چاہے وہ کتنا ہی عاشی کو تنگ کیوں نا کریں لیکن تینوں ماں کے پہلو سے ایسے چپکے رہتے جیسے کسی نے گوند سے چپکایا ہو۔ عاشی کی ایک آواز نہیں نکالتی کے تینوں بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوجاتے۔۔۔
اکثر جب کہیں سے میں لوٹتا تینوں کی لڑائی عاشی کے بالوں پر ہوتی وہ اپنی کمر جتنے لمبے بال کھولے ٹی وی کے آگے بیٹھی انگور کھا رہی ہوتی تب کوئی ایک اسکے بالوں میں کنگی کرتا جبکے باقی دو اپنی باری کے انتظار میں عاشی کے ساتھ بیٹھے ہوتے۔۔۔
” مما “ سمان نے اپنا منہ پیچھے سے عاشی کی گردن پر رکھا اشارہ تھا کے انگور کھلائے جو عاشی تینوں کے منہ میں باری باری ڈالتی۔۔ عاشی نے انگور اٹھا کر سمان کے منہ میں ڈالا اسکے کھانے کا انداز ایسا ہوتا کے منہ بند کر کے کھاتا اور گال پورے پھول جاتے تینوں ہی رنگ میں ہو با ہو عاشی کی کاپی ہیں۔ سلمان عاشی کی گود میں بیٹھا تھا اور ہاتھ میں انگوروں سے بھرا بائول تھا جبکے سائیڈ پر ارحم بیٹھا تھا جو عاشی کے بازو پر سر رکھے ٹانگیں پھلائے لیٹا تھا۔۔۔
عاشی نے جیسے ہی مجھے دیکھا اٹھنا چاہا کے سلمان تیزی سے بولا۔۔
” مما اب میلی بالی “
(مما اب میری باری)
سلمان تیزی سے اٹھا اور سمان سے کنگی لیکر عاشی کے بالوں میں کومب کرنے لگا جبکے سمان اب اسکی گود میں بیٹھا سلمان کی سیٹ سنبھال چکا تھا انگوروں کا باؤل ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔۔
” تم بیٹھی رہو اٹھیں تو تینوں میری جان کو آجائیں
گئے۔ “ اور میری آواز سنتے ہی ارحم جو لیٹا ہوا تھا بابا بابا چلاتے اٹھ کھڑا ہوا اب تینوں مجھ سے چپکے ہوے تھے ایک میرے سینے سے لگا تھا دوسرے نے بازو پکڑا تھا تیسرے کو میں نے اوپر اٹھا کے یعنی سلمان میرے بڑے بیٹے کو اسکے گال چومے۔۔۔
عاشی مجھے پھنسا کر نجانے چپکے سے خود کہاں چلی گئی میں نے نظر دوڑائی تو وہ کہیں نہیں تھی پھر کچھ دیر میں چائے کے دو کپ لیے وہ کمرے میں حاضر ہوئی ساتھ شامی کباب بھی تل کے لائی تھی۔۔۔
” صبح سے کہاں تھے آپ “ میں نے بازوں میں سوئے ارحم کو آرام سے تکیے پر لٹایا میں خود بھی سلمان کی مالش کرنے سے غنودگی میں جانے لگا تھا کے عاشی کو دیکھ کر دن بھر کی تھکن ہی اتر گئی۔۔۔
” بس ایک کام تھا۔۔ “ لیا دیا سا جواب دیکر میں نے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگایا۔۔۔
” پھر ہوا یا نہیں؟؟ “
” تم نے دعا دی تھی کیسے نا ہوتا “ سلمان کو کباب کھلاتے میں عاشی سے مخاطب تھا۔۔۔ سلمان اب تک میرے بالوں کی مالش کر رہا تھا اور ان ننے ہاتھوں کے لمس سے مجھے بےپناہ سکون مل رہا تھا۔۔۔
