صبح ہی ہماری صلح ہوئی تھی میں اُسی وقت رابی سے بہت کچھ پوچھنا بتانا چاہتا تھا کے صارم کی کال آئی تھی ۔ جسے میں نے خود غصّے سے اٹھایا کیوں کے فون میرے قریب ہی تھا اور سیل پر صارم نام دیکھتے ہی میں سمجھ گیا رابی کے ہاتھ لگا تو چھ سات گھنٹے میرے برباد۔
میں نے فون اٹھاتے ہی خود اُسے کہا رابی واشروم میں ہے کل کال کرے اور رابی کے منہ پر ہاتھ رکھے سخت گرفت جمائے اِسے آنکھیں دیکھاتے وارننگ دی جو میری بات سنتے ہی میرے سینے پر کسی پہلوان کی طرح مکوں کی برسات کر رہی تھی۔۔ مجھے یقین تھا اب وہ کال کاٹے گا لیکن دوسری طرف سے فون کاٹنے کے بجاۓ وہ کمینہ خوشی خوشی اپنے ایکسیڈنٹ کی اطلاح دے رہا تھا۔۔
”اچھا رابی واشروم سے نکلے تو اُسے ہوسپٹل لے آنا۔ میرا شدید بُرا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ ڈاکٹر نے ٹانگ کاٹنے تک کا کہا لیکن میں نے خود ہی منع کردیا کے ایڈجسٹ کرلونگا کاٹو نہیں۔۔۔ اور سنو جلدی آنا بھوک لگی ہے۔ مونگ پھلی، ساتھ میں کچھ فروٹس اور جوسسز لے آنا۔“
میں منہ کھولے اسکی شدید بُرے ایکسیڈنٹ کی خبر سن رہا تھا لیکن وہ مزید کہہ رہا تھا کے ” ہاں آخری بات رابی کو کہنا افشین کو بھی ساتھ لے آئے اکیلے بیٹھا بور ہو رہا ہوں “ اِسکی تفصیل سن کر میرا دماغ تو گھوما تھا لیکن ایکسیڈنٹ کا سن کر میں پریشان بھی ہوا تھا جبکے رابی پُر سکون تھی اور راستے میں ہی مجھے اسنے بتایا کے یہ عام بات ہے۔۔۔
ؓمونگ پھلی تو نا ملی لیکن چپس جوسسز ساتھ اُسکی افشین لیکر ہم ہسپتال پہنچے۔ تین دفع تو اسکی بیوی پٹی میں جکڑا پیر دیکھ کر بےہوش ہوتے ہوتے بچی لیکن وہ کمینہ اُسے پروا کہاں تھی کسی کی؟؟ الٹا ہم دونوں میاں بیوی کے بیچ آگ لگا کر خود اپنی بیوی کو کسی ایکسرے مشین کی طرح اسکین کر رہا تھا ایک پل جو اسکی نظریں اپنی بیوی سے ہٹی ہوں اس بیچ دو دفع اسنے مجھ سے مونگ پھلی اور پانی کے لئے چکر لگوایا میں نے بھی غصّے میں طنز کیا کے کسی اور دن ایکسیڈنٹ کرواتا تو اُس نے بدلا رابی کی باتوں سے لیا۔ دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے چچا کی بات بلکل سہی تھی اب تو میں خود گواہ تھا پورا پاگل اس صارم کے بچے نے کیا ہے میری رابی کو کیا کچھ سیکھایا ہے۔ پروفیشنل لائف تو ٹھیک تھا لیکن یہ تو پرسنل میں گھس آیا۔ میرے آشیانہ بسانے سے پہلے کورٹ کا چکر لگوا لیا۔۔
ایسی ایسی پٹیاں پڑھائی تھیں اُسنے رابی کو کہ بندہ اپنی ہی بیوی پر غصّہ کرنے سے پہلے بھی سوچے کے سامنے والی لڑکی غصّہ کی تیز ہے کہیں چائے نا پینے دینے پر کیس ہی نا کردے خیر میں اُسے وہیں چھوڑ کر گھر چلا آیا اور تیار ہوکر آفس کے لئے نکل گیا۔ کام کرتے وقت اکثر اوقات میرا دھیان رابی کی طرف چلا جاتا۔ کیا وہ سوچتی ہوگی مجھے؟؟ صبح کے اقرار کے بعد اُسے اندازہ تو ہوگیا ہوگا وہ کتنی اہم ہے میری زندگی میں؟؟ صبح کا واقع یاد کرتے ہی ہونٹ خود با خود کھل اٹھتے گھر پہنچا تو وہ میڈم ویسی ہی سجی سنوری پورے روم کی صفائی کے بعد اپنا سامان لیکر نیچے اسکیچنگ کر رہی تھی آج بالوں کی فش ٹیل بنا رکھی تھی میں نے اسے چھیڑا نہیں کیوں کے فش ٹیل اس پر بےحد جچ رہی تھی کہیں میرے چھیرنے پر وہ اسے اپنی ڈکشنری میں سے نا ہٹا دے۔۔
میں اُسے لیے کمرے میں آگیا کافی دیر تک اسی کی زبان میں اُس سے باتیں کرتا رہا یعنی ” اسکیچنگ “ میں نے اپنا ہر ڈر سوال کے ذریعے دور کیا۔۔
