عاشی نے سلمان کے ننے ہاتھوں پر گرفت مضبوط کی جیسے ابھی کوئی بُری نظر اس سے یہ خوشیاں چھین لیگی لیکن تباہی کراہانے کی آواز سے اسکی سوچ کا رخ موحد کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔عاشی کی اٹھتی نظریں وہیں ساکت ہوگئیں وہی تھا۔۔۔ جس سے عاشی کی امیدیں بندھی تھیں۔،۔صارم اسکا شوہر۔۔۔۔۔
” کتے کی دم سیدھی نہیں ہوتی سنا تھا آج نمونہ دیکھ لیا “ صارم نے نفرت بھری نگاہ نیچے پڑے موحد پر ڈالی جو اسکی ایک لات کی ٹھوکر کھا کر زمین پر گڑا پڑا کراہ رہا تھا۔موحد اچانک سے پڑنی والی لات سے ابھی تک ناسمجھی سے صارم کو دیکھ رہا تھا جبکے عاشی نے ڈر کے مارے سمان اور سلمان کو سختی سے خود کے قریب کر رکھا تھا۔۔۔۔
” کہا تھا نا دور رہے کون سی زبان سمجھتا ہے تو؟؟؟ “ دھارتے ہوے اسکے قریب آکر صارم نے ایک ہاتھ سے اسکا کالر پکڑا اور اسے اٹھا کر پے در پے تھپڑ اسکے منہ پر مارے یہ تھا اسکی ناسمجھی سے دیکھنے کا جواب۔۔۔
” کتنا زہر بھرا ہے تیرے اندر؟؟؟ یہاں آکر میرے بچوں کے دلوں میں بھی انکی ماں کے لیے خناس بڑھنا چاہتا
ہے؟؟؟ “ وہ اس وقت کوئی جنونی لگ رہا تھا۔ تھپڑوں کے بعد اب اس نے موحد کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کے ایک جھٹکے سے اسے پیچھے کی جانب دھکا دیا اور اسکے زمین پر گڑتے ہی لاتوں کی برسات کردی۔۔۔۔۔
” ہر بار تجھے چھوڑ دیا یہ سوچ کر کے تو کبھی میرا بھائی رہ چکا ہے لیکن نہیں تجھ جیسا کمینہ نا بھائی بنا ڈیزرو کرتا ہے نا شوہر۔۔۔ “ اسکی آواز بلند سے بلند ہوتی جا رہی تھی موحد کے ہونٹ اور ناک سے خون بہ رہا تھا لیکن یہاں پروا کسے تھی؟؟ وہ تو آج اس بھڑکتی آگ کو کم کرنے میں ناکام محسوس ہوا تھا جسے موحد نے بھڑکایا تھا۔۔۔۔ موحد نیچے زمین پر نڈھال سا پڑا عاشی کو دیکھ رہا تھا وہی اب اسے روک سکتی ہے۔۔ نا آج وہ اسکی چیخیں سن رہا تھا نا اسکا بہتا لہو صارم کو اسے مزید مارنے سے روک رہا تھا پر یہاں تو یہ نظریں اس جلتی آگ کو مزید بڑھکا گئیں وہ تیر کی تیزی سے ایک ہاتھ سے اسکی شرٹ پکڑ کے اسے پھر اپنے سامنے لیے کھڑا دھارتے ہوے پوچھ رہا تھا۔۔۔
” ذلیل انسان پاک بیوی چاہیے تھی نا؟؟؟ پھر آج یہاں کس پاکیزگی کی تلاش میں آئے ہو؟؟؟؟ “ اپنا چہرہ اسکے چہرے کے سامنے کیے وہ پوچھ رہا تھا۔۔ سرخ آنکھیں خون ٹپکانے کو تھیں مزید ایک گندی نظر وہ اپنی بیوی پر برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔
اسکی چھپی۔۔۔
اسکی خاموشی۔۔
صارم کا خون کھول اٹھا زور دار گهونسا اسکے منہ پر جڑ دیا جس سے موحد کا چہرہ پیچھے ہوکر واپس اب صارم کے چہرے کے قریب تھا کیوں کے اسکی شرٹ کو صارم نے سختی سے جکڑ رکھا تھا تاکے وہ نیچے نا گڑ سگے۔۔۔۔
