گھر آکر بھی میں یہی سوچتی رہی آخر ایسا کیا کروں؟؟ اور صارم میری ہیلپ تب تک نہیں کریگا جب تک میں اسے کچھ کر کہ نا دکھاؤں پوری رات میری انہی سوچوں میں گزری صبح آفس پہنچتے ابھی سانس تک نا لی تھی کے سر کا بلاوا آگیا۔۔۔
” ٹھرکی کہیں کا “
میں نے دانت پیستے کہا بھلا یہ بھی کوئی نوکری ہے سب جانتے ہوے بھی مجبوری؟؟؟ اور یہ پہلی بار ہوا تھا کے میں مجبور ہوں اور میں چونکی بھی تھی مجبوری؟؟؟ بھلا کیسے؟؟؟
” کم رابیل میں نے سوچا دماغ لڑانے سے اچھا ہے تم ہی مجھے اس سوفٹ ویر کے بارے میں کچھ بتا دو ٹائم بچے گا میرا “ خباثت سے مسکراتے انہوں نے مجھ سے کہا ساتھ سارا انتظام بھی کر رکھا تھا اپنی چیر کے ساتھ ہی ایک اور چیر بھی لگا دی تاکے میں پاس بیٹھوں۔ میرا دل چاہا اسکے منہ پر تھوک کر اسکی جاب کو لات ماروں لیکن اس سے پہلے بس ایک دفع کچھ میرے ہاتھ لگے پھر اسکے سارے پر اپنے ان ہاتھوں سے کاٹوں گی۔۔۔
” او میں آتا ہوں ایک سیکنڈ “ وہ یکدم سے اٹھ کر واشروم میں چلے گئے اور میرے اندر کا اُبلتا لاوا اس صورت میں باہر آیا کے میں نے انکے اندر جاتے ہی باہر سے واشروم کی کنڈی لگا دی۔۔
” بیٹھا رہے اندر ٹھرکی کہیں کا “
یہاں سے وہاں چکر لگاتے اب میں مزے اور خوشی سے سوچ رہی تھی آخر ایسا کروں کیا؟؟ پھر میرا دھیان سر کے لیپ ٹاپ پر گیا میں لاپروائی سے آکر انکی چیر پر بیٹھ گئی جب میں آئ تھی تب لیپ ٹاپ کُھلا ہوا تھا اب پاسورڈ مانگ رہا تھا لیکن یہاں صارم کی سیکھائی کوئی ٹیکنیک یوز نہیں کرونگی اور ویسے بھی دو مہینے کیا پہلے ہی ہفتے انکا لیپ ٹاپ سے لیکر موبائل پاس ورڈ تک میں نے خود دیکھا تھا بیوقوف چلتے پھرتے اتنا ڈرتا ہے جیسے رازوں کا خزانہ ہے؟
” پلے اسٹور سے فضول ایپس تک ڈاون لوڈ کر کے واٹس ایپ پر کوئی پانچ سو کوڈ لگائے ہیں جاہل آدمی نے جتنی عقل ٹھرک پن میں لگائی ہے اتنا کام میں لگاتا تو آج امیر باپ کی بیٹی کا غلام نہیں شوہر ہوتا۔۔“
میں نے پاس ورڈ ٹائپ کر کے فولڈرز چیک کرنا شروع کیے واقعی وہ بیوقوفوں کا سردار تھا فولڈرز کے اندر فولڈرز بنے تھے ایک فولڈر کا نام تھا مائے فیوریٹ سونگ کلیکشن میں نے وہی فولڈر کھولا لیکن اندر سونگز کیا؟؟؟؟ خزانہ تھا میں ایک ایک پیپر غور سے دیکھتی گئی۔۔
” یہ دروازے کو کیا ہوا کھولو اسے “
باس کی جھنجھلاتی آواز میری سماعتوں میں گونجی۔۔
” اہ مائے گوڈ!!! سر آپ اندر لاک ہوگے؟؟ روکیں میں دیکھتی ہوں “ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے زور سے کہا اور اب دیکھنے کے بجائے آرام سے سارے پیپرز اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرنے لگی۔۔