” ایک اسکے بچے ہیں ماں کو بچپن سے سکھ دے رہ
ہیں اور یہ خود “ بابا نے پلیٹ لاتے سمان کو دیکھ کر کہا بابا اور میں ڈائننگ ٹیبل کے گرد بیٹھے کھانے کا انتظار کر رہے تھے۔ امی بھی پانی کا گلاس اور جگ لاکر ہمارے ساتھ ہے آ بیٹھیں۔۔
تینوں بچے اسکول سے آتے ہی ایسا تھک جاتے تھے کے کھانا کھا کر فوراً سوجاتے لیکن ڈنر ٹائم پر عاشی کے آگے پیچھے گھوم کر اسکے ساتھ سارا کام کرواتے جیسے دو دو کر کے پلیٹس رکھتے سالن کا ڈھونگا ارحم اور سلمان ساتھ پکڑ کے لاتے پھر بابا انکے ہاتھ سے لیکر ٹیبل پر رکھتے۔ امی روٹیوں سے بھرا ہاٹ پاٹ لاتیں تو وہ بھی ضد کر کے ارحم یا سمان انکے ہاتھ سے لے لیتا۔۔
” نا بچپن میں ماں باپ کو سکھ دیا نا جوانی میں “ طنز اور بابا نا کرتے کیسے ممکن تھا؟؟؟
” برھاپے میں انشااللہ دونگا “ انکی خوائش کا احترام کر کے میری زبان پھسلی امی نے مجھے گھور کر دیکھا میری اس حاضر جوابی پر۔۔
” میں نے امید ہی چھوڑ دی ہے “ بابا نے کلس کر کہا۔۔
” یہ تو اور اچھا ہے “ میری ہلکی بڑبڑاہٹ انکے کانوں تک پہنچی اسکا ادرک بعد میں انکے کیۓ طنز پر ہوا۔۔۔۔
” کھانے کی تمیز نہیں یہ ہاتھ کس لیے ہیں جو چمچ سے کھا رہے ہو ؟؟؟ سیکھو اپنی اولاد سے بچے ہوکر عقل گھوڑے کی طرح استمعال کرتے ہیں اور تم عقل پر زنگ لگا کر بیٹھ گئے ہو “ ابو نے تینوں بچوں کی مثال دے کر کہا جو اب کے دادا کی تعریف پر دیدا دلیری سے احترمً روٹی توڑ رہے تھے جیسے روٹی نہیں کانچ کی گڑیا ہے چبا کر کے نہیں احترامً نگل کر کھانا ہے۔۔ نوٹنگی تینوں کے تینوں۔۔۔میں کلس کر رہ گیا۔۔۔
” وہ روٹی کھا رہے ہیں اب نیا طریقہ تو چمچ سے روٹی کھانے کا ایجاد نہیں ہوا؟؟ دوسری بات یہ چاول مجھے اوور بوئل پسند ہیں یہ والے تو ہاتھ میں ہی نہیں آرھے ہاتھ میں لو واپس نیچے ڈبکی لگا کر لیٹ رہے۔۔۔ “
میں نے انکی سختی کا جواب عام سے انداز میں دیا اب چاول ایسے تھے کے ہاتھ میں لو تو واپس گر رہے تھے امی کو اتنی دفع کہا ہے اوور بوائل کیا کریں تاکے ایک دوسرے سے تھوڑا تو چپکیں بندہ ہاتھ میں تو لے سکے پر نہیں جی تمہارے ابا کو ایسے ہی پسند ہیں۔۔۔
” چلے تھے آرمی آفسر بنے؟ ؟ یہ چاول ہاتھ نہیں آرھے مجرم کیا خاک ہاتھ آتا؟؟ اور اس عمر میں ہی چاول حلوے کی طرح چاہیں؟؟ بہادری دیکھو صاحب زادے کی اسلئے آج یہاں بیٹھے ہو بوڑھوں کو بھی مات دے دی۔۔
سفا کل سے اسکے لیے نرم کھانے بنانا حلوے کی طرح صاحب زادے کا معدہ کڑک چیزیں ہضم نہیں کرتا۔۔ “
میرے بےعزتی پر تینوں محترم کھی کھی کر کے ہنس رہے تھے جب کے پاس بیٹھی عاشی نے میرے پیر پر پیر رکھا کر اپنی نصیحت یاد دلائی ” جتنا بحث کروگے سامنے والا اتنا تنگ کریگا پلیز آپ ہی چھپ ہوجایا کریں “ لیکن اس دفع میں نے اسکی نصیحت ان سنی کی۔۔۔