” یہ کیا کر رہے ہو؟؟؟ “ جہانگیر صاحب دور سے ہی چلاتے ہوے باقاعدہ تیز قدم اٹھاتے صارم کی طرف آرہے تھے جس کے ہونٹ اب انہیں دیکھتے مسکرا اٹھے عاشی بھی ڈری سہمی نظروں سے انھیں ہی دیکھ رہی تھی کیوں کے انکے ساتھ روتا ہوا ارحم تھا جو ماں کو دیکھ کر جہانگیر صاحب کی گودھ سے اُتر کر دوڑتا ہوا اب اسکے پاس آرہا تھا۔۔۔ صارم نے ارحم کو اٹھایا نہیں اس وقت بس اسکی نظریں اس باپ پر تھیں جو دنیا کے لیے بیٹی سے منہ موڑ گئے۔۔۔
” ہم جیسوں کی محفل میں یہ عزت دار شخص کیسے آگیا سسر جی؟؟؟؟ “ موحد کو اپنے سسر کے سامنے کھڑا کر کے وہ زہر خند مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے انکا ضبط آزما رہا تھا۔۔۔ارحم کے قریب آتے ہی عاشی نے سمان کو اتار کر ارحم کو اٹھایا جو شاید ماں کو نا پاکر رو رو کر آنکھیں سُجا چکا تھا۔۔۔
” کیا کہنا چاہتے ہو؟؟؟ “ وہ دانت پستے بولے انکی سب سے بڑی غلطی اپنی بیٹی صارم کے ہاتھوں میں دینا ہے جو اسکے باپ کی دو ٹکے کی عزت نہیں کرتا۔۔۔۔
” آپکا غیرت مند بیٹا مجھ سے ملنے اسلام آباد آیا تھا ایک ہوٹل میں۔۔ صرف یہ بتانے کے میری بیوی میری پیٹھ پیچھے۔۔۔“ صارم نے مٹھیاں بینچ لیں، عاشی کی نظریں نیچے کو جھک گئیں کوئی اتنا کیسے گڑ سکتا ہے؟؟؟ کس چیز کا بدلا لیا ہے اس شخص نے ؟؟؟اگر اسکے بیٹے سلمان اور سمان نے اسکی ٹانگوں کو پکڑا نا ہوتا وہ ضرور زمین بوس ہوجاتی۔ جبکے جہانگیر صاحب بےیقین نظروں سے موحد کو دیکھ رہے تھے جو شرمندگی سے نظریں جھکائے کھڑا تھا۔۔۔
اس نے نا صارم کو خود سے مارنے سے روکا تھا نا خود کو بچایا تھا وہ اسی لائق تھا۔۔۔ یہی ڈیزرو کرتا ہے۔۔ آج افشی کو دیکھ کر اسکے جذبات پھر بےقابو ہوگے تھے اور اسی کیفیت نے آج وہ راز کھول دیا جسے اسے امید تھی صارم کبھی کسی کو نہیں بتائے گا لیکن آج مزید وہ اس آگ پر قابو نا پا سگا جسے عرصے سے موحد ہوا دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
” موحد کیوں؟؟ “ وہ بےیقین نظروں سے موحد کو دیکھتے کسی بھیانک خواب سے بیدار ہوے انہیں بہت کچھ غلط ہونے کا امکان تھا لیکن اب کیا کرتے وقت تو گزر چکا تھا۔ موحد لب سیے انکے سامنے کھڑا تھا آج اسکا نہیں آج” عاشی “ کا دن تھا آج ہر جگہ اسی کے
” گواہ “ کھڑے تھے وہ خود بھی تو اسکا گواہ تھا۔۔۔
” اس وقت بھی ہوٹل والوں کے سامنے عزت کر کے بھیجا تھا آج اپنوں کی محفل میں کروں؟؟؟؟ جیسے اس نے میری عزت کو خاندان میں روندا تھا؟؟؟؟؟ “ اب کے عاشی اور جہانگیر صاحب بُری طرح چونکے جبکے موحد خود کو زمین میں دھنستا محسوس کر رہا تھا آج وہ وہیں کھڑا تھا جہاں چھ سال پہلے عاشی کھڑی تھی فرق اتنا تھا وہ بےگناہ تھی اور آج وہ اسکا گہنگار تھا۔۔۔
” پتا ہے سسر جی کیوں؟؟؟ کیوں کے یہ چاہتا تھا کے بیوی اسے پاک باز ملے عاشی نہیں مومنہ کی صورت میں لیکن عاشی ساری زندگی باپ کی دہلیز پر بیٹھی رہے اور جب کوئی ہاتھ نہیں مانگے گا تو آپ مجبوراً ہاتھ جھوڑ کر اپنی بیٹی اسے دیں گئے سوتن کے ساتھ۔۔۔
