” یہ ٹانگ آج ہی تڑوانی تھی؟؟ “ آبی کے منہ کے زاویے بگڑے ہوے تھے لہجہ سرد تھا صارم کی شکل دیکھ کر کہیں سے نہیں لگ رہا تھا وہ اتنے بڑے ایکسیڈینٹ سے بچ نکلا ہے۔۔
” تم اپنا شیڈول بتاتے اُس حساب سے میں اپنے اوپر گاڑی چڑواتا۔۔۔ “ صارم مونگ پھلی کھاتے چڑ کر بولا نظریں سامنے روتی افشین پر تھیں جو ایک گھنٹے سے لگاتار روتے ہوئے خود کو ہلکان کر چکی تھی تین بار تو صارم نے غصّے سے ڈانٹا بھی لیکن وہ کیا اس کے غصّے سے ڈرتی تھی؟؟ اپنا مشغلہ جاری رکھا۔ صارم کی ایکسیڈنٹ کی خبر سب سے پہلے رابی کو ملی تھی جو آبنوس کے ساتھ ہسپتال چلی آئی راستے میں اس نے افشین کو بھی ساتھ لیا جو صبح تک صارم کے نا آنے پر رو رو کر خود کو نڈھال کر چکی تھی۔ رابی نے خالہ کو تو نہیں لیکن خالو کو اس حادثے کا بتایا تو الٹا انکے جواب نے رابی کے پریشان موڈ کو یکدم بحال کیا۔۔۔
” کمبخت کو بولنا تھا کہ ٹانگ کے بجائے کبھی اپنا سر تڑوا کر ہمیں بخش دے یا یاداشت کھو کر ہمیں بھول جائے احسان ہوگا اُسکا “ خالو کی بات سن کر رابی کی ہنسی چھوٹ گئی۔ رابی نے آتے ہی خالو کا پیغام صارم کو دیا جسے سنتے ہی وہ دانت پیس کر رہ گیا اور کہا بولنا اپنے خالو سے ” آپ کا پیچھا تاقیامت نہیں چھوڑے گا صارم “ صارم اب بیڈ پر لیٹا مونگ پھلی کھا رہا تو جو اس نے رابی سے ضد کر کے آبنوس سے منگوائی تھی۔ جس نے خون کے گونٹ پی کر ان بہن بھائی کو سرد نظر سے نوازتے مونگ پھلی لاکر دی اب وہ ایسے مزے سے بیڈ پر لیٹ کر کھا رہا تھا جیسے آبنوس نہیں بلکے صارم اس کی عیادت کرنے آیا ہو کہیں سے نہیں لگ رہا تھا ایکسیڈنٹ سے زندہ بچ کر آیا ہے۔۔
” چچا کی باتوں پر اب یقین ہوتا ہے “ اسے اسی طرح ٹھوستے دیکھ آبی نے کہا
” کیا؟؟ “ صارم کو تشویش لاحق ہوئی۔۔
” یہی کے انکی بیٹی آدھی پاگل تھی باقی ساری شاطرانہ چالیں تم نے سیکھا کر اسے پورا پاگل کیا ہے “ اس الزام پر صارم فخر سے مسکرایا اور آخر میں کڑوے بدام کی طرح بُرا سا منہ بنا کر بولا
” یہ نہیں بتایا رابی کی چھوٹی سی چھوٹی خبر میں انھیں دیتا ہوں؟؟ سارے کارناموں کی رپورٹس میں لیکر جاتا ہوں۔۔ “ صارم نے اسکی معلومات میں اضافہ کیا۔۔
” واہ سارے الٹے کام کروا کر شکایات؟؟؟ کیا گناہ دھلوا رہے ہو اپنے؟؟ “ خشک لہجے میں آبی خفگی سے بولا
