انیس فیب وہ دن تھا جب میں نے زندگی کی سب سے بڑی دعا بہت عام انداز میں بس بیٹھے بیٹھے مانگ لی۔ اس دن عاشی کا برتھ ڈے تھا اور میں اس بات سے انجان تھا۔۔۔۔ وہ لڑکی جو ماں باپ کی آنکھوں کا نور ہے، جسکے شوز تک باپ خود پالش کرتا تھا، اپنی بیٹی کی برتھ ڈے پر مہنگے سے مہنگے ڈیزائنر سے ڈریس بنواتا آخر وہ کیسے یہ اہم دن فراموش کر سکتا ہے؟؟؟ میں نے پورا دن ہمیشہ کی طرح اسے بزی رکھا کام سے باہر گیا بھی تو امی کو اسکے پاس رہنے کا کہا لیکن گھر جب لوٹا تو اسکی حالت خراب تھی وہ آئینے کے سامنے کھڑی ٹشو سے اپنا ناک صاف کر رہی تھی جس سے خون بہہ رہا تھا۔۔
” عاش۔۔۔ عاشی یہ کیا ہوا ہے “ میں تیر کی تیزی سے اسے اٹھا کر واشروم کی طرف بھاگا اندر آکر میں نے اسے واش بیسن کے سامنے کھڑا کیا اور منہ دُھلوایا اس وقت کوئی سوچ ذہن میں نہیں تھی بس اسکی سانسیں میرے لیے اہم تھیں۔ وہ سنک پر جھکی اب الٹیاں کر رہی تھی اور میری جسم سے جیسے جان نکلنے کو بےتاب تھی۔ اب کے دوبارہ اسنے اپنا منہ دھویا اور صابن سے باقائدہ اچھے سے دھویا میں نے کانپتے ہاتھوں سے اسکے کھلے بال اپنی ہلکی گرفت میں لیے اور جوڑا بنایا اب وہ برش کر رہی تھی میں نے پاس پڑا تولیہ اسے دیا۔۔۔ وہ نارمل تھی لیکن ہاتھوں کی کپکپاہٹ نے ایک دفع پھر میرے اوسان خطا کردیے اور میں نے پھر اسے بازوں میں اٹھا کر بیڈ پر بٹھایا۔۔۔
” ت۔۔۔۔تم بیٹھو میں ڈاکٹر۔۔۔۔ “ میں اسکی حالت کی پیش نظر جیب سے فون نکال کر ڈاکٹر کو بلانے لگا تھا کے اسنے میرا ہاتھ تھام کے مجھے اپنے قریب بٹھایا۔۔
” میں ٹھیک ہوں۔۔۔ یہ ناک سے خون بہنا پہلے سے ہوتا ہے اکثر گرمیوں میں “ اسکی اطلاع نے میرے روح میں سکون پھونک دیا۔ الٹیوں کی وجہ میں جانتا تھا وہ امید سے تھی لیکن ناک سے بہتے خون نے دن میں تارے دیکھا دئیے۔ میری دھڑکن جو معمول سے کم ہوگئی تھی اب واپس اپنی سپیڈ پر چل رہی تھی کے اچانک پھر سے اسنے میرا دل چیر دیا۔۔۔۔۔
” ک۔۔۔۔کاش می۔۔۔میں م۔۔۔۔۔۔مرجا۔۔۔۔۔۔۔مرجاؤں ڈ۔۔۔۔ڈیڈ م۔۔ما۔۔۔ر۔۔۔روت۔۔۔۔روتے۔۔۔۔رہی۔۔۔۔رہیں۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔وا۔۔۔واپس ن۔۔۔نا۔۔۔آ۔۔۔۔آؤں “ وہ یکدم سے میرے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی اسکا پورا وجود ہچکیاں لے رہا تھا اپنے سینے پر رکھے اسکے ہاتھ کو میں نے نرمی سے اپنی گرفت میں لیا۔۔۔
” میں اہم نہیں تمہاری زندگی میں، بےمعنی ہوں؟؟ بے مقصد ہی مجھ جیسا شخص تمہارا سر پر تھوپا گیا ہے “ میں نے وہ ہاتھ دل سے ہٹایا اور عاشی کو بھی خود سے دور کر کے لیٹ گیا وہ حیران سی مجھے دیکھتی رہی رونا پیٹنا سب بند ہوچکا تھا۔ آج تک وہ میرے اس روپ سے انجان تھی ناراضگی اور میں؟؟ ہو ہی نہیں سکتا۔۔ لیکن اب ہوا تھا۔۔ پھر کچھ لمحوں میں ہی مجھے اپنے بازو پر نمی سی محسوس ہوئی میں کروٹ کے بل لیٹا تھا جب اسی طرح وہ روتی رہی تو مجبوراً میں نے خود ہی اسے اپنے بازو کے گھیرے میں لیکر غصّے بھری سرگوشی کی۔۔
” میری دعا ہے کے اللہ ایسی شرارتی اولاد دے کے تمہیں سانس لینے کا ٹائم نا ملے “ اس وقت عاشی نے مجھے بےحد تپا دیا تھا اوپر سے اسکی یہ حالت؟؟ وہ خود کو اور اپنے اندر پلتی جان کو اپنے ہاتھوں سے ختم کر رہی تھی۔ ڈپریشن وہ زہر ہے جو انسان کو آہستہ آہستہ نگلتا ہے اور میری عاشی کو بھی نگل لیتا اگر اس دن وہ روی نا ہوتی۔ میرے موڈ کو دیکھ کر رابی نے بتایا آج اس کا برتھ ڈے تھا اسی لیے آج وہ خود سے اس زندگی سے بےزار ہوگئی تھی اسے وش کرنے والا نحرے اٹھانے والا کوئی نہیں تھا اسکی زندگی کا اہم دن منانے کے لیے کوئی نا تھا۔۔۔۔
” میں ہوں نا نخرے اٹھانے کے لیے جب تک سسر جی مان نہیں جاتے تب تک تو دل پر پتھر رکھ کے اٹھا سکتا ہوں “
ؓبگڑا منہ بنا کر وہ میرے بازو پر سر رکھے لیٹ گئی۔۔۔
اگلے دن میں نے اسکا پسندیدہ کیک لاکر یہ غم بھی دور کردیا کہ ” وش کرنے والا نخرے اٹھانے والا ابھی زندہ