” الحمدللہ میرا ہاضمہ بلکل ٹھیک ہے طنز کرنے والوں کا کچھ کہہ نہیں سکتا جب کھانا سہی سے ہضم نہیں ہوتا تبھی منہ سے طنز کر کے دوسرے کا ہاضمہ بھی خراب کر کے پر سکون ہوتے ہیں۔۔ عاشی میری چائے روم میں لیکر آؤ “ میں جلدی سے چاول ختم کرکے اٹھ کھڑا ہوا بابا کو میری بات کتنی ناگوار گزری انکے چہرے سے صاف پتا لگ رہا تھا۔۔۔۔
” یہ کیا کر رہے ہیں اللہ میرا بیٹا “
عاشی مجھے اور سلمان کو دیکھ کر چیخ اٹھی چائے رکھ کر بھاگتی ہوے میری گردن سے ٹانگ لٹکائے سلمان کو نیچے ہوکر اٹھایا۔۔
میری عزت افزائی کے دوران یہ صاحب دانت نکال کر ہنس رہے تھے غصّہ مجھے بڑا آیا لیکن بابا کے سامنے ٹوکنا یعنی اپنی مزید بےعزتی کروانا ہے۔ اسلئے کمرے میں آتے ہی سلمان کو اٹھا کر میں نے اسکے پاؤں اپنے گردن پر ڈالے جس پر سلمان نے میری گردن پر رکھے دونوں پیروں کو قریب کر کے گرفت مضبوط کی۔۔ سلمان کی منڈی نیچے لٹکی ہوئی تھی اور دونوں ہاتھوں کو میں نے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ میں تو صاحب زادے کی عقل ٹھکانے لگانے والا تھا مگر یہ تو ایکسرسائز کرنے لگے الٹا حکم دیا۔۔
” بابا میرے بازو اوپر نیچے کرنا “ وہ ہنستا ہوا بولا۔ میں نے بھی اپنے بیٹے کی فرمائش جاری رکھی لیکن عاشی جو اب جذباتی ماں تھی آتے ہی بیٹے کو پکڑ کے نیچے اتارا اور سینے سے لگا لیا جیسے بڑا جنگ لڑ کے آیا ہے۔۔
” یہ کیا فضول حرکت ہے؟؟؟ مار کھاؤ گئے مجھ سے۔۔ آئندہ یہ حرکتیں کیں تو دیکھنا ہینگر سے مارونگی “ پیار کرنے کے بعد اب کے وہ بُری طرح سلمان کو ڈانٹ رہی تھی جو ضبط کے مارے سرخ پڑ چکا تھا عاشی نے اسکا بازو چھوڑا اور منہ پھلائے ٹی وی اون کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔
” کیا ہوا جامِ شیریں “ چھوٹی چھوٹی بات پر اسے سرخ پڑتا دیکھا اکثر میں اسی نام سے اسے پکارتا۔۔۔
اب بھی اسکا گال نرمی سے چھو کر اسکی گود میں سر رکھے لیٹ گیا۔۔۔
” بابا نے سر درد دے دیا ہے سر دبا دو “
” مما نینی آلہی “ میں نے ابھی خوائش ظاہر نہیں کی تھی کے پلٹن آگئی اپنے مسلے لیکر سمان مجھے عاشی کے گود میں سر رکھے دیکھ اپنی ریموٹ کار چھوڑ کر بھاگتا ہوا پیچھے سے عاشی کے گلے میں باہیں ڈال کر کھڑا ہوگیا۔۔۔
”میری مما ہے “ گھور کر وہ مجھے وارنیگ دے رہا تھا کے گردن ہٹاؤ صرف میری مما ہے۔۔
