وہ ہمیشہ گارڈن سے آنے کے بعد گلیری میں بنے ایک خانے میں اپنی ساری چیزیں رکھتی ہے اس گیلری میں کوئی نہیں آتا تھا انفکٹ اوپر امی چچی اور کزنز بھی بہت کم بلکہ نہ کے برابر آتے تھے لیکن گھر میں رابیل کے شوق سے سب واقف تھے جسے پینٹنگ میں انٹرسٹ تھا اور مجھے یہ شوق اپنی رخصتی کے بعد پتا چلا۔۔ رخصتی میں نے سرد آ بھری پل بھر میں کتنا کچھ بدل گیا میری زندگی کہاں سے کہاں آکر تھمی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔ آج انٹرویو دینے کے بعد نجانے مجھے کیا سوجھا جو میں گیلری میں چلا آیا اس ڈرو کے قریب جہاں وہ اپنا خزانہ چھپائے ہوے تھی۔۔۔
میں نے دھیرے سے ڈرو کھولا شکر رابیل آج فائزہ کے ساتھ شوپنگ کرنے گئی تھی ورنہ میری اس جاسوسی پر چور کا ٹیگ ضرور لگاتی۔ خیر موقع بھی تو میں نے ہی دیا تھا۔۔۔۔۔۔
میں نے جیسے ہی اسے کھولا چارٹ پیپرز کا فولڈ کیا ھوا بنڈل مجھے سب سے پہلے ملا۔ میں نے چارٹس کا وہ بنڈل اٹھایا جسے رول کر کے ربر بینڈ کی مدد سے فولڈ کیا گیا تھا میں اسکی پینٹنگ دیکھنا چاہتا تھا میں نے سنا تھا سوچ کا پتا انسان کی لکھی تحریر اسکے بنائے نقش و نگار سے چلتا ہے میں بھی اسکی سوچ کو پڑھنا چاہتا تھا، کیوں کے بلاشبہ وہ مجھے ان دنوں جاننے کے بعد تھوڑی مختلف لگی۔۔
سوچتے ہوے میں نے پہلا چارٹ کھولا لیکن وہاں بنا اسکیچ دیکھ مجھے حیرانگی ہوئی لاتعداد گول رنگز بنیں تھیں جسے دیکھتے ہوے لگتا آپ ان بڑی رنگز سے ہوکر اندر چلے جا رہے ہو جہاں رنگز ہر اسٹیپ کے بعد چھوٹی ہوتی جاتیں لیکن راستہ ختم نہیں ہو رہا۔۔ شروع ایک بڑی سی رنگ سے ہوا تھا جو پورے چارٹ پیپر کو کور کیے ہوے تھی اسکے اندر اس سے چھوٹی رنگز بنتی گئیں جب تک کے آخری رنگ ایک نقطے کی شکل میں نا آئے لیکن عجیب ایک چیز تھی وہ پہلی تھی جو اس میں چھپی تھی ہاں پہلے بڑے رنگ میں بوڑھے آدمی اور بوڑھی عورت کا اسکیچ تھا چہرے آگے تھے دونوں کی پینٹ بنی ہوئی تھی اور سفید بالوں سے پتا لگ رہا تھا وہ بزرگ ہیں انکے ساتھ ایک جوان لڑکی بھی تھی۔ اگلے رنگ میں وہی لڑکی دوبارہ اُس بوڑھے آدمی اور عورت کے ساتھ تھی لیکن یہاں وہ بوڑھے آدمی سے اپنا ہاتھ چھڑوا رہی تھی جب کے بوڑھے آدمی کا آدھا چہرہ واضع نظر آرہا تھا جہاں ایک آنکھ میں سے پانی بہ رہا تھا شاید وہ اسے اندر جانے سے روک رہا تھا جہاں صرف اندھیرا ہے اگلے رنگ میں وہی لڑکی ایک لڑکے کے ساتھ رنگ کے اندر جا رہی تھی اور آگے اس سے اگلے رنگ میں بلکہ آگے ہر رنگ میں وہ لڑکی تنہا تھی۔۔