میں نے جیت کی وہ خوشی پائی اپنا سر فخر سے بلند کیا اور پاپا کو خوشی سے مسکراتے تالیاں بجاتے دیکھا میں جسکے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی انھیں دیکھتے ہوے اسٹیج پر کھڑی میم کی طرف چلنے لگی۔ بھلے میری اول پوزیشن نہیں آئی لیکن اُس دن میرے بابا کے لیے میں وہی ایک واحد ونر تھی کیوں کے اُس دن بابا کی سالوں کی محنت رنگ لائی میری امی کی دعائیں وہ سارے حربے جو انھوں نے مجھ پر آزمایے تھے۔۔۔ ان سالوں میں رنگ لائے میرے بابا کی دن رات کی وہ محنت مجھے پڑھانا مجھ سے پڑھنا۔۔ بلکل۔۔۔ ٹیچر کو دیکھ کر جس طرح بچے کی خوائش ہوتی میں بھی ٹیچر بنوں ویسے ہی میری بھی تھی جس کا بابا نے فائدہ اٹھایا جو اسکول میں مجھے پڑھاتے بابا مجھے کہتے وہ سب مجھے پڑھائو اور جب دوسری بار بھی انھیں پڑھانے پر سمجھ نا آتا تو میں انھیں غصّے سے ڈانتی۔۔۔
” با۔۔با۔۔بابا۔۔۔آ۔۔۔آپ۔۔بہ۔۔۔بہت۔۔ن۔۔۔نتمے۔۔ہ۔۔ہیں “
(بابا آپ بہت نتمے ہیں ) خفگی سے انہیں دیکھتے رابی نے کہا جبکے سکندر نے ہنسی روکنے کے لئے داڑھی پر ہاتھ پھیرا رابی اب پھر سے سمجھا رہی تھی اس دفع اٹک وہ پہلے کی نسبت کم رہی تھی اور یہی چیز سکندر کے اندر سکون بڑھا رہی تھی۔۔
کبھی کبھی ایک ہی ٹاپک کو لیکر وہ ڈھیر سارے سوال کرتے۔۔
” بابا ا۔۔ اب۔۔۔م۔۔۔میں۔۔۔د۔۔دوبارہ۔۔ف۔۔فوٹو۔۔۔ “
” رکو دوبارہ فوٹوسنتھیسز بولو “ سکندر نے اسے اٹکتے دیکھ فوراً سے بولا کے اسے ریپیٹ کرو۔۔
” فوٹو۔۔۔س۔۔سن۔۔ “ ایک بار پھر کوشش ہوئی تھی لیکن وہ ناکام رہی اب بھی بڑے لفظ بولنے میں اسے مشکل ہوتی۔۔۔
” نہیں یہ تو کوئی ورڈ نہیں ہوتا۔۔ “ سکندر نے جیسے اسکے علم میں اضافہ کیا اب کے رابی نے آنکھیں سکوڑ کے سکندر کو دیکھا اور ایک بار پھر کوشش کی۔۔
” فوٹو سن۔۔۔۔ “ اب کے بار اٹکنے پر رابی کا چہرہ غصّے سے لال ہوگیا اور چیختے ہوئے اسنے بلا آخر اسے مکمل کیا۔۔
” فوٹوسنتھیسز “
” نہی۔۔نہیں سمجھائونگی “ جملہ یاد آتے ہی اسنے مکمل کیا۔ سکندر جی جان سے مسکرا اٹھا۔۔
میں اس دن اٹکی نہیں تھی میں نے سنا تھا پریکٹس انسان کو پرفیکٹ بناتی ہے۔۔۔۔
(practice makes man perfect )
یقین بھی کیا جب آہستہ آہستہ میری یہ ہکلاہٹ ختم ہوئی لیکن وہ غصّہ ختم نا ہوا جو اس ہکلاہٹ کی وجہ سے مجھے بدنام کر گیا۔۔۔
آج میرے بابا کی پل پل کی محنت نے انکا سر جھکا دیا جو کبھی مجھے نفرت انگیز نگاہوں سے نوازتیں تھیں میں نے اسٹیج پر آکر انہی ٹیچر سے ٹروفی لی جنہوں نے مجھے پوری کلاس کے سامنے چیٹنگ پر پےدرپے تھپڑ مارے انہوں نے تو مسکراتے ہوے مجھے ٹروفی دی لیکن میں نے انکو ایک نظر دیکھا بھی نا تھا حالانکہ انہوں نے مجھے کونگریجولیٹ بھی کہا لیکن میں نے ان سنا کر دیا۔۔۔