” سانولی لڑکی تم تھیں اُس اسکیچ میں؟؟ “ میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کے چہرہ اونچا کیا ہم دونوں اس وقت بیڈ پر بیٹھے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔۔ اسے شاید میرا چہرہ اونچا کرنے والی حرکت اچھی نہیں لگی تبھی میرا ہاتھ ہٹا کر قریب آکر اُسنے میرے کندھے پر سر رکھ دیا۔ شاید وہ میری نظروں سے بچنا چاہتی تھی اسلئے یہاں بھی وہ فاصلہ قائم کیے ہوے تھی اس طرح کے اسکی پیٹھ ہلکی سی میرے سینے کو چھو رہی تھی۔جبکے اپنے دونوں ہاتھ گود میں رکھے وہ میرے ہر سوال کا جواب دیتی جا رہی تھی۔۔۔
” نہیں۔۔ مگر وہ حقیقت تھی “
” کب سے بنا رہی ہو؟؟ “
” بچپن سے۔۔ “ میں اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرتا اس سے پوچھتا رہا تھا۔۔
” کیا روز بناتی ہو؟؟ “
” نہیں اکثر اوقات کوئی واقعہ دیکھ کر ذہن میں اپنے نظریہ سے حفظ کرتی ہوں پھر رفلی اُسے کسی پیپر پر بنا کر بعد میں سہی سے سکیچ بناتی ہوں۔۔ “
اُسکا وزن میرے کندھے پر بڑھتا جا رہا تھا شاید وہ غنودگی میں جا رہی تھی۔۔۔
” پھر کب بناتی ہو؟؟ “
” جب اداس ہوتی ہوں۔۔ اکثر کبھی کبھی روتے ہوے کیا بنا لیتی ہوں پتا نہیں چلتا۔۔ “ وہ آج سب عیاں کر رہی تھی۔
” کون سا بنایا تھا روتے ہوے؟؟ “ میں نے چونک کر پوچھا بھلا روتے ہوے اسکیچ بنتا ہے ؟؟؟
” آپ کا۔۔۔۔ جو آپ نے پھاڑ دیا “ وہ دھیمے سے بول رہی تھی اور میں حیرت کا جھٹکا کھا کر شرمندہ ہوا تھا تبھی وہ اتنا روڈلی بات کر رہی تھی؟؟ کیونکے وہ میری کافی حرکتوں سے وہ واقف تھی۔۔۔
” اب دوبارہ کب میرا اسکیچ بناؤ گی؟؟ “
میں نے محبت پاش لہجے میں اس سے پوچھا جواب نا ملنے پر میں نے اسکی طرف دیکھا تو وہ مکمل غنودگی میں جا چکی تھی اسکا سر میرے کندھے سے لڑھکنے والا تھا جسے میں نے نہایت احتیاط سے تکیے پر رکھا اور کافی دیر اسکی بند آنکھوں کو دیکھتا رہا۔۔۔
آج بھی میں روز اسکے پیج کا چکر لگاتا ہوں جہاں وہ روز میرے لئے ایک پہیلی چھوڑ جاتی ہے۔ میرا ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھ اب امی بابا بھی مطمئن ہوگے ہیں کزنس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بڑھ گیا ہے۔ بےرونق سی زندگی جسے میں نے خود ہر رنگ سے محروم کیا تھا اب واپس وہ رنگ برنگے رنگوں میں اپنوں کی صورت میں سکون فرائم کرتی ہے۔ میرے آفس سے آنے کے بعد زیادہ وقت گارڈن میں رابی کے ساتھ گزرتا ہے میں اُس سے وہی پوچھتا ہوں جس میں اُسے دلچسبی ہے ورنہ میری تھوڑی سی رومینٹک فضول گوئی سے چڑ کر وہ اپنا کام ویسے ہی چھوڑ کر کچن میں گھس جاتی ہے۔ اِسکا موڈ دیکھ کر میں کم ہی اُسے تنگ کرتا ہوں آج بھی وہ ویسی ہی ہے پہلے دن کی طرح میرے آگے پیچھے نہیں گھومتی لیکن میری ایک ہلکی آواز پر بھی سارا کام چھوڑ کر وہ کچن سے بھاگی چلی آتی ہے اور جب تک آفس نا جاؤں اُسکے قدم کمرے سے باہر نہیں جاتے لیکن بس ایک کسک ہے دل میں اُسکی چُپی۔۔۔ یہ چپ رہنے کی عادت میں نے سرد آ بھری۔۔۔ نجانے وہ بچپن سے اتنی خاموش گو ہے یا شادی کے بعد سے ہے؟؟ اکثر میں اُسکی اِس خاموشی کو توڑنے کے لئے کوئی فرمائش کرتا ہوں۔ جیسے ایک دفع اُسے رس گلے بنانے کا کہا اور اُس دن وہ بول رہی تھی میں سن رہا تھا ساتھ اپنا سر پیٹ رہا تھا۔۔