” ارے لات مار کر کھولو میں بےزار ہو رہا ہوں “ دبی دبی آواز میں وہ چیخے ابھی بھی ٹرانسفر ہونے میں پینتیس پرسنٹ تھے میں اٹھ کر دروازے کے پاس آکھڑی ہوئی۔۔۔
” سر میرے جسم میں گوشت ہی کہاں ہے ہڈیاں ہیں صرف اور آگر لات ماری تو ان ہڈیوں سے بھی جان جائے گی “ میں نے بےچارگی سے کہا جیسے یہ دنیا کا مشکل ترین کام ہو۔۔۔
” کوشش کرو پلیز زور سے کھنچو دروازے کو “ انکے کہے پر عمل کر کے میں نے دروازے کو اپنی طرف کھنچا آخر انہوں نے ڈائیریکشن تھوڑی بتائی تھی۔۔
” وہی کر رہی ہوں سر۔۔ بلکے ایک کام کرتی ہوں سب کو بلاتی۔۔۔۔ “ میرا کہنا تھا کے وہ باقاعدہ چیخ اٹھے۔۔
” نہیں نہیں باہر مت جانا سب ہنسیں گئے مجھ پر اس سے اچھا ہے واشروم میں ہی بند رہوں “ میرے ہونٹوں پر رینگتی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوئی پیپرز ٹرانفسر ہوچکے تھے میں نے تھوڑی صفائی (ہسٹری) کے بعد لیپ ٹاپ ویسے ہی اسی فائل پر کھلا چھوڑ دیا جس پر سر کچھ کھول کے گئے تھے اب بھی سر زور زور سے چلا رہے تھے لیکن میں نے اپنا کام آرام سے کیا آخر جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔۔ پھر بلاآخر میں نے اٹھ کر باہر سے دروازے کی کنڈی کھولی اور سر کی ایسی حالت تھی کے باہر آتے ہی گہرے سانس لینے لگے پوری شرٹ پسینے سے بھیگی ہوئی تھی۔۔۔۔
” تم باہر جاؤ آدھے گھنٹے بعد آنا تب ڈسکشن کریں گئے “
سر نے بےزار کُن لہجے میں کہا اس وقت وہ اے سی کے آگے کھڑے بھیگی شرٹ سُکھا رہے تھے۔۔۔
” سر وہ مجھے ابھی کزن کا میسج آیا کے میری بہن سیڑھیوں سے گر گئی ہے مجھے ارجنٹ جانا ہوگا “ میں نے جلدی سے موبائل ہاتھ میں تھامے کہا انکی پیٹھ میری طرف تھی اسلئے مجھے دیکھ نہیں پائے وہ۔۔
لیکن میری توقع کے مطابق انہوں نے اجازت دے دی۔
ٹھرکی انسان کا دور سے ہی پتا لگتا نا انہوں نے نوٹس کیا کمپیوٹر کھلا تھا اور نا ہی انہوں نے میرے لفظوں پر غور کیا میری کوئی بہن نہیں وہ جانتے تھے اوپر سے عقل مندی سونگز میں فائلز سیو کی سب سے پہلے انسان وہیں تو جاتا کے اگلے بندے کا پتا لگے کیسا ہے؟؟ میوزک سے بھی انسان کی نیچر کا پتا لگایا جا سکتا ہے کے بریک اپ سونگز والا بندہ ہے یا پیچ اپ خیر فس سے نکلتے ہی میں واپسی پر صارم کے یہاں چلی آئی اور سارا واقع سنایا۔۔۔
” واللہ لڑکی تم سدھرو گی نہیں یہی امید تھی مجھے تم سے مجھ جیسا انسان بھی ایسا کام کرنے سے پہلے سوچتا یا ڈرتا ضرور ہے اور تم دنیا جہاں کی فکر نہیں۔۔۔ بس ایڈونچر ہو “ صارم ایک ایک ڈاکومینٹس کو دیکھ کر مسکراتا رہا ہمیشہ کی طرح وہ اس وقت بھی لیپ ٹاپ سامنے کھولے ہوے تھا۔۔