عاشی صرف ایسڈ کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں مشکوک بنی لیکن شک کا کیڑا اس نے پیدا کیا تاکہ عاشی سے منگنی ٹوٹے اسکی۔۔۔۔
اسے اُس وقت سانولی بھی منظور تھی لیکن پاک بیوی۔۔۔
عاشی کو بدکردار اس نے خود سمجھا۔۔۔
جب دماغ میں بیٹھا کیڑا بڑھتا گیا۔۔۔
اسنے پورے خاندان میں میری بیوی کو بدنام کیا۔۔۔
تاکے ساری عمر وہ باپ کی دہلیز پر بیٹھی رہے۔۔۔۔
لیکن جب اسے پتا چلا ایسڈ اٹیک عاشی کی دوست پر ہونا تھا اسکی محبت جاگ اٹھی پر میری خوش قسمتی تب تک وہ میری بیوی بن چکی تھی۔۔۔
اس محبت نے اسکے اندر کے شیطان کو بھی جگایا۔۔۔
میرے پاس آیا یہ بار بار۔۔۔۔
یقین دلاتا رہا میری بیوی بد۔۔۔۔ “ صارم نے لب بھینچ لئے عاشی ساکت کھڑی اسے سن رہی تھی نجانے اس کا دل کہا مر گیا تھا؟؟ بےگناہی ثابت ہونے کے بعد بھی اسے کوئی خوشی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔۔
” لیکن کیا ہے نا میں خود سے جڑے رشتوں کو نا آزمائش میں ڈالتا ہوں نا دودھ پیتا بچا ہوں کے اس جیسا کوئی آکر بھونکے اور میں اندھا بہرہ گونگا بنا رہوں آپ کی طرح۔۔۔۔۔“ صارم نے انکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا جہانگیر صاحب کی حالات ایسی تھی جیسی کوئی انمول خزانہ پاکر بھی وہ کھو بیٹھے ہوں۔ صارم نے ایک جھٹکا دیکر موحد کو چھوڑا۔ جہانگیر صاحب ایک ہارے ہوے شخصں کی طرح کھڑے عاشی کو دیکھ رہے تھے کیا وہ بھی باپ کی شرمندگی محسوس کر رہی ہے؟؟؟ لیکن عاشی کی آنکھوں میں تو اب ایک ہی چہرہ بس چکا تھا صارم کا ایک وہی محافظ اسے سامنے دکھ رہا تھا۔۔۔
عالمگیر صاحب کی حالت دیکھ کر صارم کو ایک کمینگی خوشی مل رہی تھی۔ زبان میں ہوتی کھجلی کو کھجانے کے بجائے اس نے مزید اپنے لفظوں کا رخ جہانگیر صاحب کی طرف کیا۔۔۔
” سسر جی آپ پر حیرت ہوتی ہے بیٹی روتی تڑپتی رہی لیکن یہ پتھر دل نا پھگلا۔۔ عیاشی تو بہت کرائی بیٹی کو دیکھاوا خوب کیا کے اکلوتی ہے اور آسمان پر لیجا کر کتنی اونچائی سے پٹکا ہے؟؟؟ کیا ملا اس دیکھاوے کی محبت کا؟؟؟؟ سگی بیٹی ہے نا آپکی؟؟؟؟ “ کیا بم پھوڑا تھا صارم نے انکے سر پر شرمندگی، غم وغصے سے انکی حالت بُری ہو رہی تھی کس کا گریبان پکڑیں وہ؟؟ جب خود ہی اعتبار کی مضبوط ڈور کو اپنے ہاتھوں سے توڑا۔۔۔
انکی جھکی گردن دیکھ کر اب صارم نے موحد کو مخاطب کیا۔۔
” اور تو کمینے انسان تو اب تک جان نہیں پایا تیرا وقت شروع ہو چکا ہے تو حسن پرست حسن کے پیچھے بھاگنے والا ایسا وقت نازل ہوا تجھ پر کے تو نے خود حسن کو مات دیکھ کر وہ انتخاب کیا جسکو دیکھنا تک تو گوارا نہیں کرتا اور جب تو نے ” پاک “ کو اپنے لفظوں اپنے زہریلی تیروں سے ” ناپاک “ کیا تو اسی کی پاکیزگی کا ثبوت تیرے سامنے آیا۔ جسے سن کر نیند کیا؟؟؟؟ تیری ہستی اجڑ گئی جانتا ہے کیوں؟؟؟ کیوں کے وہ تیرا نہیں میرا نصیب تھا، وہ میرا مقدر تھا تو کیسے تو اسے حاصل کرتا؟؟؟؟ وہ تیرا لاحاصل میرا حاصل تھا موحد۔۔۔ میں ہار کر جیتا اور تو جیت کر بھی ہارا اور ایسی مات تیرا مقدار بنی کے نا گھر کا رہا نا گھاٹ کا “ جیت کی خوشی میں مسکراتا آج وہ واقعی اپنی بیوی کا دل فتح کر چکا تھا۔ اپنے سسر کو اعتبار دلا چکا تھا کے کن مضبوط ہاتھوں میں انہوں نے اپنی بیٹی کا ہاتھ دیا ہے۔۔
صارم نے اب پیچھے مڑ کر افشین کو دیکھا جو تینوں بچوں کے ساتھ لگی ڈری سہمی سی کھڑی تھی اسکے کندھے سے لگے ارحم کو صارم نے لیکر خود سے لگایا تبھی اسے عاشی کی آنکھوں میں خوف نظر آیا وہ ایک جھٹکے سے پیچھے مڑا تو جہانگیر صاحب اسے عاشی کی طرف بڑھتے دیکھے عاشی جلدی سے صارم کے پیچھے چھپ گئی اسکی حرکت موحد اور جہانگیر صاحب سے پوشیدہ نہیں رہ سکی جہانگیر صاحب کے دل میں ایک درد سا لہر اٹھا انکی بیٹی انہی سے خوفزدہ ہو رہی تھی۔۔
” پلیز چلیں “
صارم کا بازو پکڑے عاشی نے التجا کی۔۔
وہ انہیں ہال کے پیچھے سیڑھی پر بیٹھا کر سلمان کے ساتھ عاشی کا سامان لینے ہال کے باہر چلا آیا۔۔
سلمان کو عاشی کا بیگ لانے کا کہہ کر وہ باہر کھڑا رہا اور امی کو میسج کر دیا کے وہ بچوں اور عاشی کے ساتھ ابھی گھر کے لئے نکل رہا ہے۔۔۔
” کیوں رو رہی ہو ؟؟ “ اسکے پاس بیٹھتے صارم نے پوچھا جو اپنا دکھ آنسوؤں کے ذریعے ہلکا کر رہی تھی۔اپنے مان ٹوٹنے کا آج جو گہرا صدمہ لگا تھا وہ روح چیڑنے جتنا دردناک تھا۔۔۔
” آپ رلاتے ہیں “ اسے دیکھتے ہی آنسوؤں پوچھتے سارا الزام ہی صارم پر لگا دیا۔۔
” رلاتا ہوں یا انہیں بہنے نہیں دیتا “ ان آنکھوں میں جزبوں کا جہاں آباد کے وہ پوچھ رہا تھا ” کہاں کمی رہنے دی جو آنسوں بہا رہی ہو ؟؟؟ “
” میں آج اکیلی تھی “ اسکی کھوجتی نگھاؤں، ان سوالوں سے بچنے کے لیے ایک اور شکوہ۔۔۔ کیوں کے وہ وعدہ دے چکی ہے اب اپنوں کی بےرخی کا ماتم نہیں کریگی۔۔۔
” اب کبھی نہیں ہوگی “ وہ یقین دلا رہا تھا۔۔
” جھوٹ آپ راتوں کی غائب رہتے ہیں “ صارم اسے دیکھتا رہ گیا جو کسی توڑ اس بات کو چھوڑنے والی نہیں تھی اب وہ اسے کیسے بتاتا سارے کام رات کو ہی تو ہوتے ہیں۔۔۔
” لیکن اپنے سپاہی تمہارے پاس چھوڑ جاتا ہوں جو نا تمہیں درد دیتے ہیں نا رونے دیتے ہیں۔۔۔ “ یہ سچ ہی تھا اسکا اقرار عاشی بھی کرتی ہے تینوں کو وہ ٹرین
کرکے جاتا تھا کے جب تک ماں نا سوے کسی نے نہیں سونا اور دھمکی بھی دے جاتا کے روم میں جگہ جگہ کمیراز ہیں وہ انکی ایک ایک حرکت دیکھ رہا ہے۔۔۔
”سلمان مما کا خیال رکو گئے نا؟؟ رولائو گئے تو نہیں “ اب وہ سلمان سے پوچھ رہا تھا جو کب سے دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔ صارم کے پوچھنے پر سلمان نے سر ہاں میں ہلا کر عاشی کے آنسوؤں پوچھے یہ محبت دیکھ کر عاشی کی آنکھیں مزید بھیگ گئیں سلمان کے ننے ہاتھوں کو تھام کر عاشی نے ان پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔۔۔