” اس لئے بتاتا ہوں کے کل کو مجھے کچھ ہوگیا تو بابا کو علم ہو۔۔ “ مونگ پھلی کا دانا چباتے سکون سے جواب دیا۔۔
” یہ سب کر کے کیا ملتا ہے؟؟ “ آبی نے تیز نظر سے نوازتے پوچھا راستے میں رابی نے اسے بتایا کے ہر ماہ ایکسیڈنٹ کرانا اسکا پسندیدہ مشغلہ ہے۔۔۔
” کیا؟؟ “ ایک ابرو اچکا کے صارم نے بےزاریت سے سر جھٹکا نظریں اب بھی افشین پر تھی جو ٹشو سے ناک صاف کر رہی تھی اور رابی خود اسے عجیب نظروں سے دیکھتی نجانے کیا سوچ رہی تھی رابی کی شکل دیکھ کر صارم کو ہنسی آرہی تھی وہ جانتا تھا سوال کیا ہوگا؟؟
” یہ جو پٹ کر آتے ہو “ آبی کی بات سے وہ اس طرف متوجہ ہوا اور ایک سخت نظر سے اسے نوازا۔ جانتے ہوے بھی انجان بن کر سوال پوچھا بھی تو کیا؟؟؟
” انہی سوچوں کی وجہ سے ملک آج پیچھے ہے۔۔۔ “
دانت پیستے صارم نے کہا یہ بات اسے ناگوار گزری اور آبی سوچ رہا تھا دونوں بہن بھائی کی عقل نہیں باتوں کا رخ بھی ایک ہی طرف پلٹتا ہے پوچھ ان زخموں کا رہا تھا اور بات ملک تک جا پہنچی۔۔۔
” میرا مطلب ہے ڈائریکٹ پولیس یا آرمی جوائن کرلو “
آبی نے اسے مشوارا دیکر اسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ صارم نے خون خوار نظروں سے اسے گھورا جسنے اسکا زخم تازہ کردیا۔۔۔
” مجھے غلامی منظور نہیں۔ کسی کے انڈر رہ کر کام نہیں کر سکتا۔۔ ویسے یہ ساری خبریں کس غدار نے
دیں؟؟ “ دونوں بازو پیچھے کر کے گردن کے نیچے رکھتے اس نے اپنی صفائی دی یا یہ کہا جائے جلتی آگ بھجا کر اپنا بھرم رکھا اور ساتھ اس غدار کا نام پوچھا۔۔
” میرے سسر نے۔۔۔ “ آبی نے اپنا کالر پکڑ کر فخر سے جھٹکا اور تمخسرانہ انداز میں اس کی طرف دیکھتے کہا
اس شان سے جواب آیا تھا اکلوتے داماد کا کے صارم دانت پر دانت جمائے دیکھتا رہا سسر کے نام پر چہرہ ہی روشن ہوگیا تھا جناب کا۔ صارم نے نظریں پھیر لیں۔۔
” ویسے رابی کیسی لگی؟؟ “ تھوڑی دیر بعد اسے تنگ کرنے کے غرض سے صارم نے پوچھا اپنے تازہ ہوتے زخم کا حساب بھی لینا تھا ایسی ایکسرے کرتی کھوجتی نگاہیں تھیں صارم کی کے آبی نے دل میں اسے سو گالیوں سے نوازا۔ آبی کو یقین تھا وہ انکے رشتے کے بارے میں سب جان کر بھی انجان بن رہا ہے۔۔
” سہی ہے۔۔۔ “ ٹکا سا جواب آیا تھا جس نے صارم کو مسکرانے پر مجبور کردیا جلتے دل کو ٹھنڈک سی ملی۔۔