ہاں وہ تنہا تھی آگے ہر رنگ میں وہ تنہا تھی وہ چلتی چلی جا رہی تھی لیکن راستہ ختم نہیں ہو رہا تھا میرا دماغ الجھتا گیا بھلا اسکا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟؟ پھر نیچے لکھی تحریر پڑھ کے میں چونک اٹھا ” حرام رشتہ صرف گمراہی کی طرف لے جاتا ہے “ حرام رشتہ میرے لب بےآواز ہلے ایک بار پھر میں نے اس اسکیچ کو دیکھا اور بےاختیار گہری سانس خارج کی وہ بوڑھے اس لڑکی کے ماں باپ تھے جنہیں وہ چھوڑ کے ایک حرام رشتہ بنانے چلی تھی اس رنگ میں کہیں بھی لڑکا لڑکی کی شادی کا سائن نہیں تھا مطلب حرام رشتے کا آغاز ہوا تھا۔۔ ایک اور مختلف بات تھی اس بوڑھے جوڑے کے یہاں آسمان کھلا تھا صرف روشنی ہی روشنی تھی جینے کا احساس تھا اس کھلے آسمان تلے زندگی کے رنگ تھے آسمان پر بڑا سا رینبو بنا ہوا تھا جب کے اندر صرف اندھیرا تھا اور ایک نا ختم ہونے والا راستہ جہاں انسان بن پانی کی مچھلی کی طرح بھٹکتا اور سسکتا رہتا اور وہ لڑکی آج تک ان سنسان راستوں میں بھٹکتی ہے ایک اس سیدھے راستے کی تلاش میں جیسے عرصہ پہلے وہ چھوڑ آئی تھی ایک نامحرم کے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی پل گزر گئے میری آنکھیں حیرانگی سے کھلی رہیں میں تو یہی سمجھتا تھا وہ اوروں کی طرح ذندگی کے مناظر بناتی ہوگی، الگ الگ موسم کے وہ لمحات، کسی شہر کسی علاقے کے مناظر کوئی تصویر لیکن یہاں تو پہیلیاں تھیں ایسی پہیلیاں جو ہوش دلا دیں۔۔
میں نے اس چارٹ کو ہٹا کر اگلا چارٹ کھولا وہاں بھی اسکیچ تھا لیکن اسے سمجھنا مشکل نا تھا ایک عورت ناچ رہی تھی پاس ہی دو مرد بیٹھے شراب پی رہے تھے ساتھ نوٹ اس عورت پر اوچھال رہے تھی یہ تھا تصویر کا ایک رخ جبکے پنسل شیڈ کی مدد سے اسی کا عکس کچھ یوں بنا تھا وہ عورت ویسے ہی کھڑی ناچ رہی تھی لیکن آنکھوں میں نمی تھی نوٹ جو ہوا میں اچھل رہے تھے عکس میں وہ بچو کی شکل اختیار کرکے اس عورت کے پیر پر چپک گئے۔ اُس درد کی شدت تھی کے عورت کی آنکھیں رو رہی تھیں پاس بیٹھے دو مرد جو مشروب سے لطف ہو رہے تھے عکس میں انکا بدن نیلا تھا وہ مشروب نہیں حرام زہر اپنے اندر بھر رہے تھے جسکا نتیجہ صرف درد ناک موت ہے ایسی موت جو روز انکا مقدر بنے گی۔۔۔۔ ایک بار پھر اس پہیلی نے بھی مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا اور بےاختیار ایک سوچ میرے دماغ میں آئی وہ میرے اب تک کے رویہ کو کیا سمجھتی ہوگی؟؟ اسکے اسکیچز سے میں یہ تو جان گیا تھا وہ بیوقوف نہیں اور نہ بننے والی ہے۔ میں نے ایک گہرا سانس خارج کیا اور بےتابی سے اگلا اسکیچ کھول کر پچھلا ہٹایا۔۔