ہے “
امی کو اسکی خرابی طبیعت کا بتا کر میں نے اسکے گرد پہرےداری سخت کردی اور آہستہ آہستہ وہ خود ہی کاموں میں الجھ کر جو ایک دو بار ہفتے میں اپنی مما کو فون کرتی تھی وہ بھی بھول گئ۔ مجھے اسکے کسی عمل سے کوئی پرابلم نہیں تھی لیکن غلطی نا کر کے بھی سزا کاٹنا کہاں کا انصاف ہے؟؟ اسکی مما فون پر بھی اس سے بات کرنا گوارا نہیں کرتیں جب بھی عاشی انھیں فون کرتی وہ پھر سے اُسکے زخم تازہ کردیتیں اپنی نام نہاد عزت کا ڈھنڈورا پیٹتیں لیکن پھر عاشی نے اپنی عزت نفس کے لیے خود ہی چپ رہنا بہتر سمجھا۔ اب چھوٹی سے چھوٹی بات چاہے اسے کسی کا عمل کسی کی بات بُری ہی کیوں نا لگی ہو مجھے فوراً کہہ دیتی ہے۔ آہستہ آہستہ ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے عادت ایسی ہوگئی کے دو منٹ بھی اسے کہے بغیر لیٹ پہنچتا تو میرے آدھے خاندان کو فون کر دیتی۔ رابی سے لیکر اسفند تک۔۔ اسفند کا نمبر میں نے اسے خود دیا تھا ایمرجنسی کے لیے۔۔۔
اسفند وہ شخص ہے جس پر میرا بھرپور اعتماد ہے وہ
شخص جان کی بازی لگانے والوں میں سے ہے اپنی نیند اپنی زندگی تک اوروں کے لیے قربان کرنے والا جو کسی راستے میں ایک پل کو ڈگمگا کر اپنی سوچ نہیں بدلتا مجھے وہ رات آج تک یاد ہے جب اس نے راتوں رات مجھ پر حملہ کرنے والے کو پولیس اسٹیشن سے نکلوایا تھا۔۔۔۔
اس رات میں عاشی کے لیے سارا انتظام کر کے گیا تھا کے پل بھر کو بھی اسکے دماغ میں اپنوں کی کوئی سوچ نا آئے لیکن میرے ایکسیڈنٹ نے سارا کام خراب کردیا۔ اس رات ہم مصطفیٰ کے بیٹے کو رہا کرانے گئے تھے اور اپنے مشن میں کامیاب بھی ہوے لیکن واپس گھر آتے وقت ایک ٹرک میرا پیچھا کر رہا تھا اس وقت بہادری نہیں عقلمندی کام آنی تھی اسلئے آگے پولیس دیکھ کر میں نے بائیک سگنل سے ماردی۔ دیکھنے والوں کو اندھیرے میں یہی لگا کے ٹرک جو میرے بےحد قریب تھا اسنے ٹکر ماری ہے اور میرے گرتے ہی ٹرک ایک جھٹکے سے رکا ڈرائیور خود سمجھ نہیں پایا تھا کہ ہوا کیا ہے؟؟ لیکن پولیس کی گرفتاری پر وہ ہوش میں آیا اور سارا ماجرا سمجھ گیا۔۔۔
میری آنکھیں ہسپتال میں کھولیں۔ اسفند نے فون کر کے مجھے بتایا وہ ٹرک ڈرائیور مجھے مارنے آیا تھا لیکن اب اسے پولیس ٹیشن سے نکلوا کر اپنے قبضے میں کیا ہے اسکی خبر سن کر میں نے سکون بھرا سانس لیا اور رابی کو کال کر بلایا۔ میری نظریں اس دن افشین سے ہٹ نہیں رہیں تھیں جو آج پہلی دفع صرف میرے لیے روی تھی۔۔
” آئ ایم بلیسڈ ود دا بیسٹ “ بمشکل لنگڑاتے ہوئے کچھ قدموں کا فاصلہ طے کر کے میں اسکے سوئے بےخبر وجود تک پہنچا اور کان کے قریب محبت بھری سرگوشی کی۔۔ رابی کے جانے سے پہلے ہی روتے روتے عاشی کی آنکھ لگی تھی اور اب کافی دیر بعد مجھے لگا جیسے وہ اب جاگ چکی ہے تبھی اسکے قریب چلا آیا۔۔
” میں بہت ڈر گئی تھی۔۔۔۔۔ میرا کوئی نہیں۔۔۔ اگر آپ بھی چلے گئے مجھے چھوڑ کر تو میں بھی ختم ہوجاؤں گی۔۔۔ “ نم آنکھوں کو کھولے وہ ضبط کیے مجھے دیکھ رہی تھی وہ جاگ چکی تھی لیکن میری منتظر تھی کے پہل میری طرف سے ہو۔۔
” میں نے تاقیامت تمھارا پیچھا نہیں چھوڑنا!!! گیا تو تمہیں بھی ساتھ لیکر جاؤنگا “ اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر محبت سے انہیں چوما۔۔ وہ اٹھ کر بیٹھ چکی تھی اور نم آنکھوں سے مجھے دیکھتے میری محبت بھری سرگوشی پر مسکرائی تھی پھر اپنا ہاتھ میرے ہاتھوں سے چھڑوا کر میرے دل پر رکھا۔۔
” بلکل سہی دھڑک رہا ہے!!! نا اسپیڈ زیادہ ہے نا کم بس تمہیں پریشان دیکھ کر رفتار بدلتی ہے “ میری بات پر وہ خجل سی ہوکر سر جھکا گئی اور اپنا ہاتھ فوراً سے ہٹانے لگی لیکن اسکا ہاتھ میری سخت گرفت سے نا بچ سکا۔۔۔ چہرے کی سرخی اس گرفت سے مزید بڑھ گئی۔۔۔۔