” مما میں “
” مما میں “ سلمان کو ماں کا پیار پاتا دیکھ کر ارحم اور سمان بھی چلا اٹھے عاشی نے دونوں دائیں بائیں بیٹھے سمان اور ارحم کی پیشانی چومی۔ تبھی عاشی کی نظر بائیں جانب بیٹھے صارم پر پڑی جو آنکھوں ہی آنکھوں میں کہ رہا تھا ” میری حق کہاں ہے؟؟ “ لیکن عاشی نے جلدی سے نظریں پھیر کر تینوں کو اٹھنے کا کہا ” چلو اب گھر چلیں “ تینوں کو اٹھا کر وہ انکا ہاتھ پکڑ کے کار کی طرف چل دی جبکے صارم کی نظروں سے اسکے گالوں کی سرخی پوشیدہ نا رہ سگی۔۔۔۔
☆.............☆.............☆
انسان کو اپنی زندگی جینے کا پورا حق ہے میرا یہی ماننا ہے زندگی ایک بار ملتی ہے گھٹ گھٹ کے دوسروں کے اشاروں پر جینے سے اچھا ہے انسان اپنے لیے اسٹینڈ لے۔ آزادی ہر انسان کا حق ہے وہ کام کیوں رو رو کر مر مر کر کریں جس میں آپکا نا دل راضی ہو نا دماغ؟؟ مجھے رابی نے بہت پہلے ایک تصویر دیکھائی تھی کسی آرٹسٹ کی کے ایک آدمی ایک ہاتھ میں دل جبکے دوسرے میں دماغ لیے کھڑا ہے چہرے پر تکلیف کے تاثرات شدید تھے اور وہاں لکھا تھا ” The Search For Balance “
اور آج تک میں اس دل و دماغ کو بیلنس نہیں کر پایا اور یہ اسٹیٹمنٹ نہیں فیکٹ ہے کے کوئی بھی انسان اسے بیلنس نہیں کر سکتا کیوں کے دل و دماغ کبھی ایک کام کرنے کو نہیں کہتے جیسے میرے دماغ نے کہا باپ ہے۔۔ جنت کا دروازہ ہے۔۔۔ اسکا حکم مانو اسلام میں بھی کہا گیا ہے جب نماز پڑھو اور باپ آواز دے تو پہلے اُسکی سنو پھر نماز ادا کرو لیکن زندگی کا فیصلہ؟؟ کیا مایوسی کفر نہیں؟؟ دل کو مار کر بندا کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟؟ پل پل کی مایوسی جیتے جی مار دیتی ہے۔ کبھی کبھی باپ فیصلہ سنا دیتا لیکن بعد میں خود سوچتا شاید اُس وقت انا، ضد کو سائیڈ پر رکھتا تو آج بیٹا اس حالت میں نا ہوتا لیکن تب کیا فائدہ پچھتاوے کا جب اُس انسان کا دل ہی اندر سے مر گیا ہو۔۔۔۔۔۔
وہ چاہتے تھے میں ڈاکٹر بنوں جبکے میرا دل آرمی آفسر بننے کا چاہتا تھا لیکن یہاں میری قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ آرمی میں میرا سلیکشن نہیں ہوا اسلئے میڈیکل میں۔۔۔ میں نے ہونے نہیں دیا۔۔۔ کیوں کے بابا کے کہنے پر ٹیسٹ دینے تو گیا تھا لیکن بابا سے ہوئی تلخ کلامی کے بعد دماغ اس طرح گھوما کے جو آتا تھا وہ بھی نہیں کیا۔۔ دو گھنٹے کسی طرح تو کاٹنے تھے؟؟ اسلئے پیپر کے پیچھے اپنا حال دل لکھ کر آگیا۔۔
آپ سوچ رہے ہونگے میں یہاں کیا کر رہا ہوں ایم سی کیلوز کیوں نہیں کیے؟؟؟
اب آپ واپس دیکھنے گئے ہیں کیا میں نے ایک بھی ایم سی کیلوز نہیں کیا؟؟؟
اب آپ کو میں کوئی پاگل لگ رہا ہونگا؟؟؟
اب آپ سوچ رہے ہونگے کے امیر باپ کی بگڑی اولاد ہونگا؟؟؟ پیسے ہیں سیٹ لے لونگا؟؟؟