” یہ اسکے سامنے بولنا ذرا جینا حرام کردیگی۔۔ “ ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھے دوسرے سے دوبارہ مونگ پھلی کا دانا اٹھاتے صارم نے کچھ تنبیہی لہجے میں کہا۔۔
” مرتی ہے مجھ پر باقاعدہ روکر کہا تھا میں آپ سے محبت کرتی ہوں “ آبی نے پُر اعتماد لہجہ میں اپنا بھرم رکھنے کو کہا۔۔ ورنہ اظہار اور رابی۔۔
” پی کر آئے ہو یا میری شکل پر بیوقوف لکھا ہے؟؟ “
مذاق اڑاتا لہجہ تھا صارم کا۔ آبی نے چونک کر اسے دیکھا جو ذرا برابر بھی اسکی بات پر نا ٹھٹکا نا حیرت ظاہر کی تھی اُسے تو جیسے یقین تھا سفید جھوٹ بولا ہے الٹا وہ آبی کی ہمت پر ہنس رہا تھا۔۔
” سچ کہہ رہا ہوں “ صارم سے زیادہ جیسے خود کو حوصلہ دے رہا تھا۔ صارم اسکے انداز پر ہنسی نا روک سکا جو اتنے دھیرے سے کہہ رہا تھا کے صارم کو کان لگا کر سننا پڑ رہا تھا اور ایسا کیوں تھا اسکا جواب سامنے بیٹھی رابی تھی جو ان دونوں سے انجان بس افشین کو سنبھال رہی تھی۔
” میری آدھی جائیداد تمہاری آگر یہ اسکے سامنے کہو “
صارم نے فاتحانہ نگاہوں سے اسے دیکھتے چلیںنج کیا۔
” مرد کو گوارا نہیں کرتا محبت کی داستانیں اس طرح بیوی کے منہ سے بلاوائے “ صارم کا ہلق پھاڑ قہقہ آبی کا منہ دیکھتے بلند ہوا جو معصومانہ انداز میں کہہ رہا تھا۔۔ چہرے پر صاف لکھا تھا ” میری بھی حسرت ہے یار دل کے کیا زخم دیکھائوں؟؟ “
” پیٹھ پیچھے ڈینگیں مارنا گنوارہ کرتا ہے؟؟ “ صارم نے آنکھیں سکوڑ کر مذاق اڑانے والے انداز میں کہا جسے آبی نے بمشکل ہضم کیا۔۔
” ڈی ایف ایم “ ہلکی سے آبی کی بڑبڑاہٹ پر صارم مسکرایا یہ تکیا کلام رابی کا تھا۔۔
” رابی نے تم پر اپنا اثر چھوڑ دیا ہے۔۔ ویسے ایک فری ایڈوائس دوں؟؟ کبھی رابی سے روڈلی بات نہیں کرنا، نا نظرانداز ویسے ایسے کیا بھی اور ایک ماہ سے زیادہ تک گیا تو پھر تم اُسے شہر شہر گلی گلی ڈھوڈنتے پھرو
گے۔۔۔ “ صارم نے اسکے قریب کھسکتے رازداری سے کہا اور واپس مونگ پھلی رکھ کے لیٹ گیا۔۔
” کیا مطلب؟؟ ” آبی نے ابرو اچکائی۔۔
” مطلب بہت پوچھتے ہو یار میرا خیال ہے سمجھانے سے زیادہ عملاً دیکھانا بہتر ہے “
” رابی “ صارم نے کہتے ہی افشین کو ٹشو پکڑاتی رابی کو مخاطب کیا جسکا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔۔
” جی بولیں؟؟ “ رابی نے دانت پر دانت جمائے کہا افشین نے اسکو اچھا خاصا غصّہ دلایا تھا جسکا اندازہ صارم کو تھا اسکے انداز پر وہ مسکراہٹ ہونٹوں تک روک گیا۔۔