” یار انکے سامنے تو بندہ بیوی سے خدمتیں بھی نہیں کرا سکتا۔۔“ میں نے بگڑا منہ بنا کر کہا عاشی نے ہنستے ہوے میرا سر اپنی گود سے اٹھایا اور تینوں کو پکڑ کے بیڈ پر لیٹا دیا۔ آج وہ سلمان کو اپنے قریب کر کے لیٹی تھی جو اب ناراضگی بھلائے ماں سے چپک کر سونے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
اکثر یہی حال ہوتا ہے۔ تینوں میری بیوی پر ایسا حملہ کرتے ہیں کے میں اپنی ہی بیوی کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لیے ترستا رہ جاتا ہوں۔ یہ تینوں چوبیس گھنٹے کسی سائے کی طرح ماں کے پیچھے رہتے ہیں اب آج ہی کی بات ہے۔ عاشی اور میرے کزن ہاشم کی آج شادی ہے۔ تینوں محترم کو عاشی نے آٹھ بجے ہی تیار کر کے بیٹھا دیا۔ تینوں اس وقت سفید شلوار قمیض کے اوپر ویسٹ کوٹ پہنے اپنی ماں کو دیکھ رہے تھے جو کپڑے میک اپ جوتے سب لاکر بیڈ پر رکھ رہی تھی۔۔۔
میں گہری نظروں سے اسکی تیاری دیکھ رہا تھا۔ اپنے ولیمے میں پہنے لانگ گھیرے دار فروک میں آج بھی وہ ویسی ہی حسین لگ رہی تھی۔ اب ڈریس پہنے کے بعد میک اپ کے لیے وہ ایک ایک کو آوازیں دے رہی تھی۔۔
” لائنر “
” مما لائنر “ ارحم جو پہلے سے لائنر پکڑے بیٹھا ہوا تھا اسکی ایک پکار پر بھاگتا ہوا آیا۔۔۔۔
” مسکارا “ وہ مرر کے سامنے رکھی چیر پر بیٹھی تھی ہاتھ میں چھوٹا سا شیشہ تھا جس پر نظریں گاڑھے وہ لائنر دوسری آنکھ پر لگائے اب مسکارہ مانگ رہی تھی۔۔
” مما مشکالا “ اب کے سلمان ایک پکار پر حاضر ہوا اور لائنر لیکر مسکارا پکڑا دیا۔۔۔
” کاجل “
” مما تادل “ سمان جو اپنی باری کے انتظار میں اپنا پسندیدہ کاجل پکڑے بیٹھا تھا جھٹ حاضر ہوا۔ اب تینوں نے دوسری چیزوں پر قبضہ کرلیا۔ جیسے ایک نے ایرینگس دوسرے نے ہار اور تیسرے نے چوڑیاں اب تینوں کو بلاکر عاشی نے باری باری ان سے سیٹ لیے اور پہنے لگی۔۔۔۔
” بس ہوگیا یا کچھ اور ہے؟؟؟ “ یہ کوئی پانچویں دفع کا پوچھا گیا میرا جملہ تھا۔۔
کبھی جامِ شیریں کہتی ہیں ہیر اسپرے رہ گیا۔۔۔
کبھی رنگس پہنا ہے۔۔۔۔
کبھی دوپٹا سیٹ کرنا ہے۔۔۔۔
اور اب۔۔۔۔
” لپسٹک رہ گئی “ معصومیت کی انتہا تھی میں یہاں لیٹ ہونے کی وجہ سے جھنجھلا رہا ہوں اور وہ معصومیت سے ہر بار کچھ نا کچھ رہنے پر بچوں کی سی شکل بنا کر میرے غصّے کو روک رہی تھی۔۔۔
” مما۔۔۔ لے۔۔ “ تینوں بوتل کے جن کی طرح اپنا اپنا پسندیدہ شیڈ یا یہ کہا جائے ماں جو زیادہ لگاتیں ہیں لیکر حاضر ہوگے۔ اب ایک الگ جنگ چھڑ گئی کس کا لگاے؟؟؟؟ میں نے اٹھ کر آرام سے اسکی لپسٹک کلیکشن میں سے ہلکا شیڈ نکالا میرے ہزار بار منع کرنے کے باوجود وہ ڈارک شیڈز یوز کرتی ہے جو مجھے ایک آنکھ نا بھاتے مطلب جو نہیں دیکھ رہا وہ بھی دیکھنے لگ جائے۔۔۔