اب آپ سوچ رہے ہونگے آپ اپنا ٹائم کیوں ویسٹ کر رہے ہیے؟؟ باقیوں کا چیک کرنے لگا دوں؟؟؟ ارے روکیں قسم سے ایک آخری سوال ہے۔۔
میرا باپ پورے سال میں اتنا نہیں کماتا جتنا آپ بچوں کے الگ الگ کالجز میں ٹیسٹ لیکر ایک دن میں کماتے ہیں میرا سوال یہ ہے کے ایک ہی ٹیسٹ کیوں نہیں لیتے گورمنٹ اور پرائیویٹ کالجز کے؟؟یا دو لےلیں ایک گورنمنٹ ایک پرائیویٹ کا لیکن یہ کیا چال بازی ہے ٹیم صرف آپ کی ہو لوٹے ہر میدان سے؟؟ اتنا پیسا کما کر کرتے کہاں ہیں جاتا کہاں ہے اتنا پیسا اسٹوڈنٹس کو مینٹلی ڈسٹرب کر کے کیسے سکون بھری نیند آتی ہے؟؟ ویسے ایک اوفر ہے مجھے بھی ساتھ لے لیں ملکر لوٹیں گئے عوام کو۔۔۔۔
دل کی ساری بھڑاس نکال کر میں کچھ دیر ہیڈ ڈاؤن ہوکر لیٹ گیا لیکن ایک ایم سی کیوز تک حل نہیں کیا۔۔۔ کیوں کے یہ میرا پیشن نہیں تھا نا میری اسٹرنتھ ہے۔ بابا نے رشوت کے ذریعے مجھے سیٹ دلانی چاہی لیکن میں نے اپنے ڈاکومینٹس خود ہی ایسی جگہ چھپا دئے کے ڈھونڈنے سے مجھے تک نا ملیں۔۔۔
انسان کو ڈر کس چیز کا ہوتا ہے؟؟؟ بس اپنے رشتے کھونے کا اور میں جب جانتا تھا میرا یہاں فیوچر نہیں لڑ جھگڑ کر بھی بابا نے گھر سے نہیں نکالنا تو ڈرتا کیوں؟؟ اسلئے پیپر میں وہ لکھتے ہوے بھی مجھے کوئی ڈر نا تھا۔ فیل تو ہونا ہے تو انھیں تپا کر ہوں نا۔ سب اتنا آسان نہیں ہوتا مجھے یاد ہے میری اس حرکت پر بابا نے مجھے بہت مارا تھا اتنا کے مارتے مارتے انکا سانس پھول گیا امی کہتیں ہیں مارتے ہیں تو پیار بھی بےحد کرتے ہیں انکا اپنا کونسا مطلب ہے بھلائی تمہاری ہی ہے۔۔
” کون سی بھلائی امی؟؟ میرا شوق ہی نہیں تو کیوں کروں میڈیکل؟؟ آج بابا ایگزیم دلا رہے ہیں سیٹ لیکر دے رہے ہیں لیکن کل کو انہی ہاتھوں سے مریض کو مار دیا پھر؟؟؟ کون زمیدار ہوگا؟؟ ارے میڈیکل کی بکس دیکر دل چاہتا ہے قومہ میں چلا جاؤں لیکن ان ہاتھوں سے کبھی نا کھولوں۔۔۔چڑ ہوتی ہے امی نہیں شوق مجھے آخر دنیا میڈیکل پر ختم تو نہیں ہوتی بابا کا شوق تھا بنے میرا نہیں ہے مجھے غلامی نہیں منظور۔۔ میں اپنا آپ کھو دونگا امی۔۔ مجھے لوگوں کو مارنا نہیں انکے لیے جینا ہے حفاظت کرنی ہے مجھے آرمی میں جانا ہے امی۔ “ آخر میں میری آواز بھر آگئی آج بھی وہ دن یاد کر میری روح تڑپ اٹھتی ہے۔ میں زندگی تک سے مایوس ہوچکا تھا اتنا کے ایک دن یہ تک کہہ دیا۔۔
” اللہ میری دعا قبول نہیں کرتا۔۔ “ ہر رشتے، ہر چیز سے دل اٹھ چکا تھا تب امی نے میری حالت دیکھ کر سکندر خالو کو کال کی۔