” سہی تو بنائیں ہیں کیا خرابی ہے؟؟ میں چائے کی چھاننی لاتی ہوں دیکھنا سارے گلے باہر آئیں گے “ رس گلوں کا یہ حشر تھا کے رس گُلوں کے میٹھے پانی میں رس گُلے ٹوٹ کر ڈھوب چکے تھے اب مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا انکو پینا ہے یا کھانا؟؟ ویسے کھاتا کیسے رس گلے تو ڈوب گئے مجھے لگا شاید پینا ہی ہے بس پھر اِسی کشمکش میں تھا کے رابی نے مجھے سڑا ہوا منہ بناتے دیکھ کہا اور چائے دانی لے آئی جسے میٹھے پانی میں ڈال کر رس گلے کے ٹکرے نکالے اور چمچ سے کھانے کا مشورہ دیا۔۔ اسکے بعد سے تو میں نے توبہ کرلی جو بنے گا کھائونگا لیکن فرمائش نہیں کرونگا۔ رابی ناشتہ اور چائے تک سہی ہے ورنہ دن رات کا کھانا بنانے لگی تو میری زندگی اُسے کھاتے کم ہوتی جانی۔
اُس دن تو چپ چاپ ایک دو گھونٹ پی لئے لیکن اُسکے بعد سے میری ہمت جواب دیگئی اور ایک دن جب میں نے ایک بار بس غلطی سے کہا کے مجھے ڈفرنٹ ڈشز ٹیسٹ کرنے کا شوق ہے تو میڈم ہر روز کچھ نا کچھ انوکھا بنانے لگیں جسکا ٹیسٹ کا تو پتا نہیں دیکھ کر سوچتا یہ کون سی سبزی ہوگی؟؟؟ تنگ آکر میں نے ایک دن چچا سے کہا۔
” چچا رابی کے بنائے کھانے کھا کر میری زندگی کم ہوتی جا رہی ہے یہ سلسلہ بند کروادیں ورنہ اگلی ملاقات ہسپتال میں ہوگی اکلوتا داماد ہوں آپ کا کچھ خیال کرلیں “ میری شکل دیکھ کر وہ ہنس دئیے۔ اُسی دن رابی کو بھی سمجھایا۔ رابی نے مجھے تو کچھ نا کہا لیکن یہ چیلینج ایکسیپٹ کر کے وہ کم مقدار میں کچھ نا کچھ بنانے لگی اور اسکیچنگ سے زیادہ وقت اُسکا کچن میں گزرنے لگا ایک دن جب میں نے کڑاھی کھا کر اُس کڑاھی کی تعریف کی تو امی نے بتایا۔۔
” بیٹا یہ رابی نے بنائی ہے “ میں اُسکا منہ تکتا رہ گیا جو روٹی کے چھوٹے چھوٹے نوالے لے رہی تھی واقعی یہ اُس نے بنائی؟؟ بغیر کسی خرابی کے؟؟ دیکھنے میں بھی چکن لگ رہا تھا میں نے ایک نظر غور سے جائزہ لیتے سوچا میری انویسٹیگیشن (investigation ) شاید ساتھ بیٹھی رابی نے دیکھ لی تبھی قریب آکر ہوشیار بھی کیا۔۔۔
” زیادہ مت کھانا میں نے بنایا ہے کہیں اسے کھا کر باقی کی زندگی ہسپتال میں نا گزرے “ میری کھانسی کا ناختم ہونے والا دور شروع ہوگیا کھانا ایسا ھلق میں اٹکا کے کھانس کھانس کے گلا تک سوکھ گیا۔۔۔۔
” میں نے رابی کو منع نہیں کیا تھا۔ بس احساس دلایا کے بچی نہیں ہوئی موبائل سے ہٹا کر دھیان کھانا پکانے پر رکھوگی تو ہی کھانے لائق بنے گا۔۔ “ چچا نے آج کی کاروائی دیکھ کر میری کندھے کو تپھک کر کہا۔۔
” لیکن آپ کی افلاطون بیٹی ہر بات کو چلینج سمجھ بیٹھتی ہے “ میری بات سے وہ بھی ہنس پڑے یہ سچ تھا رابی کو ٹوکنا چیلنج کرنا ہے۔ کل میرے دوست ارمان کی شادی تھی میں نے صبح ہی رابی کو جلدی تیار ہونے کا کہا اور جب رات میں تیار ہوکر کار پارکنگ سے نکال کر میں اُسکا انتظار کرنے لگا تو ایک بار پھر اُس لڑکی نے مجھے اپنی سوچوں میں جکڑ لیا۔۔
وہ امی کا سیٹ پہنے ہوئی تھی اتنی گرمی میں بھی اس نے دو بڑے سیٹ گلے میں پہنے تھے اور میں جانتا تھا یہ سب اُسنے جان بوجھ کر مجھے اُس الزام سے بری کرنے کے لیے کیا ہے کیوں کے سیٹ پالشڈ تھے جبکے میں نے جب سیٹ نکالے تھے تب اُن کی رونق مانند تھی اب وہ نئے سیٹ کی طرح چمک رہے تھے۔ ساتھ اُسنے انکی میچنگ چوڑیاں اور انگھوٹی بھی پہنی تھی میں تو پورے راستے ایک لفظ تک ہلق سے نا نکال سکا وہ بھی چُپ چاپ بیٹھی تھی پھر شاید میری شرمندگی محسوس کر کے اُس نے بات کا آغاز کیا۔۔۔
” آپ میری ہر شکایات بابا سے کیوں کرتے ہیں “
” کیونکہ اُنکی تم سنتی ہو۔۔ “ میرا لیا دیا انداز تھا۔ اس وقت کوئی بات اچھی نہیں لگ رہی تھی۔۔۔
” یعنی آپ کے بیٹے یا بیٹی کی شکایات مجھے آپ سے کرنی پڑے گی؟؟ “ میرے کان یکدم کھڑے ہوگے یہ فضول مذاق نہیں تھا میں نے غور سے اُسکا چہرہ دیکھا جو بےتاثر تھا وہ ایسی ہی تھی شاید اب بھی مجھے وہ نا بتاتی اگر میرا موڈ خراب نا ہوتا میں نے جلدی سے امی کو کال کر کے کنفرم کیا اور خوشی خبری ملتے ہی کار ایک سڑک پر آکر روک دی۔۔۔