” شوہر نظرانداز کرے، غصّہ کرے تو عورت کو کیا کرنا چاہیے؟؟ “ صارم نے کہتے ہی آخر میں چیلنج کرتی نگاہوں سے آبی کو دیکھتے اشارہ کیا کہ اب ” غور سے سننا “ آبی نے بس اسے ایک گھوری سے نوازا اور رابی کی طرف متوجہ ہوا۔۔
” کیس “ رابی کا جواب سن کر آبی بھونچکا رہ گیا پورے آنکھیں یکدم سے کھل اٹھیں۔۔۔ ” نا ہضم ہوا تھا “ ” نا سمجھ آیا تھا بس کیس سے کورٹ ذہن میں آیا تھا۔۔
” کیس کیا ؟؟؟ “ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسنے رابی سے پوچھا سمجھ تو آگیا لیکن شاید دماغ نے اس غم کو
” ایکسیپٹ “ نہیں کیا۔۔
” رابی ذرا تفصیل سے بتانا۔۔ “ صارم نے جلتی پر تیل پھینکنے کا کام کیا۔۔۔
” عدالت میں گھسیٹنا۔۔۔ “ رابی نے آبی کو دیکھتے کہا جو صاف لفظوں میں بھی اسکی بات سمجھ نا سکا تھا جبکے صارم کے ہونٹوں پر ہلکی مسکراہٹ رینگ گئی لیکن آبی تو منہ کھولے اسکی انصافی سن رہا تھا جو وہ کہ رہی تھی۔۔۔۔
” اتنے کیسسز بنتے ہیں ایسے شوہر پر ایک ایک بات جج کو بتاتی..... “ رابی کا حسب توقع میٹر گھوم گیا پھر سے پرانی یادیں ذہن پر گھومنے لگیں۔۔
” جیسے؟؟؟ “ تحمل سے صارم آگ لگا کر اب پوچھ رہا تھا۔۔
” گھر خرچ نہیں دیتا، شک کرتا ہے، ذہنی ٹارچر کرتا ہے، طعنے دیتا ہے، پابندی لگاتا ہے، اپنی مرضی سے سانس تک لینے نہیں دیتا، کسی سے ملنے نہیں دیتا گھر کو تالا لگا کر جاتا ہے، اور بھی بہت سے ظلموں کی پوری لسٹ ہے “ آبی حیرت سے اسکی چلتی زبان دیکھ رہا تھا جو صاف اسے وارننگ دینے کے لئے چل رہی تھی تبھی باتوں کے دوران نرس کمرے میں داخل ہوئی اور صارم کے پیر کا جائزہ لینے لگی جو اس وقت ایک تکیے کے اوپر رکھا تھا۔۔۔۔
” سب تو نے ہی سیکھایا ہے نا؟؟ “ دبی دبی آواز میں وہ دھاڑا۔۔
” بلکل “ سر کو خم دیکر صارم نے خراج تحسین لی
” ڈوب مر “ آبی نے انگارہ ہوتی آنکھوں سے اسے دیکھا کاش انہی انگاروں سے وہ اسے بھسم کر سکتا ساتھ ایک جھانپڑ اسکے کندھے پر رسید کیا اس طرح کے جیسے دیکھنے والوں کو لگے داد دے رہا ہے۔۔
” یہ ظلم نا کر ابھی شادی ہوئی ہے “ مزید وہ اسے تپا رہا تھا۔۔۔
” بیچاری کی قسمت پھوٹی ہے “ آبی نے افشین کو ایک نظر دیکھتے اُس پر افسوس کیا لیکن صارم پر کہاں اثر ہونا تھا؟؟ صاف اسی پر طنز کیا۔۔۔
” رابی کی طرح “