” مائے بیوٹیفل نائٹ میر “ میں نے وہ دل پر رکھا ہاتھ پھر چوما۔ جبکے اسکی نم پلکیں پھر بھیگ گئیں کبھی اظہار کی ضرورت ہی نہیں پڑھی اسلئے آج میرے اقرار سے وہ آنسوں کی ندیاں بہا رہی تھی۔جو مجھے تکلیف میں دیکھ کر مُرجھا اٹھی اُسکا اقرار مجھے آج تک یاد ہے۔۔ میری اس خوش حال زندگی میں میری ایک دعا کا اضافہ ہوا جو میں خود نہیں جانتا کیسے ہوا؟؟؟ میرے غصّے میں مانگی ایک دعا نے میری زندگی کو مختلف رنگوں سے بھر دیا میں نے سنا تھا لوگ رزق کے لیے دعا مانگتے ہیں تو اللہ جب انھیں نوازتا ہے تو اس طرح نوازتا ہے کے شکر ادا کرتے انکی زبان نہیں تھکتی وہ رزق ہی نہیں رزق میں برکت ڈالتا ہے اور ہر نوالے پر اسکا بندا اسکا شکر گزار رہتا ہے یہی میرے ساتھ ہوا۔۔۔
وہ میری زنددگی کا حیرت انگیز، خوبصورت ترین دن تھا جو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا میرا انگ انگ خوشی سے جھوم رہا تھا لیکن حیرت کسی طور کم ہونے کو نہیں آ رہی تھی جب نرس نے ٹریپلیٹس کی اطلا دی؟؟؟
“ Did you just say triplets?? ”
میں بےیقینی کی کیفیت میں کتنے ہی پل کسی ساحر کی طرح ایک جگہ ٹہر گیا۔ جب ملنے کا موقع ملا اسے دیکھنے کا موقع ملا تو عاشی نے صاف منع کردیا کسی سے نہیں ملیگی۔ میں اندر گیا تو خود کو اس طرح چادر سے چھپایا ہوا تھا کے جسم کے کسی حصے کو ہوا تک نا پہنچ سکے۔ میرا محبت سے پکارنا میری خوشی، میری بےقراری کچھ کام نہیں آیا وہ بس اس وقت خود کو دنیا کے کسی کونے میں چھپانا چاہتی تھی اور یہ بات مجھے خالہ نے بتائی۔۔۔۔
میں نے بھی جاتے ساتھ اسکی شرم کا خوب بدلا لیا ایسا ھلق پھاڑ قہقہ تھا میرا کے نرس تک ڈرتی ہوئی اندر چلی آئی۔۔۔
” یہ کس جانور کی آواز تھی؟؟ شیر تو نہیں گھس گیا “
” نہیں ڈائنوسور سیر کرنے آیا تھا اب چلا گیا “ میں نے جل کر کہا اندر چادر میں چھپی وہ میڈم ہنس رہیں تھیں۔۔
پھر خالا اور امی مجھے زبردستی بچوں کے پاس لے گئیں اور انھیں دیکھتے ہی کبھی میں ہنستا تو کبھی پلکیں بھیگ جاتیں نجانے خوشی کے آنسوؤں تھے یا ایسی خوشی پاکر دل احساس غم، محبت سے پھٹنے لگتا۔۔ دل چاہتا انہیں خود میں بھنچ کر دنیا سے چھپا لوں۔۔
گھر آکر بھی وہ کمرے میں بند ہوگئی امی ایک ہفتہ اسکے ساتھ ہی رہیں اکثر وہ بیٹھے بیٹھے رونے لگتی کے تینوں کو کیسے سمبھالے گی۔ امی بس مسکرا کر رہ جاتیں اسکی ساری کاروائی آکر پھر وہ مجھے بتاتیں۔
میں بہانے بہانے سے اسے ایک دو بار بلاتا جانتا تھا کے نیند کی کمی کی وجہ سے آج کل وہ چڑچڑی ہوگئی ہے۔۔۔
” کب تک مایوں بیٹھنے کا ارادہ ہے میری جامِ شیریں؟؟ “
میں نہا کر آیا تو وہ ابھی تک میری شرٹ پریس کر رہی تھی۔ میں نے اسکے سرخ گال دیکھتے شوخی سے کہا جو سردی کی شدت کی وجہ سے سرخ ہو چکے تھے۔۔۔
” میں مایوں نہیں بیٹھی یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے آپ زمیدار ہیں “ روٹھا روٹھا سا انداز تھا اسکا میری بات پر اسکے گال مزید سرخ ہوگے۔۔۔۔
” میں نے کیا کیا؟؟ “ میں واقعی حیران ہوا تھا۔۔
” آپ نے ہی کہا تھا اللہ ایسی شرارتی اولاد دے کے تمہیں سانس لینے کا ٹائم نا ملے بھول گئے؟؟ “ اسکے یاد دلانے پر میرا ذہن فلیش بیک میں چلا گیا تھا۔ جب ایک دن میں نے اس کے سامنے غصّے سے کہا تھا مجھے کیا پتا تھا وہ خوائش ایسے سچ ہوگی؟؟
” لگتا ہے اُس وقت قبولیت کی گھڑی تھی “ میں سر کھجا کر مسکرایا عاشی نے پھنکنے کے انداز میں شرٹ پکڑائی اس سے پہلے وہ دوڑتی میں نے محبت بھرا لمس اسکی پیشانی پر ثبت کیا۔۔۔
” تھنک یو مائے لیڈی فور تھری پریشیز گفٹ “ سرخ چہرہ لیے وہ مجھے دیکھتی رہی پھر ” تھری پریشیز گفٹ سن کر مجھے غصّے سے دھکیل کر باہر کو بھاگی میرے قہقے نے دور تک اسکا پیچھا کیا۔۔۔
تین بچوں نے صرف ہماری زندگی میں ہنگامہ نہیں مچایا بلکے جس نے سنا وہ انہیں دیکھنے کے لیے بےچینی سے آنے لگے جس طرح زو میں جانے کے لیے بچے بےچین ہوتے ہیں اسی طرح بچوں کو دیکھنے کے لیے خاندان بےچین تھا۔ روز کوئی نا کوئی انہیں دیکھنے آتا ایک دن تنگ آکر میں نے عاشی سے کہا۔۔