اگلے دن انہوں نے مجھے جن سے ملایا اُس انسان نے میری زندگی بدل دی۔ وہ خود ایک آرمی آفسر تھے لیکن ایک بم بلاسٹ میں وہ اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہوگے۔ اب نقلی ٹانگ کے ذریعے باقی کی زندگی گزار رہے تھے ریٹائر ہوکر بھی انکل ان میں سے تھے جو اپنی قابیلیت ضائع ہونے نہیں دیتے اسلے انہوں نے اپنی ایک انویسٹیگیشن ایجنسی کھولی جسکے لیے انہوں نے ایک نوجوانوں کی ٹیم تیار کی باقاعدہ ٹرین کیا ہمیں ایک ایک چیز سیکھائی۔ اس ٹیم میں انکا بیٹا بھی شامل تھا لیکن انہوں نے اپنی زیادہ تر صلاحیتیں میرے حوالے کیں کیوں کے انکا بیٹا بےحد جزباتی اور غصّے والا تھا انھیں معلوم تھا وہ عقل کی جگہ طاقت سے کام لیتا ہے۔ اسلئے انہوں نے ہر کسی کے لیے الگ کام منتخب کیا جیسے میں پوری پلینگ کرتا اُس ایریا کا نفشہ بنا کر جگہ جگہ حفظ کرتا وہاں پہنچ کر انھیں مائکرو فون سے گائیڈ کرتا اور ہماری اس ٹیم کی ایک بات بہترین تھی کے چاہے راستہ بھول جائیں یا غلطی ہو جائے۔ اول اپنی ٹیم کو انفارم کریں گئے کے کہیں انکے پیچھے آنے والے بھی نا پھنس جائیں۔ عارف ہتھیاروں کا انتظام کرتا ہے، سیف ان لوگوں کی ساری انفارمیشن اکھٹی کرتا ہے جبکے بلال فون ٹیپ کرتا ہے اور چھوٹے سے چھوٹا سراغ باریکی سے دیکھتا ہے۔۔ اس طرح ہم نے آج تک نجانے کتنے کیسسز حل کیے۔ جہاں اتحاد ہو وہاں جنگ جیتنا زیادہ مشکل نہیں ہماری اسٹرونگ ٹیم ہی ہے جسکی وجہ سے آج بڑے بڑے بزنس ٹائکون اپنا کیس دیتے ہیں۔ کڈنیپینگ، مرڈر، روبری،ریپ،دہشت گرد سارے مجرموں کو ان ہاتھوں سے سیفی (اسفند انکل کا بیٹا)میں نے اور انکل نے انکے انجام تک پہنچایا۔۔۔
اکثر لوگ پولیس کے پاس جانے سے ڈرتے ہیں لیکن یہ وہاں زیادہ ہوتا ہے جب آپ خود غلط راستے کے مسافر ہو یا اکثر کڈنیپینگ میں دھمکی دے جاتی ہے کے پولیس کو کانوں کان خبر نا ہو۔ ایسی سیچویشن میں وہ ہمارے پاس آتے ہیں اور جہاں ہمیں ڈرگ ڈیلینگ یا بم بلاسٹ کی خبر ملتی ہے پھر وہ پولیس اور آرمی تک پہنچانا انکل کا کام ہوتا۔ مجھے یاد ہے عارف مجھے انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے ہیڈ سے ملایا تھا اور کہا تھا جب بھی ہم کسی جرم میں قید ہوں یا کہیں پھنسے پہلے ان سے رابطہ کریں وہ اپنی زندگی میں ہی ہمیں اپنے عزیز دوستوں اپنی ٹیم سب سے آگاہ کر چکے تھے اور ایک دن چپکے سے وہ اسی سرزمین کے لیے لڑتے لڑتے اس میں دفن ہوگے انکی ڈیتھ کے ایک سال بعد انکا بڑا بیٹا زیشان بھی ملک کے لیے شہید ہوکر اس فانی دنیا سے کوچ کر گیا۔۔۔
اپنی زندگی میں میں نے ایسے جنونی لوگ دیکھے ہیں جو وطن پر مر مٹتے ہیں شہادت کے لیے ترستے ہیں اس مٹی سے محبت کرتے ہیں۔ میں یہ باتیں اکثر رابی سے شیر کرتا تھا ایک دن وہ بھی نجانے کس موڈ میں تھی کے اپنے ایک اسکیچ کو دیکھتے۔ وہ کھوے کھوے لہجے میں بولی۔۔۔۔۔
” صارم کتنا اچھا ہوتا نا میں بھی آرمی میں ہوتی۔ گناہ سے دور برائی سے دور، غیبت سے دور، غصّے کو کنٹرول کرتی، وہاں بارڈر پر ہوتی سب سے دور۔۔ اور آخر میں شہادت نصیب ہوتی عام سے خاص بن جاتی جو نہیں جانتے وہ بھی جان جاتے۔۔۔۔ “