صارم نے رابی کی طرف آنکھ سے اشارہ کر کے کہا۔۔۔
” تیرا بھی وقت آئے گا ایسا پاسہ پلٹونگا اندھا ہوجاے
گا کمینے “ کندھے پر رکھے ہاتھ کو ایک دفع اور زور سے مارا جو رابی کی آنکھوں سے پوشیدہ نا رہ سکا۔۔
” ساتھ تجھے گونگا کرونگا “ صارم نے آنکھ مارتے کہا وہی ڈھیٹ انداز آبی خاموشی سے بیٹھ گیا پھر کچھ دیر بعد وہ رابی کو چھوڑ کر خود گھر چلا آیا آج آفس میں پہلا دن تھا اسکا جسے وہ کسی طور مس نہیں کر سکتا تھا۔
☆.............☆.............☆
” تمہاری بیوی مجھے زہر لگ رہی ہے “ عاشی جب آبی کے سامنے رکھے بیڈ پر سو گئی تو رابی صارم کے پاس چلی آئی۔۔۔
” کیوں؟؟؟ “ صارم کو سخت بُرا لگا تھا لیکن رابی کی نیچر سے وہ واقف تھا جو دل میں وہ زبان پر۔۔
” اتنا روئی ہے، آج تک میں نے کسی لڑکی کو اتنا روتے نہیں دیکھا “ کوفت سے کہتے رابی نے صارم کے لئے جوس گلاس میں نکالا جو اُسنے صبح آبی سے منگوایا تھا۔۔۔
” ماسٹر پیس ایکسپورٹ ہوا ہے نا زمین پر “ صارم نے اسکا موڈ ٹھیک کرنے کی غرض سے کہا
” کہاں سے؟؟ “ رابی نے چونک کر پوچھا
“ آسمان سے یار۔۔ “ جوس لیتے صارم نے تحمل سے جواب دیا پھر اسکی کنڈیشن کا پوچھا۔۔۔
” اسنے تم سے کچھ پوچھا؟؟ کہاں تھا یا کچھ؟؟ “
” نہیں بس روئے جا رہی ہے کہہ رہی تم سے بھی کبھی بات نہیں کریگی “ صارم نے گہرا سانس خارج کیا وہ اسکی حالت کا اندازہ لگا سکتا ہے ایک وہی شخص تو تھا دنیا میں جو اس وقت اسکے درد کو مرہم لگانے والا پہلا اور آخری شخص تھا۔۔۔
” رابی میں اسکی آخری امید ہوں میرے علاوہ اسکا کوئی نہیں اور میں نہیں چاہتا وہ تمہیں بُری لگے “ صارم نے کچھ پل کی خاموشی کے بعد کہا۔۔
” اب لگ رہی ہے تو کیا کروں؟؟؟ “ الٹا رابی نے بےزار کن لہجے میں کہا۔۔
” ڈانس کرو!!! “صارم نے تپ کر کہا۔
” مجھے بلکل اچھا نہیں لگا تم نے اسے ذہر کہا اپنا نظریہ بدلو “ پھر معصومانہ احتجاج کیا۔۔
” وہ تب بدلنا جب کچھ اچھا دیکھونگی اس وقت تو میری آنکھوں نے صرف ٹشو کا پورا پیکٹ ختم ہوتے دیکھا ہے “ رابی نے اس قدر حیرانگی ظاہر کرتے کہا کے صارم کی ہنسی چھوٹ گئی کیوں کے آج تک واقعی رابی کا کسی ایسی لڑکی سے پالا نہیں پڑھا نا وہ رونے دھونے والوں کے آس پاس بھٹکتی تھی۔ بعد میں صارم کافی دیر اسے یہی سمجھاتا رہا۔۔۔