” اب جو بچوں کو دیکھنے آئے چار سو ساتھ لیکر آئے مفت کے تھوری ہیں؟؟ پورا ہسپتال کا بل چکا کر گھر لایا ہوں اور دیدار سارا دن وہ کر رہے ہیں “ میری بات سن کر کمرے میں آئی میری ماں نے رکھ کر کندھے پر جھانپڑ مارا جو ابھی مہمانوں کو باہر چھوڑ کر آئیں تھیں۔۔
” ایک تو بچوں کے بعد پرائیویسی کا ستیا ناس ہوگیا ہے ہر کوئی بغیر نوک کیے اندر چلا آتا ہے۔۔“ ایک اور جھانپڑ پڑا تھا امی مجھے افسوس سے دیکھ کر رہ گئیں وہ جانتی تھیں کہا میں نے مذاقً تھا لیکن بابا سن لیتے تو ضروری جنگ چھڑنی تھی خیر جلد ہی ہم نے بچوں کا عقیقہ کرایا جس میں سب سے بڑا دکھ رابی کے نا آنے کا تھا وہ کمزوری کے بائث آج کل کمپلیٹ بیڈ ریسٹ پر تھی جبکے اسکا پورا سسرال آیا تھا۔۔۔
آج بھی اس موقعے پر جہانگیر چچا نے اپنے نواسوں کے لئے کوئی گرم جوشی نہیں دیکھائی ہاں البتہ نانی نے نواسوں کو خوب پیار کیا انکے لاڈ اٹھائے اپنے محبت بھرے لمس سے نوازا۔۔۔۔
” سکندر بےروزگار کو بولو کہیں جاب ہی کرلے “
” آپ سے زیادہ کماتا ہوں کبھی اپنے سامنے ہاتھ پھیلاتے دیکھا ہے؟؟؟ “ اس وقت میں بریانی کی دیگیں اندر رکھوا رہا تھا بابا سکندر خالو کے ساتھ اندر جاتے ہوے مجھے ٹوکنا نہیں بھولے تھے۔۔۔
” ڈکیتاں مار کر تو آج کل لوگ ملک بھی چلا رہے ہیں “
بابا نے مسکرا کر کہا سکندر خالو کو تھا لیکن طنز کا تیر صاف مجھے مارا تھا۔۔
” بڑا ایکسپیرینس ہے؟؟ لگتا ہے میں آپ کے نفش قدم پر چل رہا ہوں “ میں کہا چپ رہنے والا تھا۔ سکندر خالو افسوس سے ہم دونوں کو دیکھ رہے تھے۔۔
” میرے نفش قدم پر چلتے تو لوگ آج عزت کرتے “
” آپ کے علاوہ سب کرتے ہیں “
” زبان کے علاوہ ہے کیا تمہارے پاس “ اب کے وہ بھڑک اٹھے۔۔
” آپ کی دی تربیت “ میں نے پیار سے مسکرا کر کہا دانت پیستے وہ بڑبڑائے۔۔
” ہوتی تو آج آرمی افسر تو ہوتے بےروزگار نہیں ہوتے “ میں جواب دینے ہی لگا تھا انہوں نے پھر سے میرے دل پر وار کیا تھا لیکن سکندر خالو کی تنبیہی نظریں جو مجھے گھور رہے تھے چپ کرا گئی۔۔
میں وہ پورا دن سکندر انکل کے ساتھ رہا جنکی باتیں جنکا بولنا مجھے بےحد پسند ہے اس بیچ ابو نے کافی دفع طنز کیا لیکن اب کے بار میں خاموش رہا۔ وہ دن بھی بےحد تھکن کے ساتھ ختم ہوا عاشی کی تو ایسی حالت تھی کے اگلا پورا دن سوکر گزارا۔۔۔
ایک ہفتہ میں الگ کمرے میں رہا جب تک کے عاشی بچوں کے ساتھ سیٹل نہیں ہو جاتی روز میں خود بھی بچوں کے معملے میں اسکی مدد کرتا گھنٹوں ہم دونوں ساتھ انھیں ٹہل ٹہل کر سلاتے ایک بچا میرے کندھے پر ہوتا دوسرا بازوں میں تیسرا عاشی کے پاس ہوتا ۔۔۔ ہم گھن چکر بنے بچوں کو سنبھالتے عاشی تو کبھی کبھی رونے لگتی ہے۔۔۔
” یہ کب بڑے ہونگے؟؟ ایک نہیں سوتا دوسرا اٹھ جاتا ہے دوسرا سوتا ہے تو تیسرا لات مار کر اٹھا دیتا “
عاشی رونی صورت بنا کر بیٹھی مجھ سے شکوے کر رہی تھی اور میں بیچارہ دلاسے کے علاوہ بھلا کیا دے سکتا تھا؟؟؟ بس ہنسی کا گلا گھونٹ کر اسے دلاسا دیتا رہا عاشی اکثر بچوں کی وجہ سے مجھے دھمکی دیتی کے رات کو کہیں نہیں جانا ایک دو بار کسی کام کی وجہ سے ارجنٹ جانا پڑا تو میڈم کا بی پی لو ہوگیا ایسی حالت میں اب میں امی کو پہلے عاشی کے پاس سلا کر پھر چپکے سے نکلتا کے کہیں ہلاکو خان (بابا)نا آجاے۔۔۔
دن تیزی سے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے پانچ ماہ بعد اللہ نے رابی کو بھی بیٹی کی نعمت سے نوازا وہ معصوم پری ہو با ہو رابی تھی نفش باپ پر تھے پر مجھے وہ رابی کے وجود کا حصّہ لگا اور بےاختیار دل کے بہت قریب لگی اکثر اسے دیکھ کر عاشی سے خوائش کرتا مجھے بھی یہ خوشی دے لیکن وہ ان تینوں کو دیکھ کر الٹا مجھ پے چڑھ دوڑتی کے پچھلی دفع کی طرح کوئی ایسا فقرا نا منہ سے نکالوں کے اس دفع بھی عاشی چھ کو لیکر روتی پھرے۔۔