” مجھے یہ پسند نہیں “ اسکا وہی جملہ منہ پھلائے وہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر رہی تھی۔۔۔
” نہیں مما میلا “
” نہیں میلا “
لو جسکا انتظار تھا وہ ہوگیا
” تینوں اپنی پکڑی ہوئی لپسٹک دو میں ہاتھ میں گھوما کر چھوڑدونگا جو پہلے نیچے گری وہی لگانی ہوگی۔۔۔“ میں نے کہے مطابق تینوں سے لی اور اپنی پسندیدہ پہلے نیچے گرائی میری چالاکی پر عاشی نے مجھے سخت گھوری سے نوازا۔۔
” یہ لگاؤ مجھے وہ فضول نہیں پسند اور جلدی آؤ میں اانتظار کر رہا ہوں “ میں اسے سختی سے وارن کر کے روم سے باہر نکلنے لگا کے پیچھے سے اسکی آواز آئی۔۔۔
” میں نہیں آرہی “ مسکراہٹ میرے ہونٹوں کو چھو گئی جب وہ کار میں آکر بیٹھی تو ہونٹوں پر وہی شیڈ لگا ہوا تھا لیکن میڈم نے ریڈ لپسٹک کا شیڈ بھی اسکے ساتھ ملاکر ایک الگ ہی شیڈ ایجاد کیا جو اسکے ہونٹوں پر خوب جج رہا تھا۔۔۔
” کیسی لگ رہی ہوں؟؟؟ “ تینوں بچے پیچھے بیٹھ گئے۔ میں ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا کے عاشی کے سوال پر دبی دبی مسکراہٹ میرے ہونٹوں کو چھو گئی۔۔۔۔
” نئی نویلی دلہن “
” آپ مذاق اڑا رہے ہیں؟؟ “ عاشی صدمے سے بولی
” نہیں تم بہت پیاری لگ رہی ہو بلکل میری نئی نویلی دلہن “ ایک گہری نظر اس کے وجود اور ڈالتا مخمور لہجے میں بولا۔ وہ سٹپٹاتے منٹوں میں رخ بدل گئی اب پوری توجہ شیشے کے اُس پار چلتی گاڑیوں پر تھی چہرے ٹماٹر کی طرح بلش اون اور شرم سے سرخ پر چکا تھا۔۔۔۔
شادی حال پہنچتے ہی وہ عورتوں کے پورشن میں چلی گئی ارحم اور سمان کو لیکر جبکے سلمان کو میں اپنے ساتھ مردوں والے پورشن میں لے گیا۔۔۔
” مما تے پاش دانا “ کھانا کھانے کے بعد سلمان نے ضد پکڑ لی لیکن میں نے دھمکی دے کر ابھی بات کو ہی ٹال دیا۔۔۔۔۔
” پہلے یہ کسٹرڈ کھاؤ ورنہ مما ہمیں چھوڑ کر سمان اور ارحم کے ساتھ گھر چلی جائیں گی “ چھوڑ کر جانے کا سن کر سلمان کی آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ جلدی جلدی کسٹرڈ کھانے لگا ساتھ میں ایک دو نوالے بریانی کے اسکے منہ میں ڈالتا رہا۔۔
بابا اپنے بھائیوں کے ساتھ بیٹھے گپ شپ میں لگے تھے اور ہم کزنس آپس میں بیٹھے ہوے تھے۔ سلمان انہی کے بیٹوں کے ساتھ پورے حال میں گھوم پھر کر ابھی کچھ دیر پہلے کھانے کے لیے بیٹھا تھا۔۔
” چلو اب اندر جاکر مما کو بلا لاؤ میں یہیں ہوں “ سلمان کو لیڈیز پورشن میں چھوڑ کر میں باہر آکر کھڑا ہوا کچھ دیر بعد ہی وہ ہانپتا ہوا میرے پاس آیا۔۔
” پاپا۔۔۔ مما۔۔۔ لو۔۔۔ لئیں “ سلمان کی بات نے میرا دماغ پل بھر میں ماؤف کردیا اسے چھوڑ کر بھاگتا ہوا میں اندر گیا لیکن وہ پیچھے سے چلایا۔..