” میم کین آئی سے سمتھینگ؟؟؟ “ میں نے ٹروفی لیتے ہی پرنسپل سے کہا اور انہوں نے خوش دلی سے مسکراتے ہوے کہا
” آفکورس “ اور انائونس کرتی ٹیچر کو مجھے مائک تھامانے کو کہا۔۔
” السلام عليكم اویری ون۔ سوری میں سپیچ ریڈی کر کے نہیں آئی کیوں کے مجھے پتا نہیں تھا میں بھی ونر ہوں بس مجھے یہ بتانا ہے کے کچھ لوگ سمجھتے ہیں میں کند زہن ہوں تو آپ سنیں میں نہیں ہوں جب تک آپ خود بچے کا کونفیڈنس لیول ڈیولیپ نہیں کروگے اسکا مذاق اڑانے کے بجائے ساتھ نہیں دوگے نا وہ آپ کی ریسپیکٹ کریگا نا آپ کی بات مانے گا۔۔ میں بات بھی مانتی ہوں ریسپیکٹ بھی کرتی لیکن بابا کی کیوں کے وہ ہیلپ کرتے ہیں جھوٹ بول کر پنیش نہیں۔۔
And it was my father who taught me to value
Myself.. Thank you baba All credit goes to you!!!! ”
حال میں جہاں تالیاں گونجیں وہیں میڈم کو کچھ شک ہوا انہوں نے دھیرے سے رابی سے پوچھا۔۔
” رابیل آپ کو کند ذہن کسی ٹیچر نے کہا؟؟ “
میڈم کے پوچھنے پر رابی نے اثبات میں سر ہلا کر ایک نظر ٹیچر کو دیکھا جسکا چہرہ سفید پڑ چکا تھا اور اپنا سر جھکا لیا اسکے بعد وہ نیچے اتر آئی۔۔
سکندر جہاں اسکی تھوڑی سمجداری اور بچکانہ سپیچ پر ہنسا تھا وہیں باقاعدہ اٹھ کے تالیاں بجائیں اور اب وہ پُر سکون تھا کے اب سے کم از کم وہ اس ” واقعہ “ کو سوچے گی تو نہیں کیوں کے رابی کی شروع سے عادت بن چکی تھی ہر واقعہ کو کریٹیوٹی کی صورت دیکر اپنی ڈرائینگ ڈائری میں سیو کرنا اور آج سہی معنوں میں سکندر کو یقین ہوگیا وہ کبھی نا پہلے ڈری تھی نا اب ڈرنے والوں میں سے تھی شروع سے ہی وہ سب کو منہ پر جواب دیتی تھی پہلے یہ بات سکندر کو بُری لگتی تھی لیکن اب تھوڑی کم کیوں کے وہ اب اپنے حق کے لئے لڑتی تھی اور آگے بھی لڑتی رہے گی۔۔۔
اسکے بعد ایک اچھی بات یہ تھی نائنتھ میٹرک میں میرا پالا اس ٹیچر سے نہیں پڑا آگے جب وہ مجھے ملیں مجھے دیکھ کر مسکراتیں تھیں اور میں بس انکی مسکراہٹ کے جواب میں سلام کرتی وہ جواب دیکر چلی جاتیں۔ اسکول لائف میری بہت اچھی گزری تھی وجہ تھی میرے بابا اور میری کچھ سپورٹیوو ٹیچر لیکن گندگی، بدمعاشی، رشوت، چالکیاں، بےحسی اصل یہ سب چیزیں تو میں نے آگے کولج لائف میں دیکھیں۔۔
ڈرائنگ میرا شوق تھا جسے میں نے اپنا پیشن بہت بعد میں کسی اور کے کہنے پر بنایا میری ایک اچھی یا کہا جائے بُری عادت میں نہیں جانتی لیکن اوروں کی کہانیوں کو اپنی کریٹیوٹی دینا میرا شوق تھا۔ میں چیزوں کو بہت اوبزرو کرتی تھی شروع سے ہی دوسروں کی باتیں چائے بُرائی ہو امی کی فون پر نانی خالا سب سے باتیں میں بہت غور سے سنتی اور کوئی بھی قصّہ ہو اُسے اپنے طریقے سے رنگ دیتی۔۔