اگلا چارٹ پھر ایک پہیلی تھا تصویر کے دو رخ تھے لیکن یہاں عکس نہیں تھا دونوں اسکیچ تقریباً سیم تھے لیکن سمجھ سے باہر۔۔۔۔۔ ایک آدمی خود سے بڑی کتاب کے اندر بیٹھا لکھ رہا تھا جبکے ساتھ ہی یہی تصویر بنی تھی اور دونوں کے بیچ ایک لائن تھی یا یہ کہا جائے بائونڈری کے ذریعے دونوں کو سیپریٹ کیا گیا تھا لیکن دوسری طرف ایک عجیب بات تھی وہ یہ کے کتاب بند تھی اور آدمی بند کتاب کے اندر دبا ہوا تھا بڑی کتاب کے پنوں کے وزن سے دبا ہوا تھا شاید پنوں کے وزن سے وہ جان کی بازی ہار گیا تھا۔۔ لیکن اس پہیلی کا بھلا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟؟ میں اسی طرح سوچتا رہتا اگر جو میری نظر پاس لکھے چھوٹے سے ان حروف پر نا پڑھتی
“ Let Allah decide your future.. Indeed Allah is the best planner ”
میں سر کھجا کر رہ گیا اب بھی دماغ خالی تھا میں کافی دیر تحریر کو بار بار پڑھتا رہا ساتھ اس اسکیچ کو دیکھتا رہا اور اب جھنجھلاہٹ کے بجائے غصّہ آرہا تھا کاش وہ یہاں ہوتی سمجھاتی پھر اچانک ایک خیال میرے دماغ میں کلک ہوا ڈیسٹنی میرے منہ سے بےاختیار نکلا مطلب وہ شخص اپنی تقدیر خود لکھنے چلا تھا لیکن اگلا ورق بدلتے پنوں کا وزن سنبھال نا سکا اور وہیں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔۔۔ کتنی حیران کن بات ہے وہ شخص جو کچھ پل پہلے اپنی تقدیر لکھ رہا تھا اب بے جان پڑا تھا اسے احساس بھی نہ تھا کے اگلا لمحہ زندگی کا آخری لمحہ ہے۔ شاید اسلئے کہتے ہیں اللہ کے کاموں میں دخل نا دو بےشک اس نے بہترین سوچا ہوگا۔۔۔ میں نے اسکے بعد جو شروعات کی تو بس سوچنے کے بجائے میں اگلا چارٹ کھولتا چلا گیا۔۔۔
اس بار اگلا چارٹ ایک پل کو مجھے مشکل لگا لیکن اگلے ہی پل چند سوچوں نے اس پہیلی کا جواب بھی ڈھونڈ لیا اسکیچ کچھ یوں تھا ایک آدمی نے ایک عورت کے پیٹ میں چھرا گھونپا جو ویسٹرن ڈریس میں ملبوس تھی۔ جبکے پیچھے پانچ چھ لوگ کھڑے اس آدمی کے کان میں چلا رہے تھے چیخ رہے تھے جیسے اسے اُکسا رہے ہوں جبکے اسکے ساتھ ہی وہی سیم اسکیچ بنا تھا لیکن یہاں فرق اتنا تھا اس عورت کی خون سے لت پت لاش زمین پر پڑی تھی جبکے عورت یہاں ویسٹرن ڈریس کے بجائے شلوار قمیض میں ملبوس تھی اور آدمی گھٹنوں کے بل بیٹھا آنسوؤں بہا رہا تھا اور اب پیچھے سے وہ آوازیں آنا بند ہوگئیں تھیں وہ لوگ غائب ہو چکے تھے یا یہ کہا جائے آگ لگا کر جا چکے تھے یہاں نیچے لکھی تحریر نے جو میں پہلے ہی پڑھ چکا تھا ایک بار پھر اس پہیلی کو سلجھا دیا ” سوچ بدلو نظریہ بدل جائے گا “ آدمی نے جب اس لڑکی جو شاید نہیں بلکے یقیناً اسکی بیوی تھی اسے دنیاوی نظروں سے دیکھا تو وہ اسے ایک ماڈرن خاتون لگی جو خود کو ویسٹرن ماحول میں ڈھانپے ہوئے تھی جسے اسکے شوہر نے نہیں بلکے لوگوں کے الفاظوں نے مار ڈالا اور جب وہ لڑکی شوہر کو یقین دلاتے زندگی کی بازی اسکے ہاتھوں ہار گئی تو وہی لوگ اب اس آدمی کو تنہا چھوڑ کے نیا شکار ڈھونڈنے چلے گئے اور اب جب آدمی ان آوازوں سے آزاد ہوا تو اسے اپنی بیوی کا حقیقی روپ دیکھا جو خود کو مکمل طور پر ڈھانپے ہوے تھی اسکی پاک دامنی کا ثبوت وہ لوگوں کے الفاظوں میں ڈھونڈ رہا تھا اور اب وہی اسے تنہا کر گئے ساتھ جینے کی وجہ بھی لے گئے اور اب صرف یہ آنسوؤں تھے اور پچھتاوا تھا۔۔۔۔
اگلے چارٹ پر بنا اسکیچ بھی ایک پہیلی تھا جو مجھے کسی طور سمجھ نہیں آرہا تھا تین سیم اسکیچز بنے تھے بیج میں انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لئے بائونڈری بنائی گئی تھی اسکیچز کچھ یوں تھے کے ایک آدمی چاند کی طرف بڑھ رہا تھا جو اس کے بےحد قریب تھا یعنی آدمی اپنا ہاتھ چاند کی طرف بڑھا رہا تھا لیکن وہاں جس زمین پر وہ کھڑا تھا وہ ٹوٹی ہوئی تھی۔۔ بیچ میں دراڑ تھی جو اسے چاند کے پاس جانے سے روکے ہوئے تھی اگر وہ اس داڑار کے آگے بڑھتا تو یقیناً دوسری سائیڈ پہنچنے پر غلطی سے بھی پیر پسلنے پر وہ زمین کے اندر دھنس جاتا جبکے اگلے اسکیچ میں وہی آدمی جمپ مار کر زمین کے اس پار جاتا ہے اور تیسرے اسکیچ میں بلاآخر وہ چاند کو اپنی مٹھی میں دبا لیتا ہے لیکن یہ کیا؟؟؟ وہ اسے پاکر بھی خوش نہیں ہوتا چہرے پر اسے حاصل کرنے کی کوئی چمک نہ تھی یہ پھیلی بھی مجھے پہلے اسکیچ کی طرح مشکل لگی کافی دیر میں خود سے الجھتا اس پہیلی کو سلجاتا رہا لیکن دماغ جیسے اسکی خوبیاں دیکھ کر مفلوج ہو چکا تھا یہاں کوئی تحریر بھی درج نہ تھی جسے پڑھ کے میں سمجھ پتا تبھی میں نے اسے فولڈ کر کے سائیڈ پر رکھنا چاہا لیکن اسی پیپر کی دوسری سائیڈ پر کچھ لکھا دیکھ میں نے اسے الٹا کیا اور وہاں بڑے الفاظوں میں پورے چارٹ پیپر پر ایک خوبصورت تحریر لکھی تھی۔۔