” رابی تم۔۔ مجھے بہت اچھی لگتی ہو بہت زیادہ اتنی کے دل چاہتا تمہیں کھا جاؤں “ اپنے بازو کے گھیرے میں لیکر میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ میرے انگ انگ سے جھلکتی خوشی لہجے میں بےتابی، بےپناہ چاہت رابی اس پل ساکت نگاہؤں سے مجھے تک رہی تھی پھر اپنی پیشانی پر میرا لمس محسوس کرتے ہی اسکے گال تپ اٹھے،پلکیں لرز اٹھیں اگلی ہی لمحے وہ اپنا سرخ چہرہ جھکا گئی شاید اب بتا کے پھچتا رہی تھی میں نے دل لوٹ لینے والا منظر غور سے دیکھا اور خود ہی اُسکی الجھن محسوس کرتے ہی کار اسٹارٹ کردی۔ میرے لبوں پر بار بار مسکراہٹ مچل رہی تھی پاگل کردینے ولا منظر تھا اس لڑکی کو داد دینی پڑے گی جس نے ایک گھنٹے کے اس سفر کے دوران اپنا سر جھکائے رکھا۔ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اُسنے اپنے ہاتھوں کو حرکت نا دی ناراضگی کی یہ بھی ادا تھی پورے راستے میرا موڈ خوش گوار رہا۔ گھر آتے ہی میں امی کے کمرے میں شکوہ کرنے کے لیے جانے لگا کے بتایا کیوں نہیں؟؟ لیکن میرے اندر جانے سے پہلے ہی رابی انکے کمرے سے مجھے نکلتی نظر آئی میں اندر گیا تو امی ہاتھ میں اپنے اور چچی کے زیور لیے بیٹھیں تھیں وہی زیور جو آج رابی نے پہنے تھے۔۔۔
میں تو اس بات کو بھول بھی چکا تھا لیکن رابی نے میرا بھرم رکھ لیا۔ امی سے ملکر کمرے میں آیا تو حسب توقع اتنی تھکن کے بعد بھی وہ لیپ ٹاپ لیے بیٹھی تھی۔.۔۔۔
میں اُسے گھورتا رہا ایک سیکنڈ کے لیے بھی نظریں نا ہٹائیں تو تنگ آکر اُسنے تکیہ زور سے میرے منہ پر مارا میں ہنسا تو ہنستا چلا گیا اور وہ جھنجھلاتی کہر آلودہ نگاہؤں سے مجھے گھورتی رہی۔۔
” کیا ہے؟؟ مجھے کام کرنا ہے “ وہ حد سے زیادہ چڑچڑی ہو رہی تھی یہ شاید آنے والے کی وجہ سے موڈ سوینگز ہیں۔۔
” پہلے مجھ سے باتیں کرو مجھے سلائو میں سوجاؤں تب یہ فضول حرکتیں کرنا “ وہ تو میری اسی بات کے آسرے تھی میرا سر تیزی سے اپنی گود میں رکھ کر زور سے باقاعدہ تھپڑ مارنے کے انداز میں میرا سر تھپک رہی تھی میں نے اُسکے آگے ہاتھ جوڑ دئے کے ” بی بی معاف کردو “ تو اُسکی تھپکی تھوڑی نرم ہوئی بند انکھوں سے بھی میں کہہ سکتا تھا وہ مسکرائی ضرور ہوگی میرے ہاتھ جوڑنے پر۔ یہ آج کا واقع نہیں تھا اکثر جب وہ مجھے نظرانداز کرتی میں ایسے ہی کرتا۔۔۔
دن رات تیزی سے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اس دوران چچا کو دوسرا ہارٹ اٹیک آیا تھا ڈاکٹر نے سختی سے ہدایت کی تھی تیسرا اٹیک جان لیوا ہو سکتا ہے اسلئے کھانے پینے کا خاص دھیان رکھیں کوئی بھی جان لیوا خبر انھیں نا دیں۔ چچا کے لیے الگ سے کھانا بننے لگا کھاتے وہ سب کے ساتھ تھے لیکن اپنا پرہیزی کھانا۔ اس اٹیک نے پورے گھر کو ہلا کے رکھا دیا تھا لیکن صارم اور رابی دو ایسے نفوس تھے جو انکی چلتی سانسوں کو بار بار محسوس کرنے انکے پاس آتے صارم کی دن میں تین بار کال تو ضرور آتی دونوں کو میں نے انکے لیے ہسپتال میں خود سے بےگانہ ہوتے دیکھا تھا۔ ایک ڈر کا سایہ تھا دونوں کے چہروں پر جیسے زندگی کی انمول خوشی سے محروم ہوجائیں گئے۔ گزرتے دنوں کے ساتھ چچا کی طبیعت میں بہتری آنے لگی اور ماہم کے نئے وجود نے چچا میں زندگی کی لہر دوڑا دی اُس دن ماہم کو دیکھ کر رونے والا میں اکیلا شخص نہیں تھا میرے ساتھ چچا بھی روئے تھے فرق یہ تھا اُن کے آنسوؤں خوشی کے تھے اور میرے ندامت کے۔۔