” رابی شادی کے بعد آج وہ پہلی بار روئی ہے میری پناہوں میں جو شخص ہوتا ہے میں اسکے گرد ایسا حصار کھنچتا ہوں کے وہ چاہ کر بھی اپنی سوچوں پر کسی اور کو سوار نہیں کر سکتا۔۔۔ اب تک میں نے عاشی کو چپ نہیں کرایا حالانکہ اپنے طریقے سے کراسکتا ہوں لیکن پتا ہے کیوں نہیں کرایا؟؟؟ شادی کی پہلی رات سوجی آنکھیں لیے وہ کسی اور کے لئے رو رہی تھی اور آج وہ صرف میرے لئے رو رہی ہے یہ آنسوؤں بھی اتنے انمول لگے کے آج سچ میں مجھے لگا میرے ایک مہینے کی محنت رنگ لے آئی۔۔ سات سال۔۔۔۔۔ “ صارم نے ایک گہرا سانس خارج کیا
” سات سال مذاق نہیں ہوتے رابی سات سال کی محبت اگر ناسور بن جاتی نا میں تھک جاتا،تنگ آجاتا،اپنا آپ بھلا دیتا لیکن جیت کی خوش مجھے کہیں سے نا ملتی لیکن یہ اس پاک رشتے کی خوبصورتی ہے جس نے ہم دونوں کو عادت کی ایسی زنجیریں ڈال دی کے اب وہ ہمسفر پاس نہیں ہوتا تو دنیا ادھوری لگتی ہے جسم تو ہوتا ہے لیکن جان نہیں۔۔ وہی تصور ہے عاشی کا اب اگر میں سو بھی جاؤں نا یقیناً کہہ سکتا ہوں دس بار وہ میری سانسیں چیک کرنے آئے گی اور جس پل یہ سانس تھمی وہیں اُسکا دماغ اُسکا ساتھ چھوڑ جائے گا کیوں کے ہر غم بھلانا آسان نہیں ہوتا کچھ غموں، دُکھوں، دی گی اذیتوں میں اتنی تڑپ اتنی شدت ہوتی ہے کے انسان کا وجود مٹی کی طرح بکھر جاتا ہے اور چاہ کر بھی کوئی سمیٹ نہیں سکتا۔۔۔ کیوں کے اس وجود کے بکھرے ٹکرے تمہیں دنیا کے ہر کونے میں ملیں گے لیکن انھیں سمیٹتے سمیٹتے یہ روح انسان کا ساتھ چھوڑ دیگی اور ضروری نہیں وجود کا ہر ریزہ ہوتا ٹکڑا اسے واپس ملے۔“ صارم کی باتیں پہلے اسے سمجھ نا آتیں لیکن اب جب خود وہ اس بندھن میں بندھی ہے اسے ادراک ہو رہا ہے یہ عادت ہی ہے جو انسان کو انسان کی اہمیت دلاتی ہے پاس نا ہوکر اسکی کمی محسوس کراتی ہے اہمیت جگاتی ہے اور کب وہ عادت محبت میں بدلتی ہے پتا نہیں چلتا بس پاس نا ہوں تو بےچینی رگ و جاں میں سرایت کرتی ہے اور اپنا ہی وجود ایک بوجھ سا نامکمل سا لگتا ہے۔۔۔
☆.............☆.............☆
مجھے نہیں پتا تھا تم اتنی خطرناک ہو “ درخت سے ٹیک لگائے وہ رابی کو اپنی نظروں کے حصار میں لئے ہوے تھا اس وقت وہ صبح آفس کے لئے پہنے سوٹ میں ملبوس تھا گھر آتے ہی وہ گارڈن میں چلا آیا اسے یقین تھا وہ اس وقت یہیں ہوگی۔۔۔
” آپ کی سوچ سے زیادہ ہوں “ پنسل سے بناۓ گئے اسکیچ کو شیڈ کرتے وہ فخریہ انداز میں بولی......
