب ان دونوں سے انگریزی میں کچھ باتیں کرکے مجھے ایک الگ کمرے میں لے گیا، اور وہیں پھر مارنا شروع کیا، میں کہاں تک لکھوں آٹھ بجے فجر سے آٹھ بجے رات تک مجھ پر اس قدر مار پیٹ ہوئی کہ شاید کسی پر ہوئی ہو، لیکن بفضل الٰہی میں نے سب کچھ برداشت کر لیا اور ہر دم اپنے رب سے دعا کی “اے رب ذو الجلال، یہ امتحان کا وقت ہے تو مجھے ثابت قدم رہنے کی توفیق عنایت فرما”۔ جب وہ ہر طرح مایوس ہو گئے تو لاچا ر ہو کر انہوں نے آٹھ بجے رات مجھے واپس جیل خانہ میں بھیج دیا۔
میں تمام دن روزے سے تھا، بنگلے سے باہر نکل کر درخت کے پتوں سے روزہ افطار کر لیا، جیل میں پہنچ کر جو میرے حصے کا کھانا رکھا ہوا تھا کھایا اور شکر الٰہی بجا کے سو گیا۔
جس دن ٹائی صاحب کے بنگلہ پر مار پیٹ کی لذت اٹھا رہا تھا، اس وقت منشی حمید علی صاحب تھان پوری تحصیلدار نرائن گڑھ اپنے عہدے سے معطل ہوکر باہر برآمدہ میں غمگین بیٹھا تھا، اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے چند برس پہلے، اپنے کسی دنیوی معاملہ میں مجھے ایک خط لکھا تھا اور کچہری کے بعض عملہ نے اس سے دشمنی کی بناء پر اس کے معنی غلط بیان کر دیے تھے، میں اس کا غمگین چہرہ دیکھ کر اپنی تکلیف بھول گیا اور دل میں خیال آیا کہ مجھ منحوس اور نالائق کو ایک خط لکھنے کی وجہ سے یہ بیچارہ بے گناہ پکڑا گیا، اگر اس کے بجاے مجھے ہی سزا ہو جائے اور یہ رہا ہو جائے تو یہ بہت بہتر ہے، میں اپنی حالت زار کے باوجود اس کے لیے بہت دعائیں کرتا رہا، آخر کار اللہ تعالی کے فضل سے وہ ناکردہ گناہ بری ہو کر اپنے عہدے پر بحال ہو گیا اور اب تک پنجاب میں اول درجہ کا عہدے دار ہے، اس دن کے بعد پھر کبھی مجھے سرکاری گواہ بننے کی ترغیب نہیں دی گئی۔
جب میری طرف سے قطعی مایوسی ہو گئی تو محمد رفیع اور مولوی محمد تقی کو مخبر بنا کر رہا کر دیا گیا، انھیں کے بیان سے بیچارہ محمد شفیع لاہور سے پکڑا گیاتھا، جس کا اس مقدمہ سے بہت ہی تھوڑا تعلق تھا، پھر ان ہی کی رہبری میں پارسن پٹنہ گیا تھا، جہاں ایشری پرشاد ملازم پولس اور مسٹر ٹیلر سابق کمشنر پٹنہ جسے ۱۸۵۷ء میں مولانا احمد اللہ صاحب وغیرہ موحدوں کو بے قصور نظر بند کرنے کے قصور میں برخاست کر دیا گیا تھا، اس کے مددگار ہو گئے، ان کی غیبت سے اس نے مولانا یحیی علی صاحب، مولانا عبد الرحیم صاحب، الٰہی بخش اور میاں عبد الغفور کو گرفتار کرکے انبالہ بھیج دیا۔
پھر پارسن بنگال گیا، جہاں اس نے جا بجا بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا، ان میں سے اکثر تو لاکھوں ہزاروں روپیہ خرچ کرکے رہا ہو گئے، اور بہت سے لوگوں کو پھانسی دینے کی دھمکیاں دے کر گواہ بنا لیا گیا، صرف ایک قاضی میاں جان ساکن کارکھلی ثابت قدم رہے، جو گرفتار ہو کر انبالہ آئے ، بصیر الدین علاوَ الدین سودا گران دہلی اور دوسرے بہت سے لوگ دہلی سے بھی گرفتار ہو کر آئے، پشاور سے بنگال کے مشرقی و شمالی کنارے تک شاید کوئی مالدار مسلمان، مولوی یا نمازی بچا ہو، جسے ایک دفعہ پولس نے پکڑ کر، اس کی طاقت کے مطابق اپنی مٹھی گرم نہ کر لی ہو، یہ ہنگامۂ دار و گیر دسمبر سے اپریل تک جاری رہا اور صدہا آدمیوں کو ڈرا، دھمکا اور سکھلا کر گواہ بنا لیا گیا۔
اس پارسن گردی کے زمانہ میں وہ بیچارہ حسینی تھانیسری بھی دہلی سے اشرفیاں لاتے ہوئے پکڑا گیا، اور کل اشرفیاں ضبط کراکے ہمارے ساتھ ہی بے قصور عمر قید ہوا۔