چھ سال زندگی کے کسی حسین یاد کی طرح میرے دل میں گھر کر گئے کل ہی تینوں کی پانچویں سالگرہ منائی تھی تینوں بچے عاشی اور میری جان جگر ہیں دن شروع ہی انکے ننھے ہاتھوں سے ہوتا جو ہمیں صبح ہوتے ہی جگاتے ہیں۔ گھر کے کونے کونے سے انکی آوازیں برآمد ہوتی ہیں بابا کی تو جان ہی ان ننھے ہاتھوں میں ہے اور ہوتی بھی کیوں نا؟؟؟ بابا کا ” فرمانبردار “ اولاد کا خواب جو پورا ہوا تھا۔۔ تینوں دادا دادی اور ماں کی فرمانبردار اولادیں ہیں میرے بھی فرمانبردار ہیں لیکن جہاں بات
” دادا “ کی ہو فوراً پیچھے ہٹ جاتے۔ ہوا یہ تھا کے ایک دفع میرے گال پر پڑا تھپڑ انہیں یہ بات سمجھا گیا کے گھر چلتا صرف دادا کے حکم پر ہے باقی سب تو صرف انکے حکم کے انتظار میں بیٹھے ہوئے کھوٹے سکے ہیں۔ وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے امی نے خوب ڈانٹا بھی تھا کے تمہاری وجہ سے میرا شوہر بی پی کا مریض بن کر رہ گیا ہے تب امی کو میں نے سمجھایا تھا۔۔۔۔۔
” ویٹامنز کی ٹیبلیٹس کو بی پی کی ٹیبلیٹس کہہ کر آپ کو پاگل بنارہے ہیں۔۔ آپ میری کمزوری ہیں جسکا فائدہ وہ خوب اٹھاتے ہیں اور اپنی پارٹی میں آپ کو شامل کر رہے ہیں “
میرے سمجھانے کے بعد امی نے غور کیا تھا لیکن اس دن کے بعد سے میری اولاد اب ڈرنے کم مجھے ڈرانے زیادہ لگی ہے۔۔۔
” چٹاخ “ تھپڑ کی آواز پورے لاؤنچ میں گونجی۔۔۔
” کیا کر رہیں ہیں جوان اولاد پر کوئی ہاتھ اٹھاتا ہے؟؟ “
سفا نے آکر تیزی سے عالمگیر کا ہاتھ پکڑا کے کہیں مزید نا تھپڑ جڑ دے صارم کے گال پر۔۔۔
” اس جیسی اولاد ہو تو روز ایک جوتا بھی کم ہے۔۔ آ “
وہ کراہ اٹھے اس وقت گردن میں نیک بیلٹ پہنا تھا۔ انکی طبیعت رات کو ہی خراب ہوگئی جب زرخان نے انہیں فون کر کے بیٹے کا کارنامہ بتایا۔ وہ لیٹے ہوے تھے اور زرخان انہیں اور انکے بیٹے کو کوستا پولیس کی دھمکیاں دے رہا تھا جسے سن کر عالمگیر بیڈ سے ایسے گرے کے گردن میں موچ آگئی۔ تب سے نیک بلٹ انکے گلے کی زینت بنا ہوا ہے۔۔۔
” کیا کیا ہے میرے بیٹے نے؟؟ “ سفا نے دل پر ہاتھ رکھے پوچھا کمزور دل تھا انکا چھوٹی چھوٹی باتوں پر درد اٹھنے لگتا۔۔۔
” دو کوڑی کا بنا کے رکھ دیا ہے!!!! آرے جہاں سے شادی یا پارٹی کا انویٹیشن آتا ہے اول دوست پوچھتے ہیں بیٹا بھی آرہا ہے کیا؟؟ “ انہوں نے قہرآلود نگاہ سامنے کھڑے صارم پر ڈالی جو نظریں نیچے کیے مجرموں کی طرح کھڑا تھا لیکن چہرے پر کوئی شرمندگی کے تااثرات نا تھے۔
” تو اس میں۔۔۔ “ صفا نے پوچھنا چاہا کے عالمگیر دھار اٹھے۔۔
” ارے سب خوف کھاتے ہیں اس سے فری کا ایسا باشن سنا کر آتا ہے کے اگلے دن اولاد باپ کے سامنے تن کر کھڑی ہوتی ہے، جا جو کرنا ہے کر لے میں اپنی زندگی جیونگا “ وہ ہاتھ سے جانے کا اشارہ کر کے بیٹے کی نقل اتارتے کہہ رہے تھے۔۔
” مجھے سمجھ نہیں آرہا آپ بیٹھ کر بات کریں “ انکی بگڑتی طبیعت سخت لہجہ دیکھ کر سفا نے انہیں تھام کر بیٹھانا چاہا لیکن وہ پھر سے بگڑ اٹھے۔۔۔
” کہاں بیٹھوں؟؟ بی پی کا مریض بنا دیا ہے، آج اسکی وجہ سے دو گولیاں کھائیں ہے پھر بھی اسے دیکھ کر خون ابل رہا ہے “ وہ پھنکارے
” بابا نظریں جھکا کر ڈانٹ لیں آپ کی صحت ضروری
ہے “ صارم نے مسکراہٹ دباتے سنجیدگی سے کہا۔۔
” چُپ کر ورنہ ہڈیاں توڑ دونگا۔۔۔ “ وہ تو گویا بگڑ گئے اسے مارنے کے لیے آگے بڑھے کے سفا نے انکے سینے پر ہاتھ رکھ کے روکا جسے فوراً جھٹک کر وہ صوفہ پر بیٹھ گئے۔۔
” پانی دو مجھے “ کرخت آواز میں سفا کو حکم دیا۔۔
” برباد کردیا ہے اس نے۔۔۔ سلمان صاحب کو جانتی ہو نا وہ انڈسٹریل؟؟ “ پانی پی کر خود کو ریلکس کر کے وہ گویا ہوئے۔ تیز نظریں ابھی تک صارم کو اپنے وجود پر محسوس ہو رہیں تھیں جو ویسک ہی پہلی پوزیشن میں کھڑا تھا۔ سفا نے انکے سوال پر سر ہاں میں ہلایا۔۔
” کڑورں کی جائیداد کے مالک ہیں کپ یہاں سے وہاں بھی ملازم اٹھا کر رکھتا ہے اور تمہارے اس لاڈلے نے اس کے بیٹے کو باورچی بنا دیا۔ کڑوروں کی ملکیت کا وارث اب لوگوں کے لیے برتن سجاتا ہے۔۔ “