بچپن میں پیاسے کنویں کی کہانی سنی اور اسے خود ڈرو کیا ایک دن بابا سے ضد کر کے میں نے طوطا خریدا جسکا ایک بچا بھی تھا لیکن میں نے پروا نہیں کی مجھے بس بڑا طوطا اچھا لگا میں نے خرید لیا گھر آکر دو دن تو بس میں اُسے خود سے اٹیچ کرنے میں رہی لیکن وہ نا سنتا نا میری بات کا جواب دیتا حالانکہ میں نے سنا تھا طوطا بول سکتا ہے، کھیلتا ہے مذاق کرتا ہے لیکن مجھے لگا میرا والا شاید بورنگ ہے لیکن بورنگ نہیں اصل احساس مجھے بعد میں ہوا اُسے قید نہیں کھلی فضا چاہیے تھی اپنی زندگی چاہیے تھی جو اللہ نے اسے کھلی ہوا میں بخشی تھی۔.....
“ باجی سب کو لے گئے جو جو بھیگ مانگ رہے تھے سب کو اٹھا لیا اور جیل میں بند کردیا اللہ معاف کرے میں نے تو توبہ کرلی محنت کی روٹی میں ہی سُکھ ہے آئندہ کبھی لالچ کر کے کسی کے آگے ہاتھ نا پھیلائوں گی چاہے کتنی دُگنی کمائی ہو لیکن لالچ نہیں کرونگی باجی۔۔۔ کیا بتاؤں ایسا حال کر رکھا تھا وہاں عورتوں کا معصوم لڑکیوں کا سُوکھی روٹی دیتے تھے پانی کے ساتھ کھانے کے لئے اور بالوں سے گھسیٹ کر لے جاکر انکے جسم سے خون نکالتے استغفار باجی خوف خدا انکے دلوں سے
ختم ہو چکا ہے اپنے ہی مسلمان بھائی بہنوں پر ظلم کر رہے ہیں “ یہی دن تھا جب خوف سے میں نے اس طوطے کا بچا خریدا اور چھت پر لے جاکر دونوں کو ہوا میں اڑا دیا وہیں جہاں انکی اصل جگہ تھی۔۔
آمنہ ہماری کام والی ماسی تھی جو اکثر سب گھروں کا کام کرنے کے بعد راستے پر بھیگ مانگتی اور جو کمائی ہوتی خوشی خوشی گھر لے جاتی لیکن ایک دن اسے بھیگ مانگتے شاید پولیس والوں نے پکڑ لیا اور اسے باقی عورتوں کے ساتھ جیل میں ڈال دیا لیکن آمنہ کو اگلے ہی دن جاکر اسکے شوہر نے تین ہزار دیکر چھڑوا لیا لیکن وہاں جو ان عورتوں کے ساتھ ہوتا آمنہ وہ دیکھ کر کانپ گئی اور توبہ کرلی کبھی دوبارہ بھیگ نہیں مانگے گی اور میں اس وقت آمنہ جو امی کو سب سنا رہیں تھی اسکی باتیں غور سے سن کر سوچ رہی تھی کیا میں نے غلط نہیں کیا میرا کیا حق ہے اس پر جو میں نے اُسے قیدی بنایا بس پھر اسی دن طوطے کو آزاد کیا اور وہ ہاتھ والا اسکیچ بنایا۔۔
جس میں انسان کے ہاتھ میں بنی جیل میں ایک انسان ہی قید تھا اور اڑتا طوطا اسے بےبس پھڑپھڑا کر دیکھتا اپنا دکھ بتا رہا تھا۔۔۔
اسی رات یہ سب باتیں میں نے بابا کو بتائیں اور وہ اسکیچ بھی دکھایا جسے دیکھ کر انہوں نے میری تعریف کی۔ اور اب یہ میرا معمول بن چکا تھا میں اسی طرح اپنے ڈرائنیگز کو کہانی کی صورت دیتی۔