” تو کیا یہ تھا جو کل تم مجھ سے کہہ رہے تھے؟؟؟ “ میں نے اسکی ” ڈر “ والی بات سے اندازہ لگایا بلکل یہی ایک چیز بابا بھی تو کہتے تھے کے تم ڈرتی نہیں اسی بات سے مجھے ڈر لگتا ہے کہیں پھنس نا جاؤ۔۔۔
” بلکل رابی تمہاری یہ بات مجھے تم میں خاص لگتی ہے تم ڈرتی نہیں اور ڈرنا بھی نہیں چاہیے ڈرو صرف اللہ سے اُسکی مخلوق سے نہیں کیوں کے وہ کچھ نہیں کر سکتی کچھ بھی نہیں۔۔۔ “ صارم نے اب کے رخ میری طرف کرکے سنجیدگی سے کہا اور میں یہ سوچ رہی تھی وہ مجھے مجھ سے زیادہ جانتا ہے آخر رضائی بھائی ہے نا۔ اب وہ پھر سے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا اور ان سب فائلز کو وہ کسی اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر رہا تھا جسے میں جانتی تک نا تھی۔۔
” یہ کیا کر رہے ہو “ میں نے اسے وہیں سے ٹوکا
” یہ سب میرے اکاؤنٹ میں سیو کر رہا ہوں “ اسکی بات سن کر بےاختیار میں نے ایک گہرا سانس خارج کیا وہ جان کا بازی گر تھا ان خطروں سے کھیلتا جس سے لوگ خوف کھاتے ہیں۔۔
” صارم تمہیں موت سے ڈر نہیں لگتا تم کبھی سوچتے نہیں آگر پکڑے گئے تو؟؟؟ مجھے بےشک انسانوں سے ڈر نہیں لگتا لیکن مرنے سے لگتا ہے “ میں نے کچھ سہم کر کہا صارم نے قہقہ لگایا یہ پہلی بار شاید ہوا تھا کے میں ڈری تھی۔۔
” مجھے شہید ہونے سے ڈر نہیں لگتا رابی بلکہ یہ خوشی کہ وہ حد ہے جسکا کوئی تصور بھی نہیں “ اسکی بات سن کر میری زبان کو چپی لگ گئی وہ کہہ رہا تھا۔۔
” یہ میرا جنون ہے رابی میری زندگی ہے میری عمر بھر کی کمائی۔۔۔۔ ایک جنون ہے پاک آرمی میں جانے کا، ایک جذبہ ہے جو میرے اندر سے نکل نکل کر آتا جب میں انہیں ملک کے لئے لڑتے دیکھتا ہوں۔۔۔ اس ملک کے لئے دن رات ایک کرتے دیکھتا ہوں یہ صرف محبت کے قابل ہیں رابی جو اپنوں سے دور بیوی بچے اولاد ماں باپ سب سے دور وہاں جان کی بازی کھیلتے ہیں۔۔ انکی ٹریننگ دیکھو تو ہوش اڑھ جائیں تمہارے۔۔۔ پتا ہے جب انہیں دھمکی دیتے ہیں نا کے میں تمہارے ملک کی ان چھ جگہوں کو ٹارگٹ کرونگا تو پتا ہے یہاں سے جواب کیا جاتا ہے؟؟؟ تم چھ کروگے ہم سترہ کریں گئے۔۔ کبھی انہے دیکھو کبھی انہیں جانوں رابی کتنی اسٹرونگ ہے ہماری آرمی۔۔ یہ ہم سے اپنی خوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں کبھی انہیں ڈانس کرتے دیکھا ہے؟؟؟؟ “ میں جو غور سے اسے سن رہی تھی چونک اٹھی صارم کی آنکھیں نم تھیں لیکن وہ مسکرا رہا تھا نجانے کیوں اسنے یہ سوال پوچھا؟؟؟
” نہیں “ میں نے جواب دیا۔۔