” کیوں؟؟؟ “ سفا نے حیرت سے ایک نظر پاس بیٹھے شوہر کو دیکھا پھر صارم کو جس کے ہونٹوں پر دبی دبی مسکراہٹ مچل رہی تھی بہت پہلے کا واقع اسکے ذہن میں لہرایا۔۔
” یہ پریزنٹیشن کس نے کی ہے امیزنگ لاسٹ ٹائم ایسا سیلیڈ اٹلی میں کھایا تھا “ صارم نے پاس بیٹھے آفتاب سے کہا جنکے گھر آج سب ڈنر کے لیے آئے تھے۔۔۔
” سہی پہچانا سیم ریسیپی ہے “ آفتاب کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔۔
” تمہارا کُک قابل تعریف ہے “ صارم داد دیے بغیر نا رہ سکا۔۔
” میں نے بنائی ہے “ اپنے کریڈٹ پر تعریف تو بنتی ہے۔ وہ ُبُرا مان کر بولا
” ریلی “ صارم اسکی پرسنیلیٹی اور اسکا محل دیکھ کر اس بات پر حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکا اور سلاد بھی قابل تعریف تھا پھر صارم کے پوچھنے پر اس نے بتایا کے ماسٹر شیف بننا اسکا شوق ہے، کوکینگ کرنا الگ الگ ڈیشز ٹرائے کرنا اسکا جنون ہے اسلئے وہ اپنے اپارٹمنٹ میں چھپ کر یہ سب ٹرائے کرتا ہے اور سیلڈ بھی آج
خود بنایا تھا لیکن ملازم کو سختی سے منع کیا تھا کے کوئی ڈیڈ کو نا بتائے پھر صارم نے اسے حوصلہ دیا کے وہ اپنے خواب کو پورا کرے وہ کرے جس میں انٹرسٹ ہے نا کے وہ جس میں جاکر بھی اسی کا نقصان ہے۔۔
” بٹ ڈیڈ “ آفتاب نے جھجھک کر احتجاج کیا۔۔
” ارے چھوڑو باپ کیا کریگا؟؟ انسان اپنا شوق نہیں مار سکتا مجھے دیکھو سالوں پہلے یہی قدم اٹھایا تھا بابا آج بھی گالیاں دیتے ہیں لیکن کان لپیٹ لیے ہیں سنو اور نکالو۔۔ اور دوسری بات آہستہ آہستہ عادت ہو جاتی ہے میں جو گالیوں کے بغیر کھانا ہضم نہیں کر پاتا۔۔اب تو جب ایسیڈیٹی بھی ہو اینو کی جگہ بابا کی گالیاں سن لیتا ہوں معدہ صاف ہوجاتا ہے۔۔ “ صارم کی باتوں کا اثر تھا کے اگلے دن اسنے ڈیڈ کے پیسوں سے ہوٹل کھولا اور اپنے ہی ڈیڈ کے دوستوں کے لیے ایک شاندار ڈنر رکھا بات یہ تھی دھوکے سے سب کو انوائٹ کر کے اس نے لاسٹ میں انائونس کیا کے کھانا اس نے بنایا ہے اور یہ انوگریشن پارٹی تھی جسے سن کر آفتاب کے ڈیڈ نے گھر میں خوب ہنگامہ مچایا لیکن آفتاب کا ریسٹورنٹ ایسا چل نکلا تھا کے اسکے ڈیڈ بھی حیران تھے اور یہ سبکو چالاکی سے بلانے کی وجہ سے ہوا کے آج وہ ریسٹورنٹ وہاں کا سب سے مہنگا ریسٹورنٹ ہے۔۔۔
” تھنکس مین آئ کانٹ بیلیو اب تو اپنے فیصلے خود کرنے لگا ہوں ڈیڈ کو بھی جلد منا لونگا “ اپنے ریسٹورنٹ کی کامیابی پر وہ صارم کو نہیں بھولا تھا لیکن اصل کام تو آفتاب کا خود کا تھا جس نے ہر بزنیس ٹائکون یہاں تک کے صارم کے بابا کے سرجن دوست سب کو ہی بلایا تھا اور اتنا پیسا خرچ کیا تھا کے آج اسکا ریسٹورنٹ کامیاب ترین میں سے ایک ہے اور اب اپنے فیصلے جو لوگوں سے پوچھ کر لیتا تھا وہ خود اپنی عقل سے لیتا ہے۔۔۔
” اور جہانگیر صاحب یاد ہیں؟؟؟ ان سے تو یہ نجانے کون سی دشمنی نکال بیٹھا ہے “ صارم کو ایسی سیچویشن میں ہنسی روکنا محال لگ رہا تھا۔ حماد کا قصہ سوچ کر ہی اسکے باپ کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لہراتا ہے کیا وقت تھا وہ؟؟؟ حماد کی شادی۔۔۔
” سوچ لو لڑکی کی شادی ہوگئی تو تم چرسی موالی بنتے پھرو گئے “ حماد اپنا رونا پیٹنا لیکر سی ویو میں پاس رکھی بینچ پر بیٹھا تھا۔ اسکا باپ کسی طور غریب لڑکی سے شادی کرنے پر آمادہ نہیں تھا اور حمدانی کی ماڈرن بیٹی سے شادی کا سوچ سوچ کر حماد پاگل ہو رہا تھا جو اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی۔۔
” پاپا نہیں مان رہے “ اپنے بال نوچتے وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھا۔۔
” کوشش کر “ صارم کی بات تلوار کی طرح اسکے سر پر جا لگی اگر مان جاتے تو یہاں ٹائم پاس تھوری کرتا پہلے ہی انھیں بتا دیتا۔۔۔۔
” اولاد کے حقوق سناؤں؟؟ کے زبردستی شادی نہیں کرنی چاہیے؟؟ “ کچھ سوچ کے حماد نے آسان سا ھل بتا کر نتیجہ پوچھنا چاہا۔۔۔