ماہم رابی کا عکس تھی ہو با ہو اُس جیسی سانولی رنگت لیکن تیکھے نین نفوش۔ وہ کلر میں رابی پر گئی تھی لیکن نفش مجھ پر گئے تھے۔
میں نے جب اُسے تھاما مجھے احساس ہی نہ ہوا کے اُسکے پیر چومتے میری بہتی آنکھوں کے اشک اُس کے پیروں پر آگرے۔۔ اُس وجود کو تھامے مجھے احساس ہوا کوئی جگر کے ٹکڑے کو توڑتا ہے، تکلیف دیتا ہے، رلاتا ہے تو کیسا لگتا ہے؟؟ کوئی اُس باپ سے پوچھے اُس پر کیا گزرتی ہے جب اُسکی تئیس سالہ زندگی کی محنت کو دوسرا شخص روندتا ہے؟؟ جو اس عورت کا مسیحا بن کر اسکے نکاح میں ہوکر اُسے ہی بےابرو کرتا ہے؟؟ میرے بہتے اشک مجھے جنجھوڑ رہے تھے۔ میں نے اسی رنگ کی وجہ سے رابی سے نفرت کی تھی وہ مجھے اپنے اس رنگ کی وجہ سے بدصورت لگتی تھی۔ لیکن آج میری بیٹی اسی رنگ کی وجہ سے مجھے دنیا کی واحد حسین لڑکی لگی جسکے حسن کا کسی سے مقابلہ نہیں۔ کوئی اس جیسا حسن رکھ ہی نہیں سکتا وہ تو چاند کو مات دیتا معصوم پریوں جیسا حسن ہے اور یہ میں نہیں ہر باپ کہتا ہے اُسکی بیٹی کوہ نور کا انمول ہیرا ہے۔۔
چاہے بیوی میدے جیسا حسن اور بیٹی کوئلے جیسا حسن رکھتی ہو انمول دل کے قریب وہ بیٹی ہے۔ صرف اپنی بیٹی اور دوسری کالی عورت نفرت میں ڈوبا وجود؟؟؟؟؟ میرے آنسوؤں میرا گریبان بھگو رہے تھے۔ آج میں اس پل سوچ رہا تھا گورا کالا کیا ہوتا ہے؟؟؟ کس نے بنایا؟؟ ان انسانوں نے کے گوری لڑکی لینگے خاندان میں روب ہوگا اسکے حسن کا۔ کیا وہ شوپیس ہے؟؟ عورت کو گھر بنانے کے لیے حسن چاہیے؟؟ عقل نہیں؟؟ کیا وہ عورت بہتر نہیں جو پل پل شوہر کی عزت کسی کانچ کی طرح محفوظ رکھے اپنے حسن کو ڈھانپے؟؟؟ حسن کی نمائش کیا خوبصورتی ہے؟؟؟ عورت کو تو پردے کا حکم دیا ہے لیکن وہاں تو نہیں بتایا گیا کے کالی لڑکی کو پردہ نہیں کرنا اور حسین کو کرنا ہے؟ وہاں تو بس ہر عورت کو پردے کا حکم دیا ہے پھر یہ انسانوں نے اللہ کی بنائی چیزوں کو کیوں تقسیم کردیا؟؟ وہاں صاف واضع ہے ایک چیز پردے کا حکم ہے پھر یہ کیوں فرق کے حسین لڑکی سے عزت ہوگی روعب ہوگا کالی سے بدنامی ہوگی؟؟؟ یعنی سفید حسن ” عزت “ ہے جسکی ” نمائش “ ضروری ہے اور کالا حسن ” بدنامی “ ہے جسے ڈھانپو نا ڈھانپو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس حسن ہو دیکھانے کے لائک ہو اور سفید ہو عزت یہی تو ہے؟؟ یہ عزت نہیں ذلت ہے جو ایک گناہ سے ہوکر دوسرے راستے کا انتخاب کرتی ہے۔۔۔
عزت تو وہ ہے جو حسن کو نیلام کرتے ہو حسن کو شوپیس کی طرح استعمال کرتے ہو حقیقت میں تم ہی حسن کے ” غرور “ (گناہ کے دوسرے راستے) سے اُسے آشنا کراتے ہو جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ عورت مرد میں نقص نکال کر تم اس بنانے والے کی تخلیق میں نقص نکال رہے ہو اپنی کم ظرفی بیان کر رہے ہو اور میں بھی تو کم ظرف تھا۔ عظیم تو چچا ہیں جنہوں نے بیٹی کو کالے رنگ سے آشنا تک نہیں کرایا ورنہ ایسی لڑکی جو میری رگ رگ سے واقف ہوگئی کیسے ہو سکتا ہے یہ خامی خود میں نا ڈھونڈے؟؟ جسے میں نے اوروں کی آنکھوں سے دیکھا۔ کیوں کے اُسے ہمیشہ سے بتایا گیا تھا وہ مکمل ہے اس سیاہ رنگ سے آشنا نہیں کرایا تھا لیکن اُسکا کردار،اُسکا حسن سلوک، اُسکی قوت دانائی جگہ جگہ پر اسکا امتحان لیا جائے گا۔۔
آفس میں باس کی صورت میں۔۔۔۔
بیوی کے روپ میں کے شوہر کا دل جیت سکتی ہے ؟؟
اور حسن سلوک سے کیا لوگوں کے رویے بدل سکتی ہے؟؟