” خوشی کا اظہار کرتے ہیں لیکن رات کو موت سے ملکر آئے تھے یہ نہیں بتائیں گئے۔۔۔ میں نے بہت کوشش کی رابی بہت۔۔ لیکن میری قسمت وہاں نہیں تھی بہت بہت بہت محبت ہے مجھے آرمی سے، اس پاک نام پاکستان سے، اس مٹی سے اس ملک سے، میرے نبی کی اس اُمت سے، جو سجدوں میں روتے تھے۔۔۔ “ میں اسے غور سے دیکھ رہی تھی آخر جملے پر ان آنکھوں میں تیرتی نمی گالوں پر پھسل آئی۔۔۔
” یہ پوسٹ میں نے فیس بک پر پڑھی تھی رابی۔۔“
صارم نے اپنا فون جیب سے نکال کر ایک پوسٹ نکالی اور میری آنکھوں کے سامنے لہرائی۔۔
Who is Muhammad (P.B.U.H)...?? The Man who used to Cry in Sujood just for the sake of his Ummah.۔۔۔۔
جب اسے پڑھتا ہوں نا نجانے کیوں میرا دل پھوٹ پھوٹ کے روتا ہے۔ میں کون ہوں؟؟ کون تھا؟؟کوئی نہیں وہ میرے لئے رابی ہمارے لئے روتے تھے ایک ایک شخص کے لئے اپنی اُمت کے لئے اتنا بڑا مقام حاصل ہے ہمیں ابن آدم کی اولاد۔۔۔۔ میں سوچتا تھا جب بڑے ہونگے خود ماں باپ بنیں گئے وہ پیار کرنے والی ماں وہ پیار کرنے والا باپ نہیں ہوگا لیکن ایسا نہیں رابی یہ جو مقام یہ جو دعا حاصل ہے نا قبر تک ہمارے ساتھ ہے ہم بہت خوش قسمت ہیں رابی کے ہم مسّلم ہیں۔۔ اللہ کا کرم ہے رابی “۔میں غور سے اسے دیکھ رہی تھی وہ کہتے کہتے رُکا تھا اسکی آنکھیں لال تھیں ہونٹوں پر مسکراہٹ جیسے کچھ سوچ رہا ہو لفظ تراش رہا ہو پھر بول کر وہ روکا تھا ہونٹ سختی سے بھنچ لئے۔۔۔
” کوئی ایک شخص رابی کوئی ایک شخص اکیلا نہیں ہم امت ہیں ہم نبی کی اولاد ہیں آدم کی ہم ابن آدم ہیں لیکن انکی طرح رحم دل نہیں کیوں؟؟؟ اتنے بےحس ہیں کون کون ہمیں بچائے رابی پاک آرمی دن رات ان لوگوں کے لئے لڑتی ملک کے لئے لڑتی، ہمارے نبی راتوں کو صرف ہمارے لئے روتے تھے کیا لائق ہیں اتنی محبتوں کے؟؟ اللہ آج بھی پاس بلاتا ہے بس توبہ کرلے لیکن یہ بےحس لوگ اسی کی قوم کے ساتھ کھیلتے ہیں سترہ سال کا تھا میں جب پہلی دفع میں نے بھیانک چہرے دیکھے ایک انسان جسے ملیریا ہوا تھا ریکوری کی طرف تھا اسے ان گھٹیا لوگوں نے ڈیڈ (dead)قرار دے کر اس کے جسم سے کڈنی نکال کر اُن امیروں کو بیچ دی؟؟؟ اُسکا بیٹا جیتے جی مر گیا چار بیٹیاں یتیم ہوگئیں۔۔ یہی نہیں۔۔ ہر جگہ پیسوں سے سیٹ لیکر اپنی خوائش کو پورا کرنے کے لئے اپنی اولاد کو ڈاکٹر بناتے ہیں لیکن وہ کیا کرتا؟؟ مریض کی جان لیکر ملک سے بھاگ جاتا؟؟؟؟ ارے اس سے اچھا فیل ہو انسانی جان تو نا لو اور کمینے انسان جب تیرے بس میں ہے ہی نہیں تو تو نے کیس لیا ہی کیوں؟؟؟ ٹرائل زندہ انسانوں کے جسم کے ساتھ کرتے ہیں یا مردہ؟؟؟ ایک بار سوچا تو نے وہ ماں باپ کا اکلوتا جوان بیٹا تھا ابھی ایک دو سال کا معصوم بچا تھا اُسکا تو نے اپنے ٹرائل کے چکر میں ایک ہنستا کھیلتا گھر برباد کردیا۔۔۔