” میرے سامنے تو بھیگی بلی بن رہیں تھیں “ پینٹ کی جیب میں ہاتھ پھنسائے وہ گہری نظروں سے اسکا جائزہ لیتے معصومانہ طنز کر رہا تھا۔۔
” کب بنی؟؟؟ کبھی ایک آنسوؤں اپنے لئے بہتے دیکھا؟؟ “
رابی متفکرانہ انداز میں بولی۔ خود پر یقین تھا، اعتماد تھا کے وہ شوہر کے مقابل کھڑی الٹا اُسکا مذاق اڑا رہی تھی۔۔
جبکے وہ اس پراعتماد سی لڑکی کو دیکھ کر کیا کچھ نا سوچ رہا تھا؟؟ اپنی باتوں، اپنی عادتوں، اپنی صلاحیت، اسکے لیے بولے گئے جھوٹ سے وہ اسکے گرد اپنا مضبوط حصار بنا چکی ہے اور آج تقدیر کا پلٹتا پاسہ تھا کے جسے آبی نے ریجیکٹ کیا تھا آج وہ اُسی کی چاہت میں مبتلا بھاگا بھاگا اُسکی تلاش میں یہاں چلا آیا جبکے آج وہ اسکے مقابل کھڑی الٹا اس سے پوچھ رہی تھی اتنی بےرُخی کے بعد کبھی آنسوؤں بہاتے دیکھا؟؟
” تمھیں پتا ہے تم نے میرے گرد ایسا حصار کھنچا ہے جس سے میں چاہ کر بھی نکل نہیں سکتا “ وہ بےخودی کے عالَم میں کہتا اسکے مقابل آن کھڑا ہوا خمارآلودہ آنکھوں میں رابی کو اپنا عکس واضع نظر آیا۔۔۔
” ایسی چاہت رکھتے کیوں ہو؟؟ محبت بیوی سے ہی ہونی چاہیے “ وہ کہاں اسکے ہاتھ لگنی تھی؟؟ آبی کا بدلتا موڈ دیکھ کر بات سے ایک الگ ہی موضوع نکال بیٹھی۔۔
” بیوی کو شوہر سے نہیں ہونی چاہیے؟؟ “ انگوٹھا اور شہادت کی انگلی سے اسکی ٹھوڑی کو تھامے آبی نے کان کے قریب آکر بہکے بہکے لہجے میں سرگوشی کی۔۔
” کیا فرق پڑتا ہے؟؟ بیوی تو ہر دم ساتھ رہتی ہے بھٹکتا تو شوہر ہی ہے “ رابی تیزی سے دو قدم پیچھے ہٹی اسے یہ چھچھوری حرکتیں سخت ناگوار لگتیں تھی جسکی وجہ سے ابھی تک اسکے گال غصّے اور شرم کی وجہ سے سرخ تھے۔۔
” غلط الزام ہے،،،،، بیوی بھی بھٹک سکتی ہے “ وہ اپنی بات پر زور دیتا ہوا دو قدم کا فاصلہ واپس طے کر کے اسکے قریب آیا۔۔
” کبھی نہیں بھٹکے گی، کبھی بھی نہیں، اسے محبت نا دو بس عزت دو کمرے میں بھی کمرے کے باہر بھی نظرانداز ہونا کسی بیوی کو قبول نہیں “ ہاتھ میں تھامی پنسل کو الٹا کر کے نوک کی دوسری سائیڈ وہ اسکے سر پر رکھے خود سے دور دھکیلتے تحمل سے بولی جبکے اگلے ہی لمحے آبی نے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا۔۔۔۔۔۔
” میرا اسکیچ کب بناؤ گی؟؟؟ “ آبی نے اپنا سر اسکے سر پر ٹکائے مخمور لہجے میں کہا۔۔۔۔
” کبھی نہیں!!!! جو مجھے اچھے لگتے ہیں انہی کا بناتی ہوں “ اسکے جواب پر وہ جی جان سے ہنسا اسکی ہنسی میں رابی کی ہلکی سے مسکراہٹ بھی شامل ہوگئی۔۔۔
” عزت ہی نہیں محبت بھی حق ہے بیوی کا “ میں نے پہلو میں سوئی رابی کی پیشانی چومتے سوچا میری نظریں اُسی پر مرکوز تھیں جسکے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ تھی۔ باتیں کرتے کرتے نجانے کب اُسکی آنکھ لگی مجھے بھی اندازہ نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