امی کے ایک کزن کا ویزا ریجیکٹ ہوگیا اُسنے بہت کوشش کی سب نے اسے منع کیا بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ کر نا جاؤ چھوٹا بھائی بھی ابھی بچہ ہے لیکن اُسنے کسی کی نا سنی دن رات دفتروں کے چکر کاٹے پیسے خرچ کیے اور بلا آخر امریکا جا پہنچا لیکن اگلے ہی دن خبر آئی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں اُسکی ڈیتھ ہوگئی۔ یہی ہوتا ہے جب انسان اپنی قسمت خود اپنے ہاتھوں سے لکھنے بیٹھتا ہے۔ اسی دن میں نے وہ اسکیچ بنایا جس میں آدمی خود اپنی قسمت لکھتا ہے اور پنوں کے وزن سے مر جاتا کاش وہ ماں باپ کی سنتا اپنوں کی سنتا وہ نہیں جانتا دعا تو انسان کو زندگی دیتی ہے کیا پتا اُسکی ماں کی دعا اسے زندگی کی نوید سناتی۔۔۔
اور وہ میری پسندیدہ آنکھوں سے خوب نوچ لئے اور حسد نے مجھے جلا ڈالا وہ دونوں میرے دل کے بےحد قریب ہیں اور ان سے میری ملاقات صارم کی وجہ سے ہوئی ہاں صارم میرا خالہ زاد جس سے میری بچپن میں بنتی تھی پھر نہیں کیوں کے میں جب آٹھ سال کی تھی خالا کراچی شفٹ ہوگئیں وہیں جہاں میرا ددھیال ہے۔۔
میری زندگی میں ایسے ایسے لوگ آئے جنہیں دیکھ کر چھوٹی عمر سے مجھے بی پی کی پرابلم ہوگئی بابا کو اکثر ڈر لگتا کے میرے اتنا غصّہ کرنے سے میرے دماغ کی کوئی نس نا پھٹ جائے۔ میں جب فرسٹ ائیر میں جانے والی تھی نجانے کیوں میں نے دوسروں کی بات مانی کے گورمنٹ میں جاؤ اور کوچنگ جوائن کرو اس سے آگے ایپٹیوڈ ٹیسٹ میں بھی ہیلپ ہوگی پرائیوٹ میں بہت خواری ہے آسائمنٹس ٹیچر کے پیچھے بھاگنا آٹینڈس(attendance) پر اسٹریکنس(strictness) ایڈمٹ کارڈ پر خواری اور گورمنٹ پورا کولج ہمارا لیکن وہاں جاکر پتا لگا بھلے فیس کم ہو لیکن وہاں لوٹنے والے لائن سے کھڑے تھے غریب بچے جو پرائیویٹ افورڈ نہیں کر سکتے وہ ” پڑھنے “ ضرور آئے تھے لیکن
” پڑھانے “ والا مرضی سے آتا چاہے کلاس ختم ہونے سے پندرہ منٹ پہلے فارم پر لکھے پینتیس روپے ہیں لیکن دینے چالیس ہوتے ہیں ورنہ پانچ روپے کے لئے اپنا فیوچر داو پر لگاؤ نا دو پیپر کسی کو فرق نہیں پڑتا بکس جو کہنے کو فری ہوتیں وہاں پرانی بکس چپکے سے کم قیمت پر بھیچتے کہنے کو گورنمنٹ سے پیسے لیتے لیکن کالج انسٹرومنٹس(instruments) ایسے ہوتے کے ارر(error) کے علاوہ کچھ آتا نہیں وہ ماحول جہاں بچہ تمیز سیکھنے آتا ہے وہاں بی پی کا مریض بن کر رہ جاتا