میں بھی ایسی ہی زندگی اپنی بیٹی کو دونگا جس میں وہ مکمل شہزادی ہوگئی اور یہ کالا۔۔۔ سیاہ رنگ نا اسکے دماغ میں آنے دونگا نا اسکی زندگی میں کیوں کے میرے بیٹی مکمل حسن و صورت کا پیکر ہے کیوں کے یہ تخلیق میرے رب کی ہے اور بےشک اسکی دنیا میں کہیں نقص نہیں۔۔۔
☆.............☆.............☆
” سمان میری جان تھوڑا سا گلاب جامن کھاؤ بہت ٹیسٹی ہے “ عاشی سمان کے پیچھے پیچھے میرج حال سے باہر نکل آئی ہاتھ میں چھوٹا سا گلاب جامن تھا جو کب سے منتیں کر کے اسے کھلا رہی تھی لیکن وہ تھا کے کھیلنے میں مست اپنے دوستوں کو ڈھونڈ رہا تھا جو اس وقت سب اپنی مائوں کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔۔۔
” مدھے شنی کے شاتھ کھیلنا ہے “ سمان کے پیچھے آتے بلاآخر عاشی نے اسکا بازو تھاما تو وہ خفگی سے بولا عاشی نے اسکی بات پر دیہان دینے کے بجائے اب کے گلاب جامن اسکے منہ میں ڈالا جو سمان نے منہ میں رکھ کے واپس باہر نکالا۔۔
” ویری بیڈ یہ حرکتیں بیڈ بوائے کرتے ہیں “ نیچے جھک کر اسکی شیروانی ٹیشو سے پونچتے عاشی نے ڈانٹا تو سمان نے من پھلایا۔ جسے عاشی نظرانداز کرتی اسکا ہاتھ پکڑ کے اندر لے جانے لگی کے یکدم سر اٹھانے پر جو شخص اسے نظر آیا اسے دیکھتے ہی عاشی کو جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔
” کون تھا وہ عاشق؟؟؟ جسے برداشت نا ہوسگا اور تمہارا چہرہ جلانا چاہا؟؟؟ بہت چاہتا تھا تمہیں؟؟؟ بہت عرصے سے ساتھ تھے کیا ڈیٹ کر رہے تھے؟؟۔۔۔ “ افشین کچھ دیر پہلے ہی ہسپتال سے لوٹی تھی اسکا پورا بازو پٹی سے جکڑا ہوا تھا وہ انجیکشن کے زیرِ اثر غنودگی میں تھی لیکن موحد کے کمرے میں آنے سے کچھ دیر پہلے اسے ہوش آیا تھا اور وہ جو انتظار میں تھی موحد آئے گا اور وہ اسکے سامنے اپنے جلتے بازو کا درد عیاں کرے گی اُسکے زہریلی الفاظ سن کر وہ زمین میں دھنس گئی آنکھوں میں دھند بڑھتی چلی گئی۔ موحد نے کبھی اونچی آواز تک میں اس سے بات نا کی تھی اور آج ایسے الفاظوں کے تیر مارے تھے کے اسے اپنی ہی زندگی بوجھ لگنے لگی تھی۔۔۔۔۔
” م۔۔۔۔ موحد۔۔۔ “ دل کا درد اس قدر بڑھ گیا تھا کے لفظوں کو راستہ نہیں مل رہا تھا وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن ہمت نہیں تھی وہ اسکے آگے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔۔۔
” چپ ایک لفظ بھی کہا تو۔۔۔“
نفرت بھری سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتے موحد نے اپنے ہونٹ پر انگلی رکھ کے سرد لہجے میں اسے چُپ رہنے کا اشارہ کیا وہ اسکے بیڈ کے قریب کرسی رکھ کے بیٹھا تھا۔۔
” سات سال تم جیسی بدکردار لڑکی کو سوچا ایک ایک پل کا حصاب لونگا تم سے گھر کا ایک ایک فرد تم سے گن کھائے گا میرے پیچھے اپنی بربادی کا عالَم دیکھنا میں اگر اس کالی کے ساتھ برباد ہوا تو تمہیں بھی آباد نہیں ہونے دونگا۔۔ “ حقارت بھری نگاہیں عاشی کا وجود جلسا رہیں تھیں ایسے نظریں تھیں موحد کی جیسے وہ کوئی گند کی پوٹلی ہو۔۔۔
” میں بھی دیکھتا ہوں تم جیسی بےغیرت لڑکی سے کون غیرت مند شادی کرتا ہے “ دانت پیستے وہ پھنکارا اور اسے بازو سے پکڑے زور دار جھٹکا دیا وہی بازو جو پٹی سے جکڑا ہوا تھا افشین کی درد ناک چیخ پورے کمرے میں گونجی لیکن وہ احساس کیا کرتا؟؟؟ بےرحم درد دیکر دروازہ ٹھاہ کی آواز سے بےدردی سے بند کر کے نیچے چلا گیا افشین کو جب اپنی بربادی کا احساس ہوا تو وہ بغیر دوپٹا لئے اسکے پیچھے بھاگی۔۔۔