یہی نہیں اپنے ہی ملک کے معصوم بچوں کو ڈرگس دیتے ہیں، گندگی کا عادی بناتے ہیں معصوم بچوں سے بھیک منگواتے ہیں، بچوں لڑکیوں کو اغوا کرتے۔۔ انہیں ساتھ لے جاکر۔۔۔ اور یہ یہیں نہیں ہر ملک میں یہ ہو رہا ایسے حیوان ہر کہیں ہیں۔۔۔ “ وہ یکدم چپ ہوا اسکا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ اب کے اسی آواز میں چٹانوں سی سختی تھی۔۔
” میرا دل چاہتا ہے گریبان پکڑ کے پوچھوں اس ایک ایک کتے سے اپنی بہن کو بھیج نا؟؟؟ تجھے کیا حق ہے ایک ماں کی گود اجاڑنے کا؟؟ کمینے تو ہے ہی کون اسے بھیچنے والا تجھ جیسے کتے کی اس قوم کو ضرورت ہی نہیں زندہ دفنائوں تو وہ بھی کم ہے۔۔۔ “
” صا۔۔ “ میں نے بولنا چاہا وہ سر سیٹ کی پشت سے لگاے زندگی سے ہارا ہوا لگ رہا تھا۔ میرے بولنے سے پہلے ہی وہ کہ اٹھا۔۔
” رابی انہیں خوف نہیں آتا ماں کی بددعا سے؟؟کیسے اتنے ظالم لوگ ہیں اس دنیا میں؟ دل کیوں نہیں پھٹتا انکا جب اللہ نے ہر انسان کو آزاد بنایا ہے، اسے زندگی دی ہے، دنیا دی ہے، یہ جسم دیا ہے جو اللہ کی امانت ہے پھر اس میں وہ کون ہوتے ہیں خیانت کرنے والے آخر یہ کمینے ہیں کون؟؟؟ کس نے حق دیا انہیں؟؟ ایسے کتے زندہ ہی کیوں ہیں بلکے انکا جسم نوچ نوچ کر کتوں کے آگے ڈالنا چاہیے تاکے ہڈیاں بھی نا بچیں۔۔۔ اور میں کرونگا مرتے دم تک کرونگا چاہے میری جان جائے یا ساری زندگی جیل میں سڑوں لیکن ان کتوں کو غریبوں سے کھیلنے نہیں دونگا اس ملک میں ان جیسی گندگی کی کسی کو ضرورت نہیں انہیں صاف کرنا ہی میرا مقصدے زندگی ہے “ اب کے وہ ریلکس انداز میں سیدھا ہوکر بیٹھ گیا میں ایک ایک لفظ غور سے سن رہی تھی اور انہی میں میرے الفاظ بھی تو تھے لیکن باہر نہیں وہ تو ملک کے لئے بہت کچھ کرتا لیکن میں کیا کرتی؟؟ اسے خود تک محدود؟؟؟ اُس دن پہلی بار میں نے یہ سوچا تھا احساس مجھ میں بھی ہے لیکن کیا فائدہ جب اندر دبا ہو لوگوں کو دکھے ہی نا؟؟
” کل تمہارا آخری دن ہوگا آفس میں “ میں نے چونک کر صارم کو دیکھا جو ڈھٹائی سے شیطانی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے بیٹھا تھا۔۔۔
” وہ کیسے؟؟ “ میں حیران تھی بےحد حیران سب اتنا آسان نہیں تھا آگر چھوڑتی تو کنٹریکٹ کے مطابق پےمنٹ دینی ہوتی اور وہ میں صارم سے نہیں مانگ سکتی کبھی نہیں نا بابا کو پریشان کر سکتی۔۔۔
” باس کس ٹائم تمہیں اکثر کیبن میں بلاتے ہیں؟؟ “
” دس بجے تک۔۔ “ میں نے اندازہ لگایا عموماً یہی ٹائم ہوتا ہے۔۔