” پاپا اُدھل “ پیچھے مڑ کر سلمان کو تیزی سے اٹھا کر میں اسکے بتائی گئی جگہ پر پہنچا اور وہاں جو منظر دیکھا میرا خون کھول گیا۔۔۔۔۔
وہ بددماغ شخص کافی دفع میری برین واشنگ کر چکا ہے لیکن میں نہیں جانتا تھا کچھ لوگ اعتبار کرنے کے معملے میں ٹوٹے کانچ کو بھی مات دے دیتے ہیں جیسے عاشی کے بابا۔۔۔
یعنی وہ نفرت صرف حسن کے جلنے سے نہیں بلکے دلوں کو راکھ کر کے پیدا کی تھی اس کمینے موحد نے۔۔۔
جتنے تھپڑ میں نے ان ہاتھوں سے موحد کو مارے تھے اتنے ہی تھپڑ عاشی کے پاپا نے رشتوں کے اعتبار ٹوٹنے کے کھاۓ تھے جس شخص کو انہوں نے اپنی بیٹی پر فوقیت دی آج اُس نے ہی انکا سر بیٹی کے سامنے ہمیشہ کے لیے جھکا دیا۔۔۔۔۔
” پریشان ہو؟؟ “ میں اسے لیکر کار میں آبیٹھا۔۔ سلمان ارحم پیچھے بیٹھے تھے جبکے سمان اسکی گود میں بیٹھے بیٹھے اب سو چکا تھا۔۔۔
” نہیں حیران ہوں۔۔۔ کیا بیٹی سے زیادہ غیر بھروسے کے لائق ہیں؟؟ “ اسکی بھرائی ہوئی آواز اسکے مان ٹوٹنے کا ماتم کر رہی تھی۔۔
” نہیں لیکن کبھی کبھی انسان کی عقل پر ایسا زنگ لگ جاتا ہے کے پوری زندگی اسے ہٹانے میں گزر جاتی ہے “ میں نے ڈرائیونگ کرتے کہا وہ خاموش رہی گھر پہنچتے ہی میں نے سوئے سمان کو بازوں میں اٹھایا عاشی سلمان اور ارحم کا ہاتھ پکڑ کے اندر چلی گئی کار لاک کرتے ہی میں بھی اسکے پیچھے چل دیا۔۔۔
میرے ایک جھوٹ نے میری بیوی کے کردار پر لگا وہ داغ مٹا دیا میں نے ہی موحد کے ہائر کیے انسپکٹر سے کہا تھا کے جھوٹ بول کر کیس کلوز کردے۔ یہ اٹیک افشین کی دوست پر ہونا تھا غلطی سے افشین پر ہوگیا یہی ایک راستہ تھا جس سے مومی اور عاشی دونوں لوگوں کے زہریلے تیروں سے بچ سکتی ہیں۔ کیوں کے اگر مومی سامنے آگئی تب بھی تباہی سب کی ہی اور میں جانتا ہوں عاشی کبھی بھی اسکی بربادی نہیں چاہے گی۔ مومی آج بھی ویسی ہی ہے اللہ نے اُسے چاند جیسے خوبصورت بیٹے سے نوازا ہے جو ہو با ہو موحد کا عکس ہے لکین آج وہ شوہر کی محبت سے محروم ہے اور میری دل سے دعا ہے جلد اللہ اُسکے شوہر کا دل اسکے لئے نرم کرے۔۔۔۔۔
” دادو کے پاش جانا “ روتے ہوے ارحم نے خفگی سے کہا اس وقت غصّے سے وہ بھری ارحم کا ٹرائوزر اُتار رہی تھی کے ارحم کے تنگ کرنے پر ایک تھپڑ اسکے چہرے پر دے مارا۔۔۔۔
” چُپ کر کے یہیں سوجاؤ ورنہ آج مار کھاؤ گئے دادو نہیں ہیں گھر میں۔۔ “
” نہیں مدھے دادو تے پاش دانا ہے “ ایک بار پھر کی ضد نے عاشی کو غصّہ دلایا لیکن اس بار غلطی کا احساس ہوتے ہی عاشی نے ارحم کے سرخ گالوں کو چوما۔۔۔
” مما کے پاس نہیں سوگے؟؟؟ “
ارحم نے ماتھے پر بل لاتی اپنی ماں کو دیکھا اور دونوں ہاتھ نیچے کر کے جیسے قمیض اتارنے کی اجازت دی۔
ارحم کو بیڈ پر لٹاتے میں اسکی ایک ایک کاروائی دیکھ رہا تھا۔اُسکا ہاتھ اس تیزی سے چلا کے تھپڑ کے بعد احساس ہوا وہ ارحم کو بلاوجہ پاجامہ نا اتارنے پر مار چکی ہے۔۔