” م۔۔۔ مو۔۔۔موحد روکو ما۔۔ میں۔۔ نے۔۔ کچھ۔۔۔ “ وہ پاگلوں کی طرح اسکے پیچھے بھاگ رہی تھی جو تیزی سے سیڑیاں عبور کر کے نیچے چلا جا رہا تھا۔ عاشی کے ماں باپ وہی لاؤنچ میں کھڑے اسکا پاگل پن دیکھ رہے تھے کاش عاشی وہاں اپنے باپ کی نظروں میں وہ نفرت دیکھ لیتی تو اسے احساس ہوتا یہ پاگل پن کتنا مہنگا پڑھنے والا ہے۔۔
” موحد “ بیرونی دروازہ عبور کر کے وہ باہر نکل آئی اسنے کی لوک میں موحد کو چابی گھماتے دیکھ پیچھے سے اسکا بازو پکڑا۔ موحد جو کار کا دروازہ کھول رہا تھا اس لمس سے پیچھے مُڑا سرخ آنکھوں میں بےتحاشا نفرت لئے اس نے عاشی کے بولنے سے پہلے اسے دھکا دیا۔ اس لمس نے موحد کو وحشی بنا دیا وہ تو اپنی نفرت بھری نگاہ تک سے اسے نوازنا نہیں چاہتا اسکا وجود ہی اسے کوئی گند لگ رہا تھا۔۔۔
” ساری عمر یہاں سڑتی رہوگی مجھ سے دھوکے بازی کا انجام کیا ہوگا یہ اب میرے پیچھے دیکھنا کوئی تمہاری شکل پر تھوکے کا بھی نہیں۔۔۔“ وہی چٹان کو مات دیتا سخت لہجہ عاشی ویسے ہی نیچے بیٹھتی زمین پر اپنے حواس کھوتی چلی گئی اور وہ اپنی کار میں بیٹھ کر اسکی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔۔۔
آج وہ دردناک سفر ایک بار پھر اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا نجانے کیا کہا تھا اس وحشی انسان نے پاپا کو کہ آج تک انکی نفرت میں کمی نہیں آئی آج بھی انھیں اپنی ” جھوٹی عزت “ عزیز ہے۔ اس دن روتے روتے وہ وہیں نڈھال ہوگئی تھی اٹھی تو گھر میں کہرام مچا تھا ڈیڈ نے نوکروں کی فوج کے سامنے اسے زور دار تھپڑ مارا تھا اور مما نے ہینگر سے جب اس نے صارم سے شادی سے انکار کیا آخری لمحے تک وہ موحد کا انتظار کرتی رہی کے وہ آئے گا کا لیکن وہ نا آیا نا آج تک وہ اس شخص کو ذہن سے نکال پائی۔ محبت تو اب کہیں نہیں تھی بس حسرت تھی کے وہ بھی اسی کی طرح روے جتنا وہ اسکے لئے نکاح کے آخری لمحے تک روتی رہی۔۔۔
” آفشی “
موحد کے لب بےآواز ہلے اسے یقین نہیں تھا افشین بلکل اسکے سامنے کھڑی ہے وہ لڑکی جسے ایک عرصے سے وہ دل کے کونے میں چھپائے سسک سسک کے روتا ہے۔۔
افشین نے اسکے لبوں کی جنبش دیکھتے ہی اپنے قدم پیچھے کی طرف تہ کیے لیکن وہ اسے جاتا دیکھ تیزی سے اسکی راہ میں حائل ہوگیا۔۔۔
” م۔۔۔می۔۔۔میں۔۔۔ آفشی۔۔ “ موحد کی لڑکھراتی آواز میں عاشی کو اپنا عکس دیکھا جب وہ اسے بلا رہی تھی اور چاہ کر بھی حلق سے آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔ درد کی وہ کیفیت آج تک اسے یاد ہے اور اب آج اسے موحد کے منہ سے اپنا نام تک زہر لگ رہا تھا۔۔۔۔
” میرا نام افشین ہے۔۔۔ “ وہ سختی سے بولی۔ آنکھوں میں اس وقت صرف اجنبیت تھی جیسے پوچھ رہی ہوں کس حق سے بلا رہے ہو ؟؟؟؟
” بہ۔۔۔بہت ڈھونڈتا تھا تمہیں تم عامر کی شادی میں کیوں نہیں آئیں؟؟؟۔۔۔ “ وہ اسکے مزید قریب چلا آیا دل کسی بچے کی طرح اپنی چیز کے لئے سسک رہا تھا سامنے کھڑی اس لڑکی کے لیے جو کسی اور کے نکاح میں ہے. وہ اسکے ڈھیٹ بنے پر ایک حقارت بھری نگاہ ڈال کر آگے بڑھنے لگی کے موحد نے جنونی انداز میں تیزی سے اسکا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا۔۔ وہ مزامت کرتی اس سے پہلے حیرت انگیز منظر اسکی آنکھوں نے دیکھا وہ گھٹنوں کے بل اسکے سامنے کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح بیٹھا اسکے سامنے دل کا حال بیان کر رہا تھا۔۔
” آفشی میں کہنے کا حق رکھتا ہوں تم نے مجھے دھوکہ کیوں دیا؟؟ میں جانتا ہوں مجھ سے غلطی ہوگئی کاش غصّہ میں وہ قدم نا اٹھاتا میں نے تو سوچا تھا تم سے کوئی۔۔ شادی نہیں۔۔۔۔۔ “ افشین نے نفرت سے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے چھڑوایا وہ اسکی بات کا مطلب صاف جان چکی تھی کیسا گھٹیا شخص تھا وہ؟؟؟ وہ خود آباد ہو اور وہ ہجر کے لمحے کاٹے؟؟