” اوکے یعنی کل تمہارے لئے جلدی اٹھنا ہوگا چلو بہن کے لئے یہ قربانی بھی منظور ہے “ وہ سیٹ سے اٹھ کر ٹیبل کے قریب رکھی چیر پر آبیٹھا کیوں کے خالا نے ملازم کے ہاتھ چائے اور اسنیکس بھیجوائے تھے۔۔۔
” لیکن میں کیا کرونگی “ میں اسکے سامنے آکر بیٹھ گئی اور بیٹھتے ہی چائے پر حملہ کیا۔۔
” تمہیں ایڈونچر پسند ہے نا سمجھو تمہارے لئے ایڈ ونچر ہے اور تم تو اچھا خاصا اپنا حساب بھی لے سکتیں “ وہ مجھے غور سے دیکھتے کہہ رہا تھا اور آج پھر میں الجھ گئی لیکن خوشی بھی تھی کل آخری دن پھر آزادی اور اب جاب کرنی بھی نہیں تھی فضول شوق تھا جو اب پورا ہو چکا تھا۔۔۔۔۔
” رابی سر بلا رہے ہیں “ میں صبح آفس پہنچی تو میرا موڈ کافی اچھا تھا میں اس ایڈونچر کا سوچ کر ہی ایکسائٹڈ تھی ۔۔۔آگر غلط بھی ہو گیا تو کیا ہونا؟؟؟ زندگی تو ہے نا جاب ہی جانی ہے تو چلی جائے اور اچھا ہی ہے جائے۔ میں لنچ کر رہی تھی کے موسن نے مجھے سر کا میسج دیا۔۔۔
” انھیں بولو میں ٹینڈے کھا رہی ہوں امی نے پیار سے بنائے ہیں کھا کر ہی آؤنگی “ موسن میرا ٹکا سا جواب سن کر ہنس پڑا وہ انہی میں سے تھا جس نے آفس سے میری معلومات نکلوا کر میرے گھر رشتہ بھیجا اور بابا نے صاف کہہ دیا میری بیٹی شادی شدہ ہے تب سے میرے ساتھ اسکا فرینڈلی نیچر تھوڑا سنجیدہ ہوگیا اور اب بھی وہ میسج پہنچا کر جا چکا تھا اور میں مزے سے ٹینڈے کھا کر اٹھی آخر میں باکس میں مجھے ٹنڈے کا بیچ نظر آیا تو اسے کھانے کے لئے ایک بار پھر بیٹھ گئی (کھانا بیٹھ کر کھانا چاہیے ) اور کھاتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی اس وقت دن کا ایک بج رہا تھا آج سر نے مجھے کافی لیٹ بلایا میں نے اٹھتے ساتھ صارم کو میسج کیا اندر جا رہی ہوں کہیں ایسا نا ہو ایڈونچر کے چکر میں اپنی ہی عزت افزائی کرواؤں۔۔۔
” آئو رابی بیٹھو تمہیں ایک گڈ نیوز دینی ہے تمہارا اتنا ہارڈ ورک دیکھ کر میں نے سوچا ہے تمہاری پروموشن ہونی چاہیے اور ایک کنٹریکٹ بھی دلوایا ہے تم نے امیزنگ یار۔۔۔ “ یار ہوگا تمہارا ابا جاہل آدمی دس سالوں سے جو محنتی لوگ کام کر رہے انکی پروموشن نہیں کر رہے اور میری کرنے کی آگ لگی تمہیں گھٹیا شخص اب تو بھاڑ میں گیا ایڈونچر تم زندہ بچو میرے ہاتھ سے میں سوچتے ہی اسکا سر پھاڑنے اسکی طرف بڑھی کے بیپ کی آواز سے وہ موبائل کی طرف متوجہ ہوا اور جیسے ہی اس نے میسج کھولا اسکا کھلتا چہرہ سفید پڑ گیا منٹوں نہیں سکینڈوں میں اسکے ماتھے پر پسینے تیرنے لگے ہائے یہ کام صارم کا ہی ہوگا لیکن کیا کیا کچھ پتا تو چلے؟؟؟
” یہ۔۔۔یہ۔۔۔ تمہارے اکاؤنٹ۔۔۔سے۔۔۔ک۔۔۔کیسے آیا؟؟ “