وہ اکثر کافی لوگوں کے خلاف آرٹیکلز، تحریریں لکھتی کچھ لوگ حد سے زیادہ بتمیزی کر جاتے تب وہ ایسے ہی اپسیٹ ہوتی ہے اُس دن بھی تھی۔ میں سمجھ گیا تھا کسی نے طعنہ دیا ہوگا کے ” سوشل میڈیا سے نکل کے باہر آکر ہڑتال کرو “ اکثر وہ ایسے جملے سنتی تھی۔ رابی نے ایک دفع کڈنیپینگ پر آرٹیکل لکھا تھا ایک پوش ائیریا سے ایک خوبصورت لڑکی رات میں کڈنیپ ہوئی تھی اپنے دوستوں کے ساتھ وہ کسی ٹریپ کے لیے نکل رہی تھی۔ اگلے دن لڑکی کی فیملی جہاں رو رو کر نڈھال ہورہی تھی وہیں نیوز پر یہ خبر چلتے ہی سب لوگوں نے لڑکی کے خاندان کو اپنے لفظوں سے زمین میں دھنسا دیا۔۔ ایسے ایسے فقرے تھے کے رابی کا خون کھول اٹھا اور اُس نے ایک آرٹیکل لکھا تھا جسے پڑھ کے لوگوں نے اسے بھی خوب سنایا۔۔۔
کے لڑکی نے گھٹیا کپڑے پہنے تھے۔۔
کیا ضرورت تھی رات کے وقت نکلنے کی؟؟
یہی ڈیزرو کرتی تھی سہی ہوا۔۔۔
کڈنیپرز کے تو عیش ہوگے۔۔ یہ وہ الفاظ تھے جو اس لڑکی کے لیے استعمال ہوے اور رابی کو بھی اسکا ساتھ دینے پر لوگوں نے خوب سنایا۔ آخر اب ان باتوں کا مطلب؟؟ ایک لڑکی گھر سے غائب ہے اور تم لوگ ساتھ دینے کے بجے اسکے ماں باپ کو جیتے جی مار رہے ہو؟؟ خود کی بہن ہوتی تب بھی زبان زہر اگلتی؟؟ مجھے ایسے لوگوں پر افسوس ہوتا ہے جو میت میں آکر بھی اس مرنے والے کو کوستے ہیں۔۔۔ لیکن اس بیچ رابی کو کافی لوگوں نے سپورٹ بھی کیا جہاں دس پرسنٹ نیگیٹو لوگ تھے وہیں نوے پرسنٹ اچھے لوگ اور رابی نے دس کو چھوڑ کر نوے کو اپنی ہمت بنایا۔۔۔
انسان ہر کسی کو خوش نہیں کرسکتا اسلئے ان دس کے لیے نوے سے منہ نہیں موڑ سکتی رابی ڈگمگائی ضرور تھی لیکن گری نہیں تھی اس نے اپنا کام جاری رکھا۔۔۔۔
رابی اور میں سکے کے وہ دو پہلو تھے جو سکندر خالو کے رحم و کرم پر تھے انہوں نے خود زندگی میں جی توڑ اسٹریگل کی اور ہمارے دماغوں میں بھی یہی بات بٹھائی ” جس میں خوشی ہے وہ کرو کسی کو خوش کرنے کے لیے اپنے شوق سے منہ مت موڑو بلکے اتنی محنت کرو کے مایوس لوگ خود اٹھ کر محفل میں تمہارے کیے تالی بجائیں۔۔ “
اور آج میں یہاں خطروں سے کھیل کر پھر جی اٹھتا ہوں یہ ایڈونچر میری زندگی ہے۔ میری اسٹرنتھ ہے۔ میری خوشی ہے۔ اس بھاگتی زندگی میں مجھے ایک اور خوبصورت تحفہ ملا کیا دن تھے نا وہ بھی کے اللہ سے مایوس ہو بیٹھا تھا اور آج جب نوازا تو نوازتے گئے۔ پہلے عاشی کی صورت میں محبت کرنے والی وفادار بیوی سے نوازا۔ جو مجھے تکلیف میں دیکھ کر مرجھا اٹھتی ہے اسکا ہسپتال میں کیا اقرار مجھے آج تک یاد ہے۔۔۔۔
وہ جب آئی تھی میں بےشک اس سے محبت کا دعویدار نہیں تھا لیکن اسکی ذہنی کیفیت دیکھ کر میں پریشان ہوجاتا وہ اپنے گھر والوں کو زیادہ یاد نہیں کرتی تھی لیکن کبھی کبھی ٹی وی دیکھتے اُسکی نم آنکھیں مجھ پر بہت کچھ عیاں کر دیتیں کے ضرور اس سین سے عاشی کی کچھ یادیں جڑی ہونگی۔۔۔۔