پھر خود ہی اسنے ارحم کو پیار کیا۔۔ دونوں کو نائٹ سوٹ پہنا کر عاشی نے سمان کا نہایت احتیاط سے ڈریس چینج کیا پھر خود بھی فریش ہوکر میرے پاس آکر لیٹ گئی۔ میں نے ایک بار بھی اسے مخاطب نہیں کیا۔ خود سے اسنے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور کچھ لکھ کر اسے مٹا دیتی۔ یعنی ایک ورڈ لکھ کر اسے مٹا دیتی تاکے اگلا بندہ سمجھ سکے یہ ایک لفظ تھا اس کے بعد دوسرا لفظ ہے۔ جیسے اس نے پورا ایک جملا لکھا۔۔
“ no one loves me ”
” کیا بکواس لکھی ہے؟؟؟ “ اسکا آخر لفظ مٹاتے ہی میں نے اسکا ہاتھ جکڑا۔۔
” سچ لکھا ہے بچے بھی چھوڑ کر جا رہے آپ بھی۔۔ “
” آگے بولو۔۔۔ “ میں نے اسکی ٹھوری سختی سے پکڑی۔۔۔
” آپ جان نہیں چھوڑتے ورنہ۔۔۔ “ اب کے معصوم سا اقرار کیا تھا۔۔ میں نے ٹھوڑی پر گرفت نرم کی اور مسکراہٹ دباتے پوچھا۔۔۔
” ورنہ کیا؟؟؟ “
” غنڈا بن کر سب سے بدلا لیتی “ میرے سینے پر ہلکا سا مکا مار کر وہ اپنا منہ میرے سینے میں چھپا گئی۔۔۔
اسکا اقرار تھا میں وہ وجہ ہوں جسکی وجہ سے آج وہ ہے اور میں نا ہوتا تو شاید آج وہ بھی اس فانی دنیا سے۔۔۔۔۔
کتنا مشکل ہوتا ہے اپنوں کو بکھرتے ہوے دیکھنا اسکے ڈیڈ نے بھی تو ساری زندگی اسکا ساتھ دیا اور آزمائش کے وقت ساتھ چھوڑ دیا۔۔
آج اس انکشاف نے پھر سے کھوکھلے رشتوں پرسے پردہ ہٹا دیا، جیسے ٹوٹے کانچ کو پل پل جوڑا تھا آج اس میں ہلکی ہلکی دراڑیں پڑ گئیں ۔ میں نے ابھی ہاتھ بڑھا کر اسکے چہرے کو چھونا چاہا کے عاشی کا فون بج اٹھا۔۔۔۔۔۔
میرے سینے سے سر اٹھا کر عاشی نے جلدی سے سائیڈ پر رکھا فون دیکھا اور تیزی سے کال پک کی۔۔۔
میں اسکے چہرے کے تااثرات دیکھ رہا تھا۔۔۔
میری چھٹی حس کہہ رہی تھی ابھی ایک سمندر اسکی آنکھوں سے بہہ نکلے گا اور یہی ہوا آہستہ آہستہ اسکی آنکھیں بھیگ گئیں پھر بھیگی آنکھوں سے وہ مسکرائی اور اسکے بعد صرف ایک لفظ سے شرورعات کی تھی اس نے۔۔۔
” ڈیڈ آپ کو بہت مس کیا “ بھیگی آواز میں وہ بچوں کی طرح آنکھیں میچے رودی۔ میں اسکے اس انداز پر دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا تبھی عاشی نے مجھے ذبح ہونے کی اطلا دی۔۔۔ فون لائوڈ سپیکر پر رکھ کے ” ڈیڈ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں “ کی خوفناک خبر دی۔۔۔
” کیسے ہیں داماد جی؟؟؟ آپ کے طعنے کو مد نظر رکھتے ہو میں نے ہیر ٹرانسپلانٹ کا سوچا ہے “ میں نے ایک چور نظر عاشی پر ڈالی جو پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔یہ انکشاف انوکھا اور نیا تھا اُسکے لیے مگر اُسے کیا پتا ” گنجا “ تک انکے منہ پر کہہ چکا ہوں۔۔
” نیک سوچ ہے سسر جی کیا ہوا اُگ نہیں سکتے تو اُگا دیں گے “ عاشی کا اب کے منہ کھل گیا ایسی حاضر جوابی پر۔۔۔۔ میں نے پاس ہوکر اسکے منہ بند کر کے آنکھ ماری جس پر عاشی نے مجھے مکا جڑ دیا۔۔۔
” سہی کہتا ہے عالمگیر ایک نمبر کے کمینے ہو “ ہنستے ہوے انہوں نے طنز کی صورت میں اپنا بدلا لیا