” میں اسے حاصل کر کے بھی لاحاصل رہا “ اور یہ تحریر پڑھ کے نجانے کیوں میری دنیا ایک پل کو تھم سی گئی کیا لڑکی تھی وہ؟؟ کیا چھپا بیٹھی ہے دل میں کیا کوئی راز ہے یا کوئی شوق ہے؟؟ ہر طرف سے اشارہ تھا وہ اس چیز کی تمنا چھوڑ دے لیکن وہ شخص تھا کے بس اس لاحاصل کی چاہ میں اس سراب کے پیچھے بھاگتا رہا اور آج وہ پاکر بھی اس سے خوش نہیں شاید تبھی کہتے ہیں وہ تم سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے بہتر نہیں بہترین سوچا ہوگا۔۔۔۔۔
میری ہمت جواب دیگی لیکن یہ کھیل؟؟ نشہ سا تھا کوئی کے بس دل چاہ رہا تھا ان پہیلیوں کو سلجاتا رہوں میں نے اگلا چارٹ پیپر کھولا تو ایک مسکراہٹ میرے ہونٹوں کو آن چھوئی اس دن سے کون نہیں ڈرتا دو ایک جیسی تصویریں تھیں ایک میں ایک عورت اپنا زخمی بچہ جو تقریباً ساتھ آٹھ سال کا لگتا تھا اپنی گود میں لئے رو رہی تھی چہرہ پر تکلیف کا سایہ تک نا تھا بس آنسوؤں کا سیلاب بہتا نظر آرہا تھا سامنے ہی ایک آدمی خون سے لدی تلوار ہاتھ میں لئے کھڑا تھا جس سے اسنے سامنی بیٹھی اس عورت کے بیٹے کا بےدردی سے قتل کیا تھا بچے کے پیٹ میں ہوا زخم اور خون صاف واضع کر رہا تھا آدمی نے اسکا قتل کیا ہے۔۔۔ جبکے خود وہ شخص اس پوزیشن میں کھڑا تھا کے کوئی بھی شخص محسوس کر سکتا تھا کے وہ تکلیف میں ہے وہ ایک ٹانگ اوپر کیے ہوے تھا اور چہرے پر واضع کربناک تکلیف کے سائے لہرا رہے تھے۔۔ جبکے دوسرا اسکیچ اس سے تھوڑا مختلف تھا وہی عورت ریگستان کے بجاۓ ایک خوبصورت باغ میں بیٹھی تھی اور اپنی گود میں سوتے بیٹے کو محبت سے دیکھ رہی تھی جسکے ارد گرد کہیں بھی خون نہ تھا سفید لباس میں وہ بےحد حسین لگ رہا تھا جب کے سامنے وہی آدمی ہاتھ میں تلوار لیے کھڑا تھا اس ریگستان میں تپتی دھوپ میں اور پیڑوں کے نیچی سے تپتی آگ زمین کے اوپر آرہی تھی جس سے وہ خود کو بچانے کی مکمل کوشش کر رہا تھا۔۔ اپنے پیروں کی مدد سے جنکو وہ کبھی اوپر کرتا تو کبھی نیچے پہلی تصویر میں دایاں پیر اوپر تھا اور دوسری تصویر میں بایاں جس سے کوئی بھی انسان اس تصویر کی صورت حال کا اندازہ لگا سکتا ہے اسکی سزا صرف یہاں نہیں اُسی زندگی میں شروع ہو چکی تھی بس فرق یہ تھا وہاں وہ جھٹلاتا تھا لیکن یہاں نا دنیا تھی نا لوگ تھے بس کربناک سزا تھی ۔۔۔
” جسم سے نکلے اس لہو کا حساب تو روز قیامت کے دن دیگا۔۔ “ قیامت لفظ پڑھ کے میرا دل کانپ اٹھا میں نے دھڑکتے دل کو سمبھالنے کے لیے تیر کی تیزی سے دوسرا چارٹ پیپر نکالا لیکن یہ کیا؟؟؟؟