” بیٹا اگر تو نے اولاد کے حقوق سنائے نا تو وہ والدین کے حقوق لیکر بیٹھ جائیں گئے پھر شادی کیا انکے حکم سے تو نائی کی دکان بھی کھول لے گا۔۔۔۔۔ “ صارم کی بات سن کر وہ جو اپنی تجویز پیش کر کے پُر جوش ہوا تھا واپس ڈھیلا ہوگیا۔۔۔
” کیا کروں پاپا مانیں گئے ہی نہیں۔۔۔ کیا وہ میرے نصیب میں نہیں “ تھک ہار کر وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔۔
” پپا کی ایسی کی تیسی۔۔ دیکھ ایسی لڑکی جو تجھے کہے میرا مان میرے چچا چچی ہیں اسکی عزت تار تار نہیں کر سکتی، جو تجھ سے بات کرنا بھی گناہ سمجھے،
نامحرم سے خوف کھائے ایسی کو چھوڑ کر حمدانی کی بیٹی سے شادی کرنی ہے؟ جب آج تک تم نے گندی نظریں عورتوں پر نہیں گاڑھیں تو کیا تمہیں حق نہیں تمہیں اپنے جیسی پاک بیوی ملے؟؟؟ “ صارم نے اسے تفصیلً سمجھایا باقائدہ برین واشنگ کی لیکن اُسکی ایک ہی رٹ تھی۔۔۔
” پاپا نہیں مانیں گئے۔۔ “ صارم نے دوبارہ سے یہ رٹ سنتے ہی اسے زور سے لات مار کر کہا وہ اوندھے منہ ریت پر گڑا اسکے لفظوں سے وہ حقیقتًا شرمندہ ہوا۔۔
” ابھے تو لائق ہی نہیں تجھ جیسے مردوں کو شادی کرنے کا حق ہی نہیں جب خود کے لیے اسٹینڈ نہیں لے سکتا بیوی کے لیے کیا لیگا؟؟؟ تو حمدانی کی بیٹی کو بھی ڈیزرو نہیں کرتا جا بھاگ شکل نا دیکھانا ڈیڈ نہیں مانیں گئے ڈرپوک چمچہ کہیں کا “ آخر میں اس نے حماد کی نقل اتاری لیکن اس کے غیرت دلانے پر یہ ہوا تھا کے وہ چھپکے سے شادی کرنے پر راضی تھا لیکن اس میں کافی لوگوں کی مدد چاہیے تھی اور صارم نے اسے صاف کہہ دیا تھا پہلے لکھ کر دو کے شادی کے بعد باپ کے پاس جاکر حق سے کہو گئے بیوی ہے میری۔ حماد جھٹ مان گیا۔۔۔
” بابا پلیز مان جائیں نا “ رابی نے اب کی بار غصّے سے کہا۔۔
” ہر گز نہیں سارے جعلی کام تم دونوں بھائی بہن نے کرنے کا ٹھیکا اٹھایا ہے؟؟؟ “ سکندر صارم اور آبی پر باقاعدہ گرجے تھے جو دو گھنٹے سے انکو منا رہے تھے کے حماد کا باپ بن کر صائمہ کے چچا چچی سے رشتہ مانگے۔۔
” خالو آج تک آپ سے کچھ مانگا ہے؟؟؟ پہلی بار مانگ رہا ہوں اور مجھے نامراد لوٹا رہے ہیں “ صارم نے معصومیت سے کہا۔ رابی اور صارم کے بےحد اسرار پر سکندر اور رابی کی امی حماد کے ماں باپ بن کر باقاعدہ ان سے رشتہ طے کر آئے۔ صارم بھائی اور رابی بہن بنی تھی کے کہیں گڑبر ہی نا ہوجاے۔ پھر چھوٹی سے تقریب میں نکاح کر کے حماد بیوی کو فلیٹ میں لے آیا صارم اور اسکے دوستوں نے ہی تقریب کا سارا انتظام کیا۔ صائمہ اپنے چچا چچی کے ساتھ رہتی تھی والدین تو بچپن میں ہی وفات پا گئے تو چچا چچی نے خوشی سے شادی کردی کے انکے سر سے زمیداری کا بوجھ ہٹا جبکے حماد نے یہی ظاہر کیا تھا کے بیوی کو ساتھ لیکر باہر جانا ہے اسلئے نکاح ارجنٹ ہے اور جلدبازی میں خاص تیاری بھی نہیں کی۔ پھر تقریباً ایک ماہ کے بعد حماد کا باپ روتے روتے مانا تھا آخر اکلوتا بیٹا تھا منہ موڑ کر اپنی ہی تباہی تھی۔۔۔
” انکل ناچو بیٹے کی شادی ہے۔۔۔ “ دونوں کی شادی ایک بار پھر خاندان میں دھوم دھام سے ہوئی۔ صارم کا دوست علی حماد کے باپ کو پوری شادی میں چھیڑتا رہا بارات والے دن بھی باقاعدہ دونوں ہاتھ پکڑ کے انکے ساتھ ڈانس کیا۔ صارم نے نوٹوں کی گڈیاں حماد کے باپ کے ہاتھ سے لیکر دونوں پر گھما کر ملازمین کو تھمائیں۔۔ پورے فنکشن کے دوران کسی کو سمجھ نہیں آیا حماد کا باپ رو رہا ہے یا ہنس رہا ہے۔۔ آج تک صارم حماد اور صائمہ کی شادی کی تصویریں دیکھ کر بھی یہ گھتی سلجا نہیں پایا۔۔۔۔
” اور اب یہ کمینہ زرخان کے گلے کی ہڈی بن بیٹھا ہے “ عالمگیر نے گرجدار آواز میں وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا۔۔
” اسکے بیٹے کو بھی “ سفا کے دل میں درد کی لہر اٹھی۔۔
” نہیں اسکی بیوی۔۔۔ “ عالمگیر کا لہجہ تھکا تھکا سا تھا سفا نے افسوس سے صارم کو دیکھا جسکی وجہ سے عالمگیر کی یہ حالت ہے چلا چلا کر اب گلا تک بیٹھ گیا تھا۔۔