” آفشی میں روز مرتا ہوں مجھے سکون نہیں آتا جب گھر سے نکلتا ہوں پیچھے سے تمہاری آوازیں آتیں ہیں لگتا ہے ابھی تم مجھے روک لو گی اُس دن کی طرح لیکن اِس دفع میں رکوں گا تمہاری ہر بات مانوں گا لیکن میں تو تمہارے سائے تک سے دور ہوگیا ہوں ہر پل گھر میں تمہیں چلتے پھرتے دیکھتا ہوں۔۔۔ “ ٹوٹا ہوا لہجہ تھا اسکا نظریں بس افشین پر جمی تھیں جیسے اسکے نظر پھیرنے سے ہوا میں موجود کسی دوھیں کی طرح اسکے سامنے سے یکدم وہ غائب ہو جائے گی۔۔۔
” میرے سات سال۔۔ کوئی وہی لوٹا دے ایک حق تو تھا تمہیں یاد کرنے کا اب تمہاری سوچ بھی گناہ لگتی ہے تم کسی اور کی بیوی ہو ہر بار یہ سوچ پل پل مارتی ہے مجھے۔۔ میں نے تمہارے سوائے کسی کا تصور نہیں کیا تم ہر پل ہر کہیں میرے ساتھ تھیں لیکن ان گزرے چھ سالوں نے مجھ سے جینے کی وجہ چھین لی ہے۔۔۔ “ وہ کرب سے بولا آنکھیں لہو ٹپکا رہیں تھیں ان سرخ دوڑوں میں ہلکی سے نمی تیرنے لگی۔۔
” میں بہت پیار کرتا ہوں تم سے تم کیسے کسی اور کے ساتھ خوش رہ سکتی ہو؟؟؟ مجھے کال بھی نہیں کرتیں گھنٹوں انتظار کرتا تھا تم کال کروگی بلاؤ گی لیکن تم خوش کیسے ہو سکتی ہو؟؟؟ میں مر رہا ہوں آفشی۔۔۔ “
وہ جنونی انداز میں کہتے اسے کوئی پاگل ہی لگا جو گہری نظروں سے اس کا پور پور حفظ کر رہا تھا۔۔ سارے الزام اسکی ذات کے سپرد کرکے وہ خود کو کوئی معصوم سمجھ رہا تھا اسکی آنکھیں اسکا انداز عاشی کو خوف میں مبتلا کر رہا تھا وہ یکدم سے پیچھے ہٹی۔۔
” ڈرو نہیں پلیز۔۔۔ میں تمہیں خوش دیکھ کر بےچین ہو رہا ہوں تم کیسے مجھے بھول سکتی ہو؟؟ تم تو اتنا روئیں تھیں اس رات فون کر رہیں تھیں پھر کیسے بھول گئیں یہ بچے انکو دیکھ کر۔۔۔۔ “ وہ اسے پیچھے ہٹتے دیکھ تیزی سے کھڑا ہوا اور اپنا ہاتھ بڑھایا عاشی پیچھے ہو رہی تھی کے یکدم سمان نے عاشی کی ٹانگ پکڑ لی اور اس سے چمٹ گیا اور تبھی موحد نے نفرت سے بچے کو دیکھتے وہ آخری لفظ آتا کیے۔۔۔
” گھٹیا شخص تمھاری ہمت کیسے ہوے اپنے نفرت میرے بیٹے پر انڈھیل رہے ہو۔۔ دفع ہوجاؤ مجھے تمہاری شکل تک نہیں دیکھنی۔۔۔ “ عاشی نے سمان کے بازو اپنی ٹانگوں سے ہٹائے اور قریب آکر سامنے کھڑے اس شخص کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کے اسے پوری قوت سے خود سے دور دھکیلا۔ لیکن وہ تو اس وقت جنونی بنا ہوا تھا دھکا کھانے کے بعد بھی وہ دوبارا اس کے قریب چلا آیا اور پوری قوت سے چلاتے ہوے اسکے اوسان خطا کردیے۔۔
” میرا سر پھٹتا ہے آفشی تم میری منگیتر تھیں اس سے کیوں؟؟ “ دونوں ہاتھوں سے بال نوچتا وہ چلا رہا تھا عاشی نے ڈر کے مارے جلدی سے سمان کو اٹھا کر خود میں بھینچ لیا اسکی آنکھیں خوف سے پوری کھلی ہوئِیں تھیں ٹانگیں الگ کانپ رہیں تھیں اس شخص کا انداز دیکھ کر۔۔
” میں خوش نہیں ہوں تم واپس آؤ۔۔۔۔ ۔ میں بہت روتا ہوں جب سے انسپکٹر نے بتایا تھا وہ ایسڈ تم پر نہیں تمہاری کسی دوست پر گڑانا تھا۔۔۔۔ “ اسکی چیخیں بلند ہو رہیں تھیں آنکھوں میں لی جنونیت نے عاشی کے وجود میں خوف سے کپکپی طاری کردی وہ اسکی طرف بڑھتا عاشی کا جسم بےجان کر رہا تھا اس سے پہلے وہ اپنے حواس کھوتی آگے بڑھتے اس وحشی شخص کو کسی نے زور سے ٹھوکر ماری وہ اس شخص کو دیکھتی اس سے پہلے ہی اسے اپنی ٹانگوں سے ایک اور وجود چیپٹا ہوا محسوس ہوا اس لمس کو وہ کیسے بھول سکتی ہے؟؟؟ یہ ننے ہاتھ سلمان کے تھے اسکے بیٹے کے۔۔