” انہی کے تو نقش قدم پر چلتا ہوں “ دونوں طرف خاموشی چاہ گئی عاشی آنکھوں سے بار بار مجھے تنبیہ کر رہی تھی کے سیدھے منہ بات کروں لیکن میں اندھا بنا رخ بدل کر دیوار کو تکتا رہا۔۔۔
” اپنی بیٹی کو کل لینے آرہا ہوں!!! ایک ہفتے کے لیے میں اپنے نواسوں کے ساتھ فارم ہاؤس پر رہنا چاہتا ہوں پھر ہم پیرس گھومنے جائیں گئے تو آج رات میری بیٹی کے ساتھ پیکنگ میں ہیلپ کرنا “ مغرورانہ انداز میں حکم دیکر وہ اپنے سارے بدلے لے رہے تھے۔۔۔
” جی سسر جی “ میں نے دانت پیستے عاشی کو دیکھ کر کہا صدمہ ہی ایسا ملا تھا کے دل ہر چیز سے اچاٹ ہو گیا تھا۔۔۔ اب جلد از جلد بات کر کے فون بیڈ پر پٹخ کے میں بالکنی میں آگیا۔۔۔
” افشی بیٹے میں صبح ہی لینے آونگا اب اور انتظار نہیں ہوتا تمہاری مما بھی آئیں گی “ میرے جانے کے بعد وہ اپنے ڈیڈ سے باتیں کرتی جلدی سے فون رکھ کے میرے پیچھے چلی آئی۔۔۔۔
” ڈیڈ بہت شرمندہ تھے، پریشان، اور گلٹی بھی میں منع نہیں کر سکی۔۔۔۔ پلیز ناراض نا ہو ورنہ۔۔۔ میرا دل بیٹھ جانا “ میری پیٹھ پر سر رکھے کے وہ دونوں ہاتھ میرے سینے پر رکھتی مجھ سے معافی کی طلبگار تھی۔۔۔۔
” مجھ سے بات نہیں کریں گئے۔۔۔ مجھے رولائیں گئے۔۔ “ ایموشنل بلیک میلنگ ہی نہیں رونا بھی شروع ہو چکا تھا میں نے سینے پر دھرے اسکے ہاتھ ہٹائے اور اپنی باہوں میں اٹھ کر اسے بیڈ پر لٹایا۔۔۔
ایک بازو کھول کر عاشی کی گردن اپنے بازو پر رکھ کر میں نے اپنے سوالوں کا سلسلہ شروع کیا آج موقع بھی تھا دستور بھی ساری شرطیں منوانی تھیں سارا حساب لینا تھا۔۔۔
” اب خوش ہو؟؟ “
” بہت کیوں کے یہ آپ کی دی گئی خوشی ہے “ اسکے جواب سے دل پھر جی اٹھا تھا چہرہ اونچا کر کے اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے اقرار کیا۔۔۔۔
” اب اداس نہیں ہوگی؟؟؟ “ اپنا بوجھ بھی ہٹانا تھا جو وہ اداسی کی صورت میں میرے دل پر مایوسی کا بوجھ ڈالتی ہے
” نہیں “ سینے پر سر رکھے وہ بولی۔۔
” رات کو جانے سے بھی نہیں روکو گی؟؟ ورنہ معافی بھول جاؤ “میں نے پہلے ہی وارن کیا خفگی سے مجھے دیکھتے وہ کچھ پل سوچنے کے بعد لٹھ مار انداز میں بولی۔۔۔
” نہیں “
” وہاں جاکر کال کروگی؟؟؟ “ سینے پر ہاتھ پھیرتے مسکرا کر عاشی نے ہلکا سا سر کو خم دیا۔۔۔
” بہت مس کروں گی “ کندھا اچکا کر وہ انجان بن گئی بلا مس بھی انسان سوچ کر کرتا ہے؟؟؟ وہ تو خود ہی سوچ میں آجاتے ہیں ۔۔۔۔
” ہر پل کی پک لیکر بھیجوں گی “ میری ہونٹوں کی مسکراہٹ اسکے ” ہاں “ کے جواب میں اور گہری ہوگئی۔۔۔
” اور مجھے بیٹی بھی دوگی “ نہایت دھیرے سے کی گئی التجا پر وہ مجھ سے تیزی سے دور ہوئی اسکی تیزی دیکھ کر میرا جاندار قہقہ کمرے میں گونجا وہ سمان کو خود سے لگاے اسکی سائیڈ پر سوگی اور میں اسے خود سے لگائے اسکی مزامت رد کرتے اسکی سائیڈ پر سوگیا ایک سریلی آواز نے اس بار خوبصورت سرگوشی میرے کانوں میں کی۔۔۔۔
بھروسہ، دعا، وفا، خواب، مان، محبت
کتنے ناموں میں سمٹے ہو صرف ایک تم
کتنا خوبصورت اظہار تھا اُسکا میں جی جان سے اسے خود میں بھنچ کر مسکرایا