اگلا چارٹ دیکھ کر مجھے شرمندگی نے آن گھیڑا ایک لڑکی بےلباس زمین پر پڑی تھی ارد گرد میڈیا والے کٹاکٹ اسکی تصویریں لے رہے تھے جبکے پاس سے گزرتے لوگ بھی کیمرہ لیے لڑکی کی لاش جو بُری طرح خون سے لت بت تھی اسکی تصویریں بنا رہے تھے۔۔۔ بےحس لوگوں کے بیچ بھی یہ بےجان چیزیں اور بےزبان جاندار آخر کیسے احساس رکھتے ہیں؟؟ ہاں وہ بےزبان چڑیا نیچے بیٹھی اپنے پر پھلائے اس لڑکی کے وجود کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی آسمان سے برستی بارش لڑکی کی بےبسی کا ماتم کر رہی تھی سامنے سخت پہاڑ سے بہتا پانی بھی چیخ چیخ کر کہ رہا تھا
” بےحس لوگوں کچھ تو احساس کرو “ ہاں بےجان چیزیں بھی میری طرح اسکا ماتم کر رہیں تھیں یہاں پہاڑ پر اسنے ایک بڑی آنکھ بنائی تھی ایسا لگ رہا تھا وہ پہاڑ بےجان نہیں دیکھ سکتا ہے اور دیکھ رہا ہے اور اسی آنکھ سے وہ پانی اس لڑکی کی بےبسی پر بہ رہا تھا یہاں بھی اس نے پھر ایک تحریر درج کی تھی۔۔
” اور پھر بھی دنیا کہتی ہے زلزلے کیوں آتے ہیں یہ نہیں دیکھتے زمین بیچاری بھی آخر کتنا گناہ کا بوجھ اٹھائے؟؟ “ میں نے قرب سے آنکھیں بند کیں اور سر ہاتھوں میں دیے اس چارٹ کو ہٹایا پھر خود کو ریلیکس کر کے اگلا چارٹ کھولا جو بےحد عجیب تھا یا یہ کہا جائے میری سمجھ سے باہر ایک حسین لڑکی سفید لباس میں ملبوس تھی اسکے سامنے ہی ایک سانولی لڑکی کھڑی تھی جو سیاہ لباس میں ملبوس تھی بےشک وہ سانولی تھی لیکن پُر کشش تھی جیسے سانولا روپ بنا ہی اسکے لیے تھا جو اس پر خوب جچ رہا تھا۔ اب ایک عجیب چیز جسے دیکھ کر میرا سر چکرا گیا سانولی لڑکی پر ایک سایہ تھا جو حسین لڑکی کا تھا لیکن یہاں وہ حسین نہیں سانولی تھی جبکے حسین لڑکی پر سانولی لڑکی کا سایہ تھا اور وہ بےحد حسین لگ رہی تھی سانولے روپ کی جگہ اب حسین چہرہ اسکی قسمت نکھار رہا تھا لیکن نجانے کیوں مجھے وہ خوبصورت نہیں لگی سانولے روپ میں جو اس پر کشش تھی وہ اس حسین روپ میں کہاں؟؟؟ میں نے اب کے تصویر سے نظر ہٹا کر بےتابی سے تحریر پڑھی لیکن وہ تحریر بھی میری پلے نا پڑھی وہاں لکھا تھا۔۔۔۔
” حسد نے مجھے جلا ڈالا آج میں اسکی اور وہ میری زندگی جی رہی ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے وہ میری زندگی جی کر بھی خوش ہے اور میں اُسکی زندگی جی کر بھی برباد ہو چکی ہوں۔۔“