وہ جتنا ڈرا نہیں تھا اس سے کہیں زیادہ میں چونکی تھی ” میرے اکاؤنٹ “ تیر کی تیزی سے میں نے اسکے ہاتھ سے فون چھینا اور جیسے جیسے نظر دوڑاتی گئی ویسے ہی میرا دماغ الرٹ ہوا میں مسکرائی یہ سر کے سارے کارناموں کی فائل تھی وہی کل والی۔۔ سر آہستہ آہستہ سسر سے سائن کروا کر اُسکی پراپرٹی ہڑپ رہا تھا یہاں تک کے طلاق کے پپرز بھی ریڈی کروا لئے تھے کے سسر کے مرنے کے بعد وہ اپنی بیوی کو طلاق دیگا۔۔۔ نقلی پپرز سے لیکر اوریجنل پپرز تک اسنے اپنے پاس سیو کیے تھے شاید ڈر تھا اگر پھنسا تو سب کو ساتھ لے جائے گا لیکن اس سے ایک بیوقوفی ہوئی بیوی کی نظر سے تو لیپ ٹاپ دور کر لیا لیکن یہاں وہ اسکی حفاظت نا کر سکا۔۔۔
میں نے لہو رنگ آنکھوں سے اسے گھورتے اپنے اندر کے لاوا کو باہر نکالا اور کس کے ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر دے مارا۔۔
” یو بلڈی۔۔۔ “ اسکے کہنے سے پہلے اب کی بار میں نے ہاتھ کا موقا بنا کر اسکے جبڑے پر دے مارا۔۔
” منہ بند رکھو اپنا سمجھے بس ایک بٹن اور یہ ساری انفارمیشن نیٹ پر وائیرل یہ جانتے ہو میسج تمہیں کہاں سے آیا؟؟ میرے اکاؤنٹ سے اُنیس گھنٹے ہو چکے ہیں میں نے اسے لوگ ان نہیں کیا اور آگر اگلے کچھ گھنٹوں میں میں نے لوگ ان نا کیا تو تمہاری ساری انفورمیشن وائرل ہوگی سمجھے۔۔ تم جیسے لوگ میرا خون کھلتے ہو اب آگر زندگی اور عزت پیاری ہے تو دس لاکھ کا چیک بناؤ جلدی اور میرے سارے ڈاکومینٹس منگواؤ اور میرے سامنے اپنا ڈیٹا کھول کر میری ساری انفورمیشن ڈیلیٹ کرو جلدی ورنہ تمہاری یہاں محبتوں کے قصے بھی میرے پاس سیو ہیں تمہارے سسر کو بھیجے نا تو جائیداد سے تو جاؤ گئے ساتھ ساری عمر جیل میں انتاکشری کھیلو گے۔۔ “ وہ کافی دیر بےیقینی سے آنکھیں پھارے مجھے دیکھتا رہا مجھے پتا ہے میری کچھ باتیں تو اسے پلے بھی نا پڑی ہونگی ۔۔۔۔تھا تو وہ بھی انجینئر لیکن ساری پڑھائی صرف امیر باپ کی بیٹی کو پٹانے میں لگائی تھی میرے کہے کے عین مطابق اس نے جلدی سے میری فائل منگوائی ریکارڈ اور کمپیوٹر سے میرا سارا ڈیٹا ڈیلیٹ کیا اور دس لاکھ کا چیک میرے ہاتھوں میں تھما کر مجھے قہر آلودہ نظروں سے گھورا۔۔
“ یہ لو میرے دس لاکھ جو کنٹریکٹ کے مطابق مجھے دینے تھے اب یہ دس لاکھ اس ٹرسٹ میں دوگے آگر چالاکی کی نا تو ۔۔۔سڑک پر رہنے کے لائق بھی نہیں رہو گئے سمجھے اور نقصان پہنچانے کا سوچنا بھی نہیں جب تک میں زندہ ہوں تمہارے راز راز ہیں میں گئی تو یہ راز راز نہیں رہیں گے “ میں نے وہی چیک اسے تھمایا اور ساتھ ٹرسٹ کا نام یہ میری زندگی کا پہلا خطرناک ایڈونچر تھا اور ایسا ایڈونچر جس میں صارم کی کل کی باتیں سن کر میں نے ایک اچھا کام کروایا لوٹنے والے کے ہاتھ ڈونیشن۔۔۔