انڈمان سے واپسی کے بعد جب ہر دوست نے مجھ سے میری بیس سالہ قید، سفر اور ان جزائر کی کیفیت پوچھنی شروع کی تو میرے لیے ہر ایک کے سامنے بیس سالہ تاریخ کو بیان کرنا نہایت دشوار تھا، اس لیے میں نے اس مدت میں پیش آنے والے اہم واقعات کو نہایت اختصار کے ساتھ سپرد قلم کردیا ہے؛ تاکہ ہر سائل اور مستفسر کے سامنے اس کتاب کو پیش کردوں۔
جب اپریل ۱۸۷۹ء میں میں نے تاریخ پورٹ بلیر مسمی بہ “تاریخ عجیب” لکھی تھی، تو اس سے چند دن قبل گورنر جنرل ہند نے میری رہائی کی درخواست کو مسترد کردیا تھا، جس سے اکثر حکام بلکہ خاص و عام کو یقین ہو گیا کہ اب قید فرنگ سے مجھے کبھی نجات نہیں ملے گی، لیکن میں رحمت الٰہی سے ناامید نہیں ہوا تھا، اس لیے میں نے کتاب مذکور کے دیباچہ میں لکھ دیا تھا “دنیا بامید قائم ہے، دیکھیے پردۂ غیب سے اور کیا ظاہر ہوتا ہے” بلکہ دیباچہ کے اختتام پر ناظرین کرام کی خدمت میں التجا بھی کی گئی تھی کہ وہ میرے حق میں دعا کریں کہ ہماری سرکار اس خاکسار کو ان ننگ دھڑنگ جنگلیوں کی صحبت سے جدا کردے ؛ تاکہ اس کتاب کی جلد دوم ہندوستان آکر اپنی ملکی زبان میں ہدیۂ ناظرین کر سکوں۔
اس دل سوز تحریر کو ابھی چند روز ہوئے تھے کہ میری درخواست کے بغیر غیبی مدد سے میری رہائی کا سامان ہو گیا، اور لارڈ پن نے میری رہائی کا اعلان کردیا، میری پہلی کتاب “تاریخ عجیب”(۱۲۹۲ھ) کا نام بھی تاریخی ہے، اور اتفاق حسنہ کی بات ہے کہ صرف ایک حرف زیادہ کر دینے سے اس کتاب کا نام “تواریخ عجیب” بھی تاریخی ہو گیا اور اس طرح چھ برس کی زیادتی بھی پوری ہوگئی۔گویا یہ اس کتاب کی جلد دوم ہے، جس کا وطن واپس آکر لکھنے کا وعدہ تھا۔
ناظرین باوقار کی خدمت میں عرض ہے کہ میں نے اس کتاب کو روز مرہ کی بول چال میں لکھاہے اور جہاں تک مجھے یاد تھا دوسرے لوگوں کے مقولوں اور واقعات کو من و عن نقل کیا ہے، اس کے باوجود اگر تقاضاے بشریت کے مطابق مجھ سے کہیں کمی بیشی ہوئی ہو تو خداوند عالم الغیب مجھے معاف فرمادے اور نکتہ چین اصحاب اور اہل قلم جہاں کہیں غلطی دیکھیں اپنے قلم عفو سے اصلاح فرمادیں اور میرے حق میں دعا کریں کہ جیسے اس عظیم ہلاکت انگیز قید فرنگ سے نجات بخشی، ایسے ہی وہ رب کریم دلی مراد پوری کردے اور خاتمہ بالخیر کے ساتھ اس ہلاکت دنیا سے بھی نجات بخشے، آمین ثم آمین۔ وَمَا تَوْفِیقِي إِلَّا بِاللَّہ عَلَیه تَوَکّلْتُ وَإِلَیه أُنِیبُ
اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں :
أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یتْرَکوا أَنْ یقُولُوا آمَنَّا وَہمْ لَا یفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهمْ فَلَیعْلَمَنَّ اللَّہ الَّذِینَ صَدَقُوا وَلَیعْلَمَنَّ الْکاذِبِینَ.
کیا لوگ یہ خیال کیے ہوئے ہیں کہ (صرف) یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی، اور جو لوگ ان سے پہلے ہو چکے ہیں ہم نے ان کو بھی آزمایا تھا، {اور ان کو بھی آزمائیں گے} سو خدا ان کو ضرور معلوم کرے گا جو {اپنے ایمان میں} سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں۔
جہاں تک مجھے سمجھ اور علم ہے اس مقدمہ میں ہماری گرفتاری۔ اس آیت شریفہ میں بیان کردہ منشا ایزدی کے مطابق صرف سچے اور جھوٹوں کی پہچان اور آزمائش کے لیے تھی ورنہ وعدہ حق موجود ہے کہ “وَلَنْ یجْعَلَ اللَّہ لِلْکافِرِینَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا” اگر یہ ہماری آزمائش نہ ہوتی تو ہمیں کبھی بھی انگریزی سرکار سے صدمہ نہ پہنچتا ور بفحواے حدیث نبوی: “یبتلی الرجل علیٰ حسب دینه” آدمی کی دین و ایمان کی استعداد کے مطابق آزمائش ہوتی ہے۔
اس مقدمہ میں ایمان کے دعوی داروں کی آزمائش کی گئ اور ظاہر کیا گیا ہے کہ اپنے دعوی میں جھوٹے کون تھے اور سچے کون؟ یہ کتاب تواریخ عجیب المعروف بہ کالا پانی گویا اس آیت مذکورہ بالا کی تفسیر ہے۔
اس تمہید کے بعد اب اصل مقدمہ ابتدا سے انتہا تک بیان کرتا ہوں، اگر ناظرین کرام اس آیت مبارکہ اور حدیث شریفہ کے مضمون کو ذہن میں رکھیں گے تو ان پر واقعات کے اسرار و رموز خود بخود آشکارا ہوتے چلے جائیں گے، لیکن یاد رکھیے کہ ان کے سمجھنے کے لیے ایمان درکار ہے۔ میں خود اپنی کم ظرفی، بے استعدادی اور ضعیف الایمانی کے سبب اس مقدمہ کے ہزاروں مخفی اسرار کو سمجھ نہ سکا۔
محمد جعفر تھانیسری