میرا ذہن ایک پل کے لیے سُن ہوگیا سانولی لڑکی پر مجھے رابیل کا گمان ہوا پھر کیا تھا ذہن میں ایک عجیب سی جنگ چل رہی تھی دل بار بار چاہ رہا تھا اُسے بُلا کر سب کچھ پوچھوں مگر یہ انا انسان کو ذلیل کردے گی لیکن جھکنے نہیں دیگی بےچینی میری رگ رگ میں سرایت کرنے لگی۔۔۔
ایک ایک لمحہ میری آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہا تھا میں نے بھی تو اسے سانولی کہا تھا اسکے سیاہ نصیب کا طعنہ دیا تھا۔ خاص میری جستجو تھی کوئی ایک خاصیت ہو لیکن ایک نہیں وہ پوری خاص تھی ہاں جو بھری محفل میں میری عزت کی حفاظت کرے جسکا دل لوگوں کے لئے احساس رکھے جس کی پہیلیاں مجھے خود میں جکڑ دیں وہ عام نہیں ہو سکتی وہ تو خاص ہے بہت خاص۔۔۔۔ اور بےاختیار مجھے اس دن کا منظر یاد آیا جب اس نے اپنا اور میرا نام لکھا تھا اور میں نے اس خوبصورتی کو اپنے نام اپنے وجود اپنے ان ہاتھوں سے سیاہ کیا تھا۔۔۔۔
” زندگی برباد کردی میری اپنی کالی شکل کی طرح میرے نصیب بھی سیاہ کردیے کوئی ایک خوبی کوئی ایک خاصیت نہیں جو میری نظروں میں تمہیں اوروں کے برابر تک کا ثابت کر سکے۔ تم صرف میرے وجود پر لگا سیاہ دبا ہو جس کے آنے سے مجھ سے سب کچھ چھن گیا سب کچھ۔۔۔۔ آئی ہیٹ یو رابیل نفرت ہے مجھے تم سے۔۔ شدید نفرت۔۔ “
میرے اپنے ہی الفاظ مجھ پر ہنس رہے تھے اوروں کے برابر؟؟ وہ کیوں اوروں کے برابر ہوگی وہ تو اوروں سے مختلف تھی بہت مختلف جسکی خاصیت جسکے ہنر نے اسے میری نظر میں ایک خاص مقام دیا ہے ہاں خاص وہ خاص ہی تو ہے میں نے آج دل سے اقرار کیا تھا اور یہ اقرار تھا خاص جذبہ تھا یا نجانے اس پاک رشتے کی بنی ڈور تھی کے میں آج خوش تھا میرا دل خوش تھا۔۔
میں نے ایک بار پھر اسکا اگلا چارٹ پیپر نکالا کھیل دل چسپ تھا اور میں اسکا عادی ہو رہا تھا اگلی پہیلی مشکل نہ تھیں لیکن میری آنکھیں پتھرا گئیں اس پہیلی نے آج مجھے جھنجوڑ کے رکھ دیا وہ ایک چارٹ پیپر نہیں تھا تین چارٹ پپرز ساتھ اسٹیپل تھے لیکن کہانی ایک ہی ہستی کی تھی” دلہن “ ہاں سب سے اوپر یہی ایک لفظ لکھا تھا اس چارٹ پیپر میں ایک بڑی سی آنکھ بنی تھی جو پورے چارٹ پیپر کو کور کر رہی تھی اس آنکھ کے اندر ایک لڑکی اپنی سر پر دوپٹا رکھے مسکرا رہی تھی آگے وہی لڑکی دلہن کے لباس میں ملبوس کانوں پر ہاتھ رکھے سسک رہی تھی سامنے اسکا شوہر کھڑا اس پر چلا رہا تھا چیخ رہا تھا اس سے آگے وہی شوہر اسکے گال پر تھپڑ مار رہا تھا اور لڑکی گھر کے عام حلیے میں ملبوس شرٹ ہاتھوں میں لئے کھڑی رو رہی تھی۔ پھر دو ننھے بچوں کو خود سے لگاے مسکرا رہی تھی اس سے آگے وہ آدمی پانچ چھ عورتوں کے سامنے کھڑا محفل میں اپنی بیوی پر چلا رہا تھا اور وہ ننے بچے باپ کے پاس کھڑے رو رہے تھے۔ اس بڑی سی آنکھ میں یہیں تک کا تھا لیکن کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی میں نے اسی چارٹ پیپر کو پلٹتے ہوے اگلا کھولا تو ایک پل کو سن سا رہ گیا ایک بڑا سا ہاتھ آنکھ کی پتلی کو نوچنے والا تھا اور آنکھ کی پتلی خوف سے پھیلی ہوئی تھی میں نے اسی کہانی کا اگلا پنا دیکھا تو وہاں وہ آنکھ بند تھی اور اس بند آنکھ سے ایک ننا موتی ٹپک رہا تھا نیچے ہر بار کی طرح ایک تحریر لکھی تھی۔۔۔
” نوچ کر ان آنکھوں سے خوب وجود کو زندہ کیوں چھوڑ دیا؟؟؟ “
میں نے دکھتے سر کو دبایا تو اس لڑکی کی پوری زندگی میری آنکھوں کے آگے ایک بار پھر چلنے لگی وہ لڑکی اپنی سر پر دوپٹا رکھے آئندہ آنے والی زندگی کے خواب سجا رہی تھی پھر دلہن کے لباس میں ملبوس وہ کھڑی اپنے شوہر کے غصّے میں بولے زہریلی الفاظ اپنے اندر اتار رہی تھی کبھی اسکے تشدد کا نشانا بنتی تو کبھی محفل میں بےعزتی کا پھر دو ننھے پھولوں نے بھی اس بےرحم آدمی کے دل میں رحم نا ڈالا اور اس لڑکی کی آنکھ سے خواب نوچ لیا آنکھ سے نکلا وہ ہاتھ جو پتلی کو دبائے ہوے تھا وہ مجھ جیسے سخت انسان کو بھی نرم کر گیا اور اگلا کاش میں یہ پہیلی نا دیکھتا وہ آنکھ بند ہوگئی ہاں وہ خواب ٹوٹ گئے وہ پہیلی سلجھ گئی وہ زندہ تو ہے لیکن ایک بےحس جسم کی طرح جس کی روح آج تک تڑپ رہی ہے بھٹک رہی ہے۔۔۔۔
میں نے وہ تینوں چارٹس فولڈ کے تو آخری پنے پر بھی تحریر تھی۔۔۔۔” اے ابنِ آدم انکار کرو لیکن برباد مت کرو “
کہانی تو پہلے ہی سمجھ چکا تھا لیکن یہاں وجہ ناپسندیدگی ہے مجبوری کے بندھے بندھن میں دو انسانوں کی ہے۔۔۔ ایک تو اپنا غصّہ اس ہستی پر نکال لیتا لیکن دوسرا سہہ کر دنیا کے سامنے بےحس بن جاتا۔۔
ایک نشہ سا ہے اسکی پہلیوں میں جس میں میں ڈوبتا جا رہا ہوں۔ وہ یہ سب کیسے سوچ لیتی ہے؟؟ کیا کچھ ہوا ہے؟؟ لیکن کب کہاں؟؟ وہ تو پل پل میری سامنے رہی ہے؟ لیکن اسکا نظریہ اوروں سے مختلف کیوں ہے؟؟ وہ اِس زندگی کو چھوڑ کے اُس زندگی کو کیوں سوچتی ہے؟؟ اور یہ سب کیسے آتا ہے اسکے دماغ میں؟؟ میں اسکی پہیلیوں کی تحریر پڑھے بغیر انہیں کیوں نہیں سلجھا سکتا؟؟؟ اسکا نظریہ مجھے کیوں نہیں سمجھ آتا مجھے کیوں نہیں دکھتا چھوٹی عمر سے وہ یہ سب کیسے سوچتی ہے؟؟ اور کہاں دیکھتی ہے؟؟ میرا دل دماغ آج چیخ چیخ کے بس ایک ہی الفاظ دوڑا رہا تھا
” خاص “