۔ ایک مارک شیٹ لینے کے لئے ٹیچر کا صبح سے انتظار کرو کیوں کے انھیں آنا اپنے وقت پر ہے یہاں تک کے میڈیکل کے ٹیسٹ انجینرنگ کے ٹیسٹ فارمز الگ کولجز کے لاکھوں اسٹونڈس اپلائے کرتے لیکن یہاں اسٹونڈس کو نہیں بس پیسوں کو دیکھا جاتا میں کبھی کبھی سوچتی صرف ایجوکیشن سسٹم سے ہی لوگ لاکھوں کماتے لیکن یہاں صرف میڈیکل اینجینرنگ سیٹس نہیں بکتیں باقاعدہ رشوت منہ میں نوالے کی طرح دی جاتی صرف گوورنمنٹ کولجز نہیں ہر کہیں یہی حال تھا۔۔
انھیں دنوں کی بات ہے جب میں سکینڈ ائیر میں تھی بابا کو فرسٹ اٹیک آیا تھا مما میں بہت پریشان تھیں بابا دادا دادی کو بہت یاد کرتے تھے ایک ایسا دکھ جو اب تک انکے دل میں تھا جسکا ذکر نا امی سے کرتے نا مجھ سے ان دنوں میں بھی بہت پریشان تھی اوپر سے فارم کے ساتھ برتھ سرٹیفکیٹس سے لیکر اسکول لیونگ سرٹیفکٹس تک ڈاکومینٹس جمع کرانا الگ ٹینشن تبھی شام کو پڑوس والی آنٹی نے بریانی اپنے بیٹے کے ہاتھ بھیجی میں نے اسے بریانی کی پلیٹ لیکر رکھی اور برتن واپس دینے آئ تو اسنے مجھے دیکھتے وہی صورت الناس کی آخری آیت جن بھگانے والی پڑی تو میرا پارا ہائی ہوگیا بچپن سے پہلے ہکلاہٹ کا مذاق اور اب جن کا سایہ میں اس وقت مذاق کے موڈ میں نہیں تھی لیکن یہ لوگ ہر وقت میرا تماشا بناتے میں نے وہی چینی کی پلیٹ جو اسے تھمائی تھی لیکر اسکے سر پر ماردی۔۔۔۔
لیکن مجھے مارنے کے بعد اندازہ ہوا کیا کر بیٹھی ہوں میں؟؟ اسکے بعد وہی ایک طوفان آیا تھا گھر میں جہاں کراچی سے دادا کی انتقال کی خبر ملی وہیں وہ پڑوسی جو پولیس میں تھا اسنے بابا کو مجھے جیل لیجانے کی دھمکی دی یہی نہیں باقاعدہ وہ بابا کو لیکر بھی گئے۔۔۔
میری وجہ سے پہلی دفع بابا کا سر جھکا تھا اس حالت میں وہ جنہیں آرام کی ضرورت تھی اب جیل میں بیٹھے تھے شاید وہ اب مجھ سے نفرت کرنے لگیں گئے اس دن پہلی بار میں نے اپنی بیوقوفی میں کی حرکت سے خوف محسوس کیا۔۔ پھر ماموں امی اور مجھے اپنے ساتھ گھر لے آئے جب وہ ابو کو چھڑوانے گئے تو ضد کر کے میں بھی انکے ساتھ چلی آئی اور جیسے ہی ہم وہاں پہنچے بابا باہر بیٹھے اس پڑوسی انسپیکٹر سے باتیں کر رہے تھے مجھے دیکھتے ہی پہلی بار انکی چہرے پر سخت تاثرات آئے۔۔۔۔
” فیصل بھلے اسے جیل میں ڈال دو سزا ہر گہنگار کو ملنی چاہیے “ بابا نے سخت لہجے میں کہا
” با۔۔۔با “ میں نے بےیقینی سے انہیں دیکھا وہ کہیں سے مجھے میرے بابا نہیں لگے۔۔ غلطی ساری میری نہیں تھی انکے بیٹے کی بھی تھی اور بیوی کی بھی جو مجھے سائیکو کہتے تو آخر کیسے انسان کو غصّہ نا آتا۔۔۔
” سکندر پاگل ہو گئے ہو؟؟ “ ماموں نے بابا سے کہا انھیں بھی کہاں اندازہ تھا بابا کے ایسے رویے کا