” پتا نہیں کہاں سے جاسوسی کرکے میاں بیوی کی باتیں نکلواتا ہے۔۔۔۔ زرخان اور اسکی بیوی کی اکثر بیٹیوں کو لیکر لڑائی چلتی ہے لیکن ایک ماہ پہلے شراب کے نشے میں زرخان نے بیوی کو گھر سے نکال دیا کے ایک بیٹا نہیں دے سکی پانچ پانچ بیٹیاں میرے سر پر پھوڑ دیں۔
پھر یہ میری نکمی اولاد اُسکی بیوی کو طلاق کا مشورہ دے آیا۔ یہی نہیں کورٹ بھی اُسکے ساتھ گیا تھا نوٹس نکلوانے اور پتا نہیں کہاں سے اندر کی ساری خبریں نکال ڈالیں زرخان کی آوارہ فطرت سے اُسکا باپ واقف تھا اسلئے وہ اپنی زندگی میں ساری جائیداد زرخان کی بیوی اور بیٹیوں کے نام کر گیا۔ یہ بات زرخان کو بھی نہیں پتا تھی لیکن یہ کمینا۔۔ “ علمگیر کی پیشانی لاتعداد شکنوں سے بھری تھی جو انکے غصّے کا اعلان کر رہی تھی۔ صارم ایک چور نظر باپ پر ضرور ڈالتا اب بھی باپ کی سلوٹوں والی پیشانی غور سے دیکھ رہا تھا۔۔
” اب وکیل نے زرخان کو دھمکی دی ہے کے چوبیس گھنٹے کے اندر گھر خالی کرو ورنہ دو سو کیسسز ڈال کر ساری زندگی جیل کے اندر بند کردیں گے۔ میں نے عابدہ زرخان کی بیوی کو فون کر کے سمجھایا کے اس عمر میں طلاق سہی نہیں تو اسنے شرطوں کی لسٹ رکھدی کے اگر زرخان اسکی ساری شرطیں مانے گا شراب چھوڑ دیگا، پارٹیز میں جانا چھوڑدیگا۔۔ نشہ کرنا چھوڑیگا تبھی وہ اسکے ساتھ رہیگی ورنہ نہیں اور شرطیں بھی ایک نہیں دو سو ہیں۔۔۔ “ وہ ایک پل کو روکے اور گردن صوفہ کی پشت سے ٹکا دی۔۔
” اب آج زرخان کی بیوی گھر آگئی ہے پورے گھر پر راج کر رہی ہے وہ اور اسکی بیٹیاں، وہ خود رانی کی طرح رہ رہی ہیں اور زرخان دھوبی کے کتے سے بھی بدتر حالت میں ہے، یہی نہیں کل اسکی بیوی نے اس نکمے کو کال کر کے شکریہ ادا کیا اور زرخان نے سب سن لیا اب کل سے دھمکیاں دے رہا ہے تمہارے بیٹے کو نہیں چھوڑونگا “
اپنے سارے قصور سننے کے بعد میں نے ارد گرد دیکھا شکر عاشی وہاں نہیں تھی لیکن تین ننھے ہاتھ جو صوفہ کے پیچھے چھپے تھے مجھے دیکھ گئے۔ بس تب سے انکی نظر میں ” دادا “ وہ ہستی ہے جس سے سب کانپ کر رہتے ہیں اور وہی شخص ہے جو انکے پاپا کو تھپڑ بھی بلا جھجھک مار سکتا۔۔ مجھے بابا کی بات سے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی بلکے جہاں زندگیوں کا فائدہ ہی فائدہ ہے وہاں شرم کیسی؟؟؟؟ اس دن کے بعد دو دن تک میں گھر نہیں آیا ایک کام جو آگے کے لیے چھوڑا تھا اِس دن کرنا بہتر تھا کم سے کم ناراضگی میں بابا جاسوسی تو نہیں کریں گئے۔۔
” لیکن میں کیسے سنمبھالوں گی؟؟؟؟ یہ تینوں مجھے بہت تنگ کرتے ہیں “ عاشی مجھے بیگ تیار کرتے دیکھ باقاعدہ رونے کو آگئی۔۔
” نہیں کرینگے میں سمجھا کر جاؤنگا “ بیگ کی زپ بند کر کے میں نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں سمویا۔۔
” نہیں سمجھتے الٹا اور تنگ کرتے ہیں “ چہرے کا خوف میرے جانے کا سن کر آیا تھا۔۔۔ میں نے نرمی سے اسکا ماتھا چوما۔۔
” کسی نے بھی عاشی کو تنگ کیا تو اپنا حال دیکھنا ایک مہینے تک وہ دادا کے ساتھ سوۓ گا “ تینوں کو جاگتا دیکھ میں نے باآواز بلند کہا کیوں کے ” دادا “ کے نام سے تینوں ہی خوف کھاتے ہیں۔۔
” نہیں۔۔ ہم تو شو لئے ہیں “
(نہیں ہم تو سو رہے ہیں) سلمان میرا بڑا بیٹا ڈر کے مارے جھٹ بولا۔۔۔ تینوں جلدی سے چادر کے اندر دبکے سونے کی ایکٹینگ کر رہے تھے۔۔۔
” آپ کے جانے کے بعد اٹھے تو؟؟؟ “
میں نے ایک گہرا سانس خارج کیا کوئی پندرہ سولہ دفع میں رات کے اس پہر جا چکا ہوں شروع سے عاشی کو وارن کیا تھا مجھے کبھی نہیں روکنا لیکن اسکی وہی حرکت۔۔۔۔
” نہیں اٹھیں گئے میری گیرینٹی ہے۔۔۔ اور اگر اٹھے تو ایک کال کرنا میں تینوں کو دادا کے پاس چھوڑ آؤنگا “ اسکے وجود کو اپنے سینے سے لگائے تسلی دیکر میں تین دن بعد لوٹا تھا اور اس دوران وہ انکی ایک ایک حرکت مجھے بتاتی رہی۔۔