” ہاں ہوں رابی بھی تو حق و سچ کے ساتھ ہوتی ہے نا گزارے یہاں اب اپنی باقی کی زندگی “ بابا نے سخت نگاہوں سے مجھے دیکھا میرا روم روم کانپ اٹھا وہ واقعی اب مجھ سے نفرت کرنے لگیں ہیں پھر انہوں نے کچھ پپرز پر سائن کیے اور میرا ہاتھ پکڑ کے غصّے سے مجھے وہاں سے لے آئے۔۔۔
گھر آکر بھی بابا نے مجھ سے بات نا کی الٹا دادا کی موت کی خبر نے انھیں پہلے سے زیادہ کمزور کر دیا ایک ہی دن میں جیسے جینے کی وجہ ختم ہوگئی تھی۔۔۔ ماموں نے ہی کراچی جانے کا سارا انتظام کیا بابا کو تو ہوش تک نا تھا اور اسی دن وہیں جب کراچی پہنچے راستے میں میں نے ایک لڑکے کو دیکھا جو کچھ لوگوں کے ساتھ ملکر افسر کی پٹائی کر رہا تھا وہ یونیفارم میں ملبوس تھا میں نے غور کیا بابا بھی اُسے ہی دیکھ رہے تھے آس پاس سے پتا لگا وہ چالان لینے پر پٹائی کر رہا تھا اور بوڑھے آدمی کی طبیعت خراب ہونے کے باوجود انہیں ہوسپیٹل جانے نہیں دے رہا تھا اور وہیں نجانے کیوں اسکے اس عمل نے مجھے اس سے متاثر کیا اسکے بعد گھر آکر پتا لگا وہ میرا ہی کزن ہے میں اس اتفاق پر بےحد حیران ہوئی۔۔۔۔
کراچی آکر مجھے اصل محبتوں کا پتا لگا جو چچا چچی دادی اور کزنز سے ملی سوائے اس ایک کے جو یہاں کتابی کیڑا نام سے مشہور ہے بابا یہاں آکر بھی مجھ سے ناراض رہے جب انکی ناراضگی کسی پل ختم نا ہوئی تو میں نے بھوک ہڑتال کی اور میں اتنی ضدی تھی کے واقعی میں نے پورا دن کچھ نا کھایا بس جب بابا نماز کے لئے اٹھتے میں انکی جانماز کے نیچے ایک پیپر رکھ آتی جس میں بڑا سا سوری لکھا ہوتا پھر اسی دن بابا نے خود آکر مجھے کھانا کھلایا اور ساتھ وہ خبر دی جس نے مجھے حیران کردیا شادی کی خبر اور پر لگاتے یہ مرحلہ ہوا چھوٹی ہی عمر میں ہم دونوں کا نکاح۔ وہاں آکر یہ ہوا تھا میں نے سب کو دیکھ کر غصّہ پر قابو کرنا سیکھا تھا لیکن وہاں کا ماحول وہاں کے لوگ میرا پاسٹ نہیں جانتے نا وہ ہکلاہٹ یہاں آکر سب الگ نیا نیا سا لگ رہا تھا اوپر کا پورا پورشن ہمیں دے دیا جہاں میں سکون سے رہ سکتی اور اپنی کریٹو دنیا میں کسی کی مداخلت بھی آج تک نہیں دیکھی۔ لیکن سب آسان نہیں ہوتا یہاں آکر میری چالاکی حد سے زیادہ بڑھ چکی تھی کیوں کے میں نے کچھ غلط کام کرنے سیکھ لئے تھے اور یہ سب سکھایا تھا مجھے صارم نے۔۔۔
اسے ہیکنگ سے لیکر کمپیوٹر گرافیکز ڈیزائننگ کیا؟؟ آخر ایسا کیا تھا جو نہیں آتا؟؟ ہاں بس انٹرسٹ اسے نہیں تھا جو مجھے ہے اسی نے مجھے ہیکنگ پاس ورڈ لگانا کارٹونز بنانا آڈیو ایڈ کرنا سب سکھایا اور اسکی شروعات میری ان اسکیچز سے ہوئی جو اسنے دیکھے اسے امید نہیں تھی کوئی ایسا شوق کہا جائے یا ہنر کے مجھ میں ہے وہ بےحد حیران ہوا اور کافی دیر مجھ سے پوچھتا رہا کے کیسے دیکھ کر بناتی کیسے آتے دماغ میں تب میں نے اسے سب بتایا اور وہ کافی دیر مجھے دیکھ کر ہنستا رہا پھر اس نے مجھے بھی اپنے ان اسکیلز کا بتایا جو اسکے کسی کام کی نہیں وہ کہتا ہے شاید تمہارے لئے سیکھا ہے ۔ مجھے ابھی آفس جوائن کیے دو مہینے ہی ہوئے تھے کے میں بےزار ہوگئی مجھے باس اور اسکی چمچیاں سب عجیب لگتیں ایسی بن سنور کے آتیں جیسے مولوی نکاح نامہ کے ساتھ دولہا تیار لیکر بیٹھا ہے۔ خالہ کا گھر قریب ہی تھا میں اس دن بےحد اداس تھی کیوں کے باس آج کل کچھ عجیب ہی نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے گھر آتے ہی میں نے سب کچھ صارم کو بتایا تو اسنے مجھ سے عجیب سوال کیا۔۔۔۔
” Find red colour ”
” میں سیریس ہوں “
میں نے دانت پیستے غصّے سے کہا پتا نہیں کیوں یہ غصّہ ساتھ نہیں چھوڑتا۔۔
” I am serious ”
اسنے کچھ اس طرح کے سنجیدہ لب و لہجے میں کہا کے میں ارد گرد دیکھنے لگی پھر نظر صارم کے بیڈ شیٹ پر گئی تو وہاں اشارہ کیا۔۔
” وہ رہا اب مجھے بتاؤ مسلے کا حل “
“ seriously i was not expecting atleast from you ”
بہت حیرانگی سے وہ مجھے دیکھتے ایک ہاتھ ٹھوڑی پر رکھ کے غور سے دیکھنے لگا۔۔۔
” واٹ؟؟ “ میں نے اب کے بےزاری سے کہا۔۔
” چار سال۔۔۔ رابی چار سال سے تم اس روم میں، اس گھر میں نجانے کتنی دفع آئی ہو اور اتنی ابسنٹ مائنڈ کے تم نے ان ریڈ دیواروں کو چھوڑ کر اس بیڈ شیٹ کو دیکھا تم نے سوچا ہی کیوں رابی؟؟؟ اپنا نام بتاتے وقت سوچتی ہو؟؟ ایڈریس سوچتی ہو؟ نمبر سوچتی ہو؟؟ تمہارے ذہن کو منٹوں میں حاضر ہونا چاہیے جو چیز بنا دیکھے تم بتا سکتیں اس میں اتنی دیری کیوں؟ اور ایسا جواب کیوں؟؟ ہم جہاں رہتے ہیں کام کرتے ہیں ہمیں اس ماحول کو دیکھنا چاہیے حفظ کرنا چاہیے جب مصیبت آتی ہے نا... وجہ نہیں پوچھتی کہتی ہے جب جانتی ہو۔۔
یہ راستہ ذلت کی طرف ہے تو قدم کیوں رکھا؟؟ تمہارا باس ایک نمبر کا ٹھرکی ہے کل ذرا ایک کوشش کرنا بنا ہیکنگ کے کے تم کیا کر سکتیں۔۔۔ اینڈ ون مور تھنک فائنڈ یور اسٹرنتھ “ وہ پر سکون انداز میں گویا ہوا اور میں وہاں بیٹھی جہاں اسکی باتوں پر غور کر رہی تھی وہیں بابا کا وہ جملا یاد آیا جو انہوں نے ٹیچر سے کہا تھا۔۔۔
” یہ میرا کوہے نور کا ہیرا ہے نا جس ماحول میں جاتا میں اس جگہ ان لوگوں ان حواؤں تک کو حفظ کر لیتا “
میں اکثر بابا کی کچھ باتیں سن کر اگنور کرتی یا غور نہیں کرتی آج ایک چیز تو معلوم ہوئی انڈائیریکٹلی ہی سہی کچھ باتیں لوٹ کر آتیں ہیں لیکن تب تک تھوری دیر ہو چکی ہوتی ہے اور اب میں سوچ رہی تھی ہیکنگ بھی نہیں تو کیا کروں؟؟؟؟ مجھ میں ایسا کیا ہے جو میں بنا ہیکنگ کیے کروں